ایک جاہلانہ غلط فہمی کا ازالہ ۔۔ ضروری اقدام برائے توفیق الہی:
ایک جاہلانہ غلط فہمی کا ازالہ ۔۔ ضروری اقدام برائے توفیق الہی:سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی استغفار سے متعلق حدیث کا یہ مفہوم سمجھنا کہ (معاذ اللہ) اس حدیث میں گناہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے، بالکل غلط مفہوم ہے، ذیل میں متبحر علماء کرام نے اس حدیث کا ترجمہ اور تشریح ذکر کیا ہے:یہ حدیث “صحیح” ہے، حدیث کی مشہور کتاب “صحیح مسلم” میں ذکر کی گئی ہے۔اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی شانِ غفّاریت کا بیان کیا گیا ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کو بندوں کی بخشش سے اتنی خوشی ہوتی ہے کہ بالفرض اگر انسان (جن کی سرشت میں خطا کار ہونا موجود ہے) گناہ نہ کریں اور فرشتہ صفت بن جائیں، ان سے گناہ سرزد ہی نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاریت کا اظہار کن پر ہوگا اور پھر اللہ تعالیٰ کس کی بخشش فرمائیں گے؟ اس کا لازمی تقاضا یہ ہوگا کہ ایسی مخلوق پیدا کی جائے جو گناہ کرے تو اس کی مغفرت کر کے اللہ تعالیٰ کی شانِ غفّاریت کا اظہار ہو۔ اس حدیث کا یہ مفہوم سمجھنا کہ (معاذ اللہ) اس حدیث میں گناہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے، بالکل غلط مفہوم ہے، ذیل میں اس حدیث کا ترجمہ اور تشریح ذکر کی جاتی ہے:حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی وفات کے وقت فرمایا کہ میں نے ایک بات رسول اللہ ﷺسے سنی تھی اور تم سے اب تک چھپائی تھی اب جب کہ میرا آخری وقت ہے وہ میں تم کو بتاتا ہوں اور وہ امانت تمہارے سپرد کرتا ہوں میں نے حضور ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا، آپ ﷺ فرماتے تھے: اگر بالفرض تم سب ملائکہ کی طرح بے گناہ ہو جاؤ اور تم سے کوئی گناہ سرزد نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اور مخلوق پیدا کرے گا، جن سے گناہ سرزد ہوں گے، پھر اللہ تعالی ان کی مغفرت کا فیصلہ فرمائے گا اور اس طرح اس کی شانِ غفاریت کا اظہار ہوگا”۔ (صحیح مسلم: حدیث نمبر: 2748)تشریح: اس حدیث سے یہ بات سمجھنا کہ اللہ تعالی کو (معاذ اللہ) گناہ مطلوب ہیں اور وہ گناہ گاروں کو پسند فرماتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعے گناہوں اور گناہ گاروں کی ہمت افزائی فرمائی ہے بڑی جاہلانہ غلط فہمی ہو گی۔ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ لوگوں کو گناہوں سے بچایا جائے اور اعمال صالحہ کی ترغیب دی جائے۔ دراصل حدیث کا منشا اور مدعا اللّٰہ تعالی کی شانِ غفّاریت کا ظاہر کرنا ہے اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالی کی صفت خالقیت کے ظہور کے لئے ضروری ہےہے کہ کوئی مخلوق ہو جس کو رزق کی ضرورت ہو اور اللہ تعالی اس کو رزق عطا فرمائے، علی ہذا القیاس جس طرح اللہ تعالیٰ کی صفت ہدایت کے لئے ضروری ہے کہ کوئی مخلوق ہو جس میں ہدایت لینے کی صلاحیت ہو اور اللہ تعالی کی طرف سے اس کو ہدایت ملے، اسی طرح اللہ تعالی کی شانِ غفاریت کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی مخلوق ہو، جس سے گناہ بھی سرزد ہوں، پھر وہ اللہ تعالی کے حضور میں استغفار کرے اور گناہوں کی معافی اور بخشش مانگے اور پھر اللہ تعالی اس کی مغفرت اور بخشش کا فیصلہ فرمائے، اس لئے ناگزیر ہے اور ازل سے طے ہے کہ اس دنیا میں گناہ کرنے والے بھی ہوں گے اور ان میں سے جن کو توفیق ملے گی وہ استغفار بھی کریں گے اور اللہ تعالی ان کی مغفرت کا فیصلہ بھی فرمائے گا اور اس طرح اس کی صفت مغفرت اور شانِ غفاریت کا ظہور ہو گا۔سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اس ارشاد کا اپنی زندگی میں اس خیال سے کبھی تذکرہ نہیں کیا کہ کم فہم لوگ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جائیں، پھر اپنے آخری وقت میں اپنے خاص لوگوں سے اظہار فرما کر امانت گویا ان کے سپرد کر دی، یہی مجموعہ الفاظ کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔(ماخوذ از معارف الحدیث: 5/ 202، مؤلفہ: مولانا محمد منظور نعمانی رحمہ اللّٰہ، طبع: دارالاشاعت، کراچی)عموماً لوگوں کو ایسی روایات کا علم نہیں ہوتا ہے، اگر علم ہو بھی تو اس کا غلط مفہوم ذہن میں سمجھ لیا ہوتا ہے، بظاہر جن صاحب نے اس روایت کو سن کر ماننے سے انکار کر دیا ہے، اس کی وجہ حدیث کا انکار کرنا نہیں ہو گا، بلکہ اس کے علم میں پہلی مرتبہ ایسی حدیث آئی جس میں گناہ کے متعلق اس کے ذہن کے مطابق اجازت دی گئی ہے، جبکہ یہ مفہوم غلط ہے۔اگرچہ ان کا یہ طرزِ عمل نامناسب ہے کہ جس بات کا علم نہ ہو اسے ماننے سے ہی انکار کر دیا جائے، بلکہ اس بارے میں صحیح علم حاصل کرنا چاہئے اور اس کا صحیح مفہوم علماء کرام سے سمجھنا چاہیے۔جب تک یقین سے نہ معلوم ہو کہ وہ شخص حدیث کو ماننے سے انکار کر رہا ہے، اس وقت تک اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا ہے۔مندرجہ بالا حدیث صرف توبہ و استغفار کی فضیلت اور توفیق الٰہی کے لئے ہے۔۔ مزید تفصیل کے لئے قرآن پاک کی سورت العصر کا ترجمہ اور تفسیر کو غور سے پڑھیں۔۔۔اللہ تعالٰی ہمارے گناہوں کو معاف کرے گا اور ہمارے اعمال کی اصلاح کرے گا بشرطیکہ کہ ہمارا ایمان راسخ ہو ، اللہ کا تقوی اختیار کریں، سیدھی سچی بات کریں اللہ کے احکامات کی اطاعت اور اسکے رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اتباع اور اطاعت کریں ۔۔۔ ارشاد الہی ہے” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا. يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا۔۔ سورہ احزاب آیت نمبر 70 اور 71اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو ،اللہ سے ڈرو یعنی اللہ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کرو ۔ جب خدا کا خوف دل میں ہوگا تو آدمی گناہ کا کام کرنے کی ہمت نہیں کرتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ درست اور سچی بات بولا کرو، جھوٹ، ہوائی بات بلاتحقیق کے مت بولو، تو ان دونوں پر عمل کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالی تمہارے اعمال کو صحیح کردے گا، اور تمہارے گناہوں کومعاف کردے گا۔وللہ اعلم بالصواب۔۔۔ طالب دعا۔۔ رشید احمد گبارو