- انسان واقعی زمینی مخلوق نہیں۔
انسان زمینی مخلوق نہیں ھے: امریکی ایکولوجسٹ ڈاکٹر ایلس سِلور کی تہلکہ خیز ریسرچ: ارتقاکےنظریات کاجنازہ اٹھ گیا: ارتقائی سائنسدان لا جواب: انسان زمین کا ایلین ہے ۔ ڈاکٹر ایلیس سِلورنے اپنی کتاب میں تہلکہ خیز دعوی کیا ہے کہ انسان اس سیارے زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے پر تخلیق کیا گیا اور کسی وجہ سے اس کے اصل سیارے سے اس کے موجودہ رہائشی سیارے زمین پر پھینک دیا گیا۔ڈاکٹر ایلیس جو کہ ایک سائنسدان محقق مصنف اور امریکہ کا نامور ایکالوجسٹ ھے اس کی کتاب میں اس کے الفاظ پر غور کیجئیے۔ زھن میں رھے کہ یہ الفاظ ایک سائنسدان کے ہیں جو کسی مذھب پر یقین نہیں رکھتا۔ اس کا کہنا ھے کہ انسان جس ماحول میں پہلی بار تخلیق کیا گیا اور جہاں یہ رھتا رھا ھے وہ سیارہ ، وہ جگہ اس قدر آرام دہ پرسکون اور مناسب ماحول والی تھی جسے وی وی آئی پی کہا جا سکتا ھے وہاں پر انسان بہت ھی نرم و نازک ماحول میں رھتا تھا اس کی نازک مزاجی اور آرام پرست طبیعت سے معلوم ھوتا ھے کہ اسے اپنی روٹی روزی کے لئے کچھ بھی تردد نہین کرنا پڑتا تھا ، یہ کوئی بہت ہی لاڈلی مخلوق تھی جسے اتنی لگژری لائف میسر تھی ۔ ۔ وہ ماحول ایسا تھا جہاں سردی اور گرمی کی بجائے بہار جیسا موسم رھتا تھا اور وہاں پر سورج جیسے خطرناک ستارے کی تیز دھوپ اور الٹراوائلیٹ شعاعیں بالکل نہیں تھیں جو اس کی برداشت سے باھر اور تکلیف دہ ھوتی ہیں۔ تب اس مخلوق انسان سے کوئی غلطی ہوئی ۔۔اس کو کسی غلطی کی وجہ سے اس آرام دہ اور عیاشی کے ماحول سے نکال کر پھینک دیا گیا تھا ۔جس نے انسان کو اس سیارے سے نکالا لگتا ہے وہ کوئی انتہائی طاقتور ہستی تھی جس کے کنٹرول میں سیاروں ستاروں کا نظام بھی تھا ۔۔۔ وہ جسے چاہتا ، جس سیارے پر چاہتا ، سزا یا جزا کے طور پر کسی کو بھجوا سکتا تھا۔ وہ مخلوقات کو پیدا کرنے پر بھی قادر تھا۔ ڈاکٹر سلور کا کہنا ہے کہ ممکن ہے زمین کسی ایسی جگہ کی مانند تھی جسے جیل قرار دیا جاسکتا ھے ۔ یہاں پر صرف مجرموں کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا ہو۔ کیونکہ زمین کی شکل۔۔ کالا پانی جیل کی طرح ہے ۔۔۔ خشکی کے ایک ایسے ٹکڑے کی شکل جس کے چاروں طرف سمندر ہی سمندر ھے ، وہاں انسان کو بھیج دیا گیا۔ ڈاکٹر سلور ایک سائنٹسٹ ہے جو صرف مشاہدات کے نتائج حاصل کرنے بعد رائے قائم کرتا ہے ۔ اس کی کتاب میں سائنسی دلائل کا ایک انبار ہے جن سے انکار ممکن نہیں۔اس کے دلائل کی بڑی بنیاد جن پوائنٹس پر ھے ان میں سے چند ایک ثابت شدہ یہ ہیں۔ نمبر ایک ۔ زمین کی کش ثقل اور جہاں سے انسان آیا ہے اس جگہ کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ جس سیارے سے انسان آیا ہے وہاں کی کشش ثقل زمین سے بہت کم تھی ، جس کی وجہ سے انسان کے لئے چلنا پھرنا بوجھ اٹھا وغیرہ بہت آسان تھا۔ انسانوں کے اندر کمر درد کی شکایت زیادہ گریوٹی کی وجہ سے ہے ۔ نمبر دو ؛انسان میں جتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں وہ باقی کسی ایک بھی مخلوق میں نہیں جو زمین پر بس رہی ہے ۔ ڈاکٹر ایلیس لکھتا ہے کہ آپ اس روئے زمین پر ایک بھی ایسا انسان دکھا دیجئیے جسے کوئی ایک بھی بیماری نہ ہو تو میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوسکتا ہوں جبکہ میں آپ کو ھر جانور کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ وقتی اور عارضی بیماریوں کو چھوڑ کر کسی ایک بھی مرض میں ایک بھی جانور گرفتار نہیں ہے ۔ نمبر تین ؛ ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ کچھ ہی دیر بعد اس کو چکر آنے لگتے ہیں اور سن سٹروک کا شکار ہوسکتا ہے جبکہ جانوروں میں ایسا کوئی ایشو نہیں ھے مہینوں دھوپ میں رھنے کے باوجود جانور نہ تو کسی جلدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی اور طرح کے مر ض میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا تعلق سورج کی تیز شعاعوں یا دھوپ سے ہو۔ نمبر چار ؛ ہر انسان یہی محسوس کرتا ہے اور ہر وقت اسے احساس رہتا ہے کہ اس کا گھر اس سیارے پر نہیں۔ کبھی کبھی اس پر بلاوجہ ایسی اداسی طاری ہوجاتی ہے جیسی کسی پردیس میں رہنے والے پر ہوتی ہے چاہے وہ بیشک اپنے گھر میں اپنے قریبی خونی رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نا بیٹھا ہوں۔ نمبر پانچ زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کا ٹمپریچر آٹومیٹک طریقے سے ہر سیکنڈ بعد ریگولیٹ ہوتا رہتا ہے یعنی اگر سخت اور تیز دھوپ ھے تو ان کے جسم کا درجہ حرارت خود کار طریقے سے ریگولیٹ ہو جائے گا، جبکہ اسی وقت اگر بادل آ جاتے ہیں تو ان کے جسم کا ٹمپریچر سائے کے مطابق ہو جائے گا جبکہ انسان کا ایسا کوئی سسٹم نہیں بلکہ انسان بدلتے موسم اور ماحول کے ساتھ بیمار ھونے لگ جائے گا۔ موسمی بخار کا لفظ صرف انسانوں میں ھے۔ نمبر چھ ؛انسان اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے ۔ اسکا ڈی این اے اور جینز کی تعداد اس سیارہ زمین پہ جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف اور بہت زیادہ ہے۔ نمبر سات: زمین کے اصل رہائشی (جانوروں) کو اپنی غذا حاصل کرنا اور اسے کھانا مشکل نہیں، وہ ہر غذا ڈائریکٹ کھاتے ہیں، جبکہ انسان کو اپنی غذا کے چند لقمے حاصل کرنے کیلیئے ہزاروں جتن کرنا پڑتے ہیں، پہلے چیزوں کو پکا کر نرم کرنا پڑتا ھے پھر اس کے معدہ اور جسم کے مطابق وہ غذا استعمال کے قابل ھوتی ھے، اس سے بھی ظاہر ھوتا ھے کہ انسان زمین کا رہنے والا نہیں ھے ۔ جب یہ اپنے اصل سیارے پر تھا تو وہاں اسے کھانا پکانے کا جھنجٹ نہیں اٹھانا پڑتا تھا بلکہ ہر چیز کو ڈائریکٹ غذا کیلیئے استعمال کرتا تھا۔مزید یہ اکیلا دو پاؤں پر چلنے والا ھے جو اس کے یہاں پر ایلین ھونے کی نشانی ھے۔نمبر آٹھ: انسان کو زمین پر رہنے کیلیے بہت نرم و گداز بستر کی ضرورت ھوتی ھے جبکہ زمین کے اصل باسیوں یعنی جانوروں کو اس طرح نرم بستر کی ضرورت نہیں ھوتی۔ یہ اس چیز کی علامت ھے کہ انسان کے اصل سیارے پر سونے اور آرام کرنے کی جگہ انتہائی نرم و نازک تھی جو اس کے جسم کی نازکی کے مطابق تھی ۔ نمبر نو: انسان زمین کے سب باسیوں سے بالکل الگ ھے لہذا یہ یہاں پر کسی بھی جانور (بندر یا چمپینزی وغیرہ) کی ارتقائی شکل نہیں ھے بلکہ اسے کسی اور سیارے سے زمین پر کوئی اور مخلوق لا کر پھینک گئی ھے ۔انسان کو جس اصل سیارے پر تخلیق کیا گیا تھا وہاں زمین جیسا گندا ماحول نہیں تھا، اس کی نرم و نازک جلد جو زمین کے سورج کی دھوپ میں جھلس کر سیاہ ہوجاتی ہے اس کے پیدائشی سیارے کے مطابق بالکل مناسب بنائی گئی تھی ۔ یہ اتنا نازک مزاج تھا کہ زمین پر آنے کے بعد بھی اپنی نازک مزاجی کے مطابق ماحول پیدا کرنے کی کوششوں میں رھتا ھے۔جس طرح اسے اپنے سیارے پر آرام دہ اور پرتعیش بستر پر سونے کی عادت تھی وہ زمین پر آنے کے بعد بھی اسی کے لئے اب بھی کوشش کرتا ھے کہ زیادہ سے زیادہ آرام دہ زندگی گزار سکوں۔ جیسے خوبصورت قیمتی اور مضبوط محلات مکانات اسے وہاں اس کے ماں باپ کو میسر تھے وہ اب بھی انہی جیسے بنانے کی کوشش کرتا ہے ۔ جبکہ باقی سب جانور اور مخلوقات اس سے بے نیاز ہیں۔ یہاں زمین کی مخلوقات عقل سے عاری اور تھرڈ کلاس زندگی کی عادی ہیں جن کو نہ اچھا سوچنے کی توفیق ہے نہ اچھا رہنے کی اور نہ ہی امن سکون سے رھنے کی۔ انسان ان مخلوقات کو دیکھ دیکھ کر خونخوار ہوگیا۔ جبکہ اس کی اصلیت محبت فنون لطیفہ اور امن و سکون کی زندگی تھی ۔۔یہ ایک ایسا قیدی ہے جسے سزا کے طور پر تھرڈ کلاس سیارے پر بھیج دیا گیا تاکہ اپنی سزا کا دورانیہ گزار کر واپس آ جائے ۔ڈاکٹر ایلیس کا کہنا ہے کہ انسان کی عقل و شعور اور ترقی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ایلین کے والدین کو اپنے سیارے سے زمین پر آئے ہوئے کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا ، ابھی کچھ ہزار سال ہی گزرے ہیں یہ ابھی اپنی زندگی کو اپنے پرانے سیارے کی طرح لگژری بنانے کے لئے بھرپور کوشش کر رہاہے ، کبھی گاڑیاں ایجاد کرتا ہے ، کبھی موبائل فون اگر اسے آئے ہوئے چند لاکھ بھی گزرے ہوتے تو یہ جو آج ایجادات نظر آ رہی ہیں یہ ہزاروں سال پہلے وجود میں آ چکی ہوتیں ، کیونکہ میں اور تم اتنے گئے گزرے نہیں کہ لاکھوں سال تک جانوروں کی طرح بیچارگی اور ترس کی زندگی گزارتے رہتے۔ ڈاکٹر ایلیس سِلور کی کتاب میں اس حوالے سے بہت کچھ ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کے دلائل کو ابھی تک کوئی جھوٹا نہیں ثابت کر سکا۔۔ میں اس کے سائنسی دلائل اور مفرو ضوں پر غور کر رہا تھا۔۔ یہ کہانی ایک سائنسدان بیان کر رہا ھے یہ کوئی کہانی نہیں بلکہ حقیقی داستان ہے جسے انسانوں کی ہر الہامی کتاب میں بالکل اسی طرح بیان کیا گیا ہے۔ میں اس پر اس لئے تفصیل نہیں لکھوں گا کیونکہ آپ سبھی اپنے باپ آدم ؑ اور حوا ؑ کے قصے کو اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ سائنس اللہ کی طرف چل پڑی ہے ۔۔ سائنسدان وہ سب کہنے پر مجبور ھوگئے ہیں جو انبیاء کرام اپنی نسلوں کو بتاتے رہے تھے ۔ میں نے نسل انسانی پر لکھنا شروع کیا تھا۔ اب اس تحریر کے بعد میں اس سلسلے کو بہتر انداز میں آگے بڑھا سکوں گا۔۔ ارتقاء کے نظریات کا جنازہ اٹھ چکا ہے ۔۔ اب انسانوں کی سوچ کی سمت درست ہو رہی ھے ۔۔ یہ سیارہ ہمارا نہین ہے ۔یہ میں نہیں کہتا بلکہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بیشمار بار بتا دیا تھا۔ اللہ پاک نے اپنی عظیم کتاب قران حکیم میں بھی بار بار لاتعداد مرتبہ یہی بتا دیا کہ اے انسانوں یہ دنیا کی زندگی تمہاری آزمائش کی جگہ ہے ۔ جہاں سے تم کو تمہارے اعمال کے مطابق سزا و جزا ملے گی ۔
- مسلمان ہر سال ماہ رمضان المبارک میں اللہ تعالی کے لئے نماز تراویح کا اہتمام کرتے ہیں۔۔
سنت تواترہ۔۔۔ نماز تراویح رمضان کے مہینے میں عشاء کی فرض اور دو رکعت سنت مؤکدہ نماز کے بعد اور وتر واجب سے پہلے باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ جو بیس رکعت پر مشتمل ہوتی ہے اور دو، دو ، رکعت کرکے پڑھی جاتی ہے۔ ہر چار رکعت کے بعد وقفہ ہوتا ہے۔ جس میں تسبیح و تحلیل ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے اس کا نام تروایح ہوا۔ حضور ﷺ نے رمضان شریف میں رات کی عبادت کو بڑی فضیلت دی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلی تروایح کے باجماعت اور اول رات میں پڑھنے کا اہتمام فرمایا اور اُس وقت سے اب تک یہ اسی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی امامت بالعموم حافظ قرآن کرتے ہیں اور رمضان کے پورے مہینے میں ایک بار سنت ہے اور زیادہ مرتبہ قرآن شریف پورا ختم کیا جا سکتا ہے اہل السنہ والجماعہ بیس رکعت پڑھتے ہیں اور اہل حدیث/سلفی حضرات کے ہاں آٹھ رکعت تروایح کے بعد 3وتر بھی باجماعت پڑھے جاتے ہیں ۔یعنی سلفی 11رکعات پڑھتے ہیں۔صحیح بخاری شریف کی مشہور و معروف شرح لکھنے والے حافظ ابن حجر عسقلانی نے تحریر کیا ہے کہ تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔ رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے چار فرض اور دو رکعت سنت مؤکدہ کےبعد بیس رکعت سنت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابہٴ کرام کا اتفاق اس امر پر ہو گیا کہ ہر دو کعت کے بعد سلام پھیرنا کے بعد (یعنی چار رکعت ) کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے۔(تخریج از : فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح)امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہر رات بیس یعنی پانچ ترویحہ وتر کے علاوہ پڑھنا سنت ہے۔(تخریج از :فتاوی قاضی خان ج1ص112)علامہ علاء الدین کاسانی حنفی رح لکھتے ہیں کہ جمہور علما کا صحیح قول یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نےحضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی امامت میں صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انھوں نے بیس رکعت تراویح پڑھائی اور صحابہ کرام کی طرف سے اجماع تھا۔(تخریج از : بدائع الصنائع)امام سیدنا مالکبن انس رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کے مشہور قول کے مطابق تراویح کی 36 رکعت ہیں؛جبکہ ان کے ایک قول کے مطابق بیس رکعت سنت ہیں۔ علامہ ابن رشدقرطبی مالکی رح فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک قول میں بیس رکعت تراویح کو پسند فرمایا ہے۔(تخریج از : بدایہ المجتہد ج1 ص 214)مکہ المکرمہ مسجد حرام میں تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد ترویحہ کے طور پر مکہ المکرمہ کے لوگ ایک طواف کر لیا کرتے تھے، جس پر مدینہ منورہ والوں نے ہر ترویحہ پر چار چار رکعت نفل پڑھنی شروع کر دیں تو اس طرح امام مالک کی ایک رائے میں 36رکعت (20 رکعت تراویح اور 16 رکعت نفل) ہوگئیں۔امام سیدنا محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے بیس رکعت تراویح پسند ہیں، مکہ مکرمہ میں بیس رکعت ہی پڑھتے ہیں۔( تخریج از : قیام اللیل ص 159)ایک دوسرے مقام پر امام شافعی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھتے پایا ہے(تخریج از : ترمذی ج 1 ص 166 المجموع )علامہ نووی شافعی رح لکھتے ہیں کہ تراویح کی رکعت کے متعلق ہمارا (شوافع) مسلک وتر کے علاوہ دس سلاموں کے ساتھ بیس رکعت کا ہے اور بیس رکعت پانچ ترویحہ ہیں اور ایک ترویحہ چار رکعت کا دوسلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ اور ان کے اصحاب اور امام سیدنا احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی علیہ اور امام داوٴد ظاہری رح کا مسلک ہے اور علامہ قاضی عیاض رح نے بیس رکعت تراویح کو جمہور علما سے نقل کیا ہے۔(تخریج از : المجموع)فقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان علامہ ابن قدامہ رح لکھتے ہیں : امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کا پسندیدہ قول بیس رکعت کا ہے اور علامہ سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالٰی علیہ بھی یہی فرماتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہٴ کرام کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے، نیز امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کا استدلال روایات سے بقول علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کے بمنزلہ اجماع کے ہے۔ نیز فرماتے ہیں جس چیز پر رسولﷺ کے صحابہ عمل پیرا رہے ہوں، وہی اتباع کے لائق ہے۔(تخریج از : المغنی لابن قدامہ ج2 ص139، صلاة التراویح) شریعت کی اصطلاح میں تراویح وہ نماز ہے جو سنت مؤکدہ ہےاور رمضان المبارک کی راتوں میں عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق کے درمیان جماعت کے ساتھ یا اکیلے پڑھی جاتی ہے،عام رواج اور معمول عشاء کے بعد متصل پڑھنے کا ہے۔( تخریج از : اوجز المسالک، 2/514 ، باب ما جاء فی قیام رمضان) ”صحیح بخاری ” میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک میں ایک الگ جگہ بنائی ، وہ چٹائی کا ایک چھپر تھا، آپ ﷺ نے وہاں کئی راتیں نماز پڑھی، آپ ﷺ کے صحابہ نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مسجد میں نماز پڑھائی اور آپﷺ کی اقتدا میں لوگوں نے بھی نماز پڑھنا شروع کردی، اگلے دن لوگ زیادہ ہوگئے، تیسرے دن لوگ جمع ہوئے، لیکن نبی کریمﷺ باہر نہ نکلے ، جب صبح ہوئی آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے وہ دیکھا جو تم لوگوں نے کیا، مجھے تم لوگوں کے پاس آنے سے صرف یہ بات رکاوٹ تھی کہ یہ نماز تم پر فرض کر دی جائے گی، یہ رمضان کا واقعہ تھا۔مصنف ابن ابی شیبہ ، معجم طبرانی اور بیہقی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعات پڑھتے تھے۔ان روایات سے معلوم ہوا کہ باجماعت تراویح کا ثبوت نبی کریم ﷺ ثابت ہے، فرضیت کے اندیشہ سے آپ ﷺ نے عمداً مداومت نہیں فرمائی۔عہدِ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین میں جب یہ اندیشہ نہ رہا تو سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب کو ایک امام پر اکھٹا کرکے باجماعت تراویح کا فیصلہ کیا، چناں چہ ”موطا امام مالک” میں ہے کہ حضرت الرحمن بن عبد القاری رح فرماتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، دیکھا کہ لوگ مختلف جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں، کچھ اکیلے نماز پڑھ رہے ہیں ، کچھ کے ساتھ ایک چھوٹی جماعت شریک ہے، یہ دیکھ کر امیرالمومنین سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایک قاری کے پیچھے جمع ہو کر نماز پڑھیں تو زیادہ مناسب ہوگا، پھر آپ نے اس کا پختہ ارادہ فرمایا اور سب کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اقتداء پر جمع فرمایا ، جب اگلی رات مسجد کی جانب نکلے تو لوگ اپنے قاری یعنی سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ یہ نیا کام بہت ہی اچھا ہے۔ اور وہ نماز جس کے وقت تم سوتے ہو وہ اس سے بہتر جو تم قائم کرتے ہو، یعنی رات کے آخری پہر کی نماز، اور لوگ اس وقت رات کے ابتدائی حصے میں یہ قیام کیا کرتے تھے۔”موطا امام مالک” میں حضرت یزید بن رومان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں رمضان میں وتر کے ساتھ تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے۔(تخریج از : موطا امام مالک، ج:1، ص:109، ط:مؤ سسہ الرسالہ ، ج:2، ص:159، ط:مو سسہ زاید بن سلطان۔تخریج از: صحیح بخاری ج:9، ص:95، ط:السلطانیہ۔تخریج از : نصب الرایۃ ج:2، ص:152، ط:مؤسسہ الریان) بیس رکعات تراویح کی دلیل آپ ﷺ کا عمل ہےکہ آپ ﷺ نے بیس رکعات تراویح کی نماز پڑھی ہے، آپ ﷺ کا یہ عمل اُس حدیث شریف میں منقول ہے جو سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے؛ چناں چہ سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ : “رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں بیس رکعات (تراویح) اور وتر پڑھا کرتے تھے”،یہ حدیث شریف حدیث کی کتابوں مصنف ابن ابی شیبہ، معجم کبیر طبرانی وغیرہ میں مذکور ہے، اور یہ ایک صحیح اور قوی حدیث ہے؛ کیوں کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے اس حدیث کے مطابق تراویح کی نماز پڑھی ہے، بلکہ اس حدیث کی صحت پر صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے دور میں اجماع ہو چکا ہے۔دوسری بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ جس سنت پر رسول اللہ ﷺ یا آپ ﷺکے خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے مداومت نہیں کی ،بلکہ اس کو کبھی کبھی انجام دیا ہو اس کو سنت غیر مؤکدہ کہتے ہیں، اور جس کام کو نبی کریم ﷺ یا آپﷺ کے خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے ہمیشہ کیا اور اس پر مواظبت اور مداومت فرمائی ہے اس کو سنتِ مؤکدہ کہتے ہیں ؛ چوں کہ بیس رکعت تراویح خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالٰی عنہم کی قائم کردہ ہیں، اور اس پر انہوں نے ہر رمضان میں پابندی کے ساتھ مواظبت بھی کی ہے، کبھی ترک نہیں کیا، اس لیے بیس رکعت تراویح کی نماز پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے، لہٰذا بیس رکعت کا ثبوت تو آپ ﷺ کا عمل ہے اور اس کا سنتِ مؤکدہ ہونا یہ خلفائے راشدین کے عمل سے ثابت ہے جن کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: “میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو”۔(تخریج از : مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاة، 225/5 ط: إدارة القرآن والعلوم الاسلامیہ ۔تخریج از:موطا امام مالک، كتاب الصلاة فی رمضان، باب الترغيب فی الصلاة فی رمضان، 502/2-503، كتاب الصلاة فی رمضان، باب ما جاء فی قیام رمضان، 524/2،: مرکز السشیخ أبی الحسن الندوی الہند۔تخریج از :معارف السنن، أبواب الصیام، باب قیام شہررمضان، بیان أمر الفاروق بعشر ین ر کعہ وتلقیہ الأمہ بالقبول، 550/5، ط: دار التصنیف جامعہ العلوم الاسلامیہ ۔تخریج از : فتاوی شامی، كتاب الصلاة، باب الوتر والنفل، 43/2-45 تخریج از : فتاوی تاتار خانیہ، كتاب الصلاة، الفصل الثالث عشر فی التراویح، 475/1، ط: قدیمی) رسول اللہ ﷺے ارشاد فرمایا:’’جوشخص تم میں سے میرے بعدجیتارہا، وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا، پس میری سنت کو اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوطی سے تھام لواوردانتوں سے مضبوط پکڑلو۔ نئی نئی باتوں سے احتراز کرو، کیونکہ ہرنئی بات بدعت ہے اورہر بدعت گمراہی ہے۔”اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ خلفاء راشدینؓ (یعنی سیدنا ابوبکرصدیق، سیدنا عمر فاروق ، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہم ) کی پیروی رسول اللہ ﷺ کی وصیت ہے،اور ان کی تابعداری دین کا حصہ ہے،اوراس سے اعراض ومخالفت بدعت وگمراہی ہے،لہذا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے جو 20 رکعت تراویح کا اہتمام فرما دیا یہ عینِ دین ہے،دین میں نئی بات یا بدعت ہر گزنہیں ہے۔قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: میں نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تراویح اور سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے طرز عمل کے بارے میں سوال کیا تو آپؒ نے فرمایا: تراویح سنتِ مؤکدہ ہے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی طرف سے 20رکعات مقرر نہیں کیں، اورنہ وہ کسی بدعت کے ایجاد کرنے والے تھے، آپ نے جو 20 رکعات کا اہتمام فرمادیاہے، اس کی آپ کے پاس ضرور کوئی اصل تھی اور ضرور رسول اللہ ﷺ کا کوئی حکم تھا۔ امیرالمومنین سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ سنت جاری کی اور لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی امامت پر جمع کیا، پس انہوں نے تراویح کی جماعت کروائی، اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم کثیر تعداد میں موجود تھے۔ سیدنا عثمانؓ،سیدنا علیؓ، سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ، سیدنا عباسؓ ابن عبدالمطلب، سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ، سیدنا طلحہؓ بن عبیداللہ، سیدنا زبیرؓ ابن العوام ،سیدنا معاذؓ ابن جبل ،سیدنا اُبیؓ ابن کعب اوردیگر کبار مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سب موجود تھے، مگر کسی نے بھی اس کو رد نہیں کیا، بلکہ سب نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے موافقت کی اور اس کا حکم دیا۔( تخریج از: مشکواہ المصابیح ،كتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنہ،ج:1 ،ص: 58،ط:المکتب الاسلامیتخریج از: اختلافِ اُمت اور صراطِ مستقیم، ص:۲۹۲، بحوالہ الاختیارلتعلیل المختار، ج:۱،ص:۶۸)سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے:کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔”(تخریج از :مصنف ابن ابی شیبہج : 2 ص : 164 ط : دارالتاج ،لبنان) لہذا ماہ رمضان المبارکمیں بھی رات کو تہجد کے وقت| آٹھ |رکعات نماز پڑھیںاور پھر سال بھر ان کو پڑھنے کی عادت بنائیں۔ یہی سنت رسولﷺ“نوافل نماز تہجد “ہیں۔ رمضان المبارک میں عشاء کی |چار | رکعت فرض اور| دو| رکعت سنت مؤکدہ کے بعد | بیس (٢٠) |رکعات [پانچ ترو یحہ کے ساتھ یعنی ہر دوسلاموںیعنی چار رکعت کے بعد کچھ دیرآرام فرمانا اورتسبیح کرنا] اور آخر میں تین رکعات وتر واجب پڑھیں اورپھر رمضان ختم ہونے پر رک جائیں۔ یہی سنت رسولﷺ“نماز تراویح”ہیں۔
احکامِ_تراویح:
تروایح ہر عاقل و بالغ مرد اور عورت کے لئے سنتِ مؤکدہ ہے۔ اس کا ترک جائز نہیں۔
(درمختار، ج 2، ص 493)
تراویح کی بیس رکعت ہیں سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعتیں ہی پڑھی جاتی تھیں۔
(السنن الکبرٰی للبیہقی، ج 2، ص 299، رقم 4617)
تراویح کی جماعت سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔
(ھدایہ، ج 1، ص 70)
تراویح کا وقت عشاء کے فرض پڑھنے کے بعد سے صبحِ صادق تک ہے، عشاء کے فرض ادا کرنے سے پہلے ادا کر لی تو نہ ہو گی۔
(عالمگیری، ج 1، ص 115)
عشاء کے فرض و وتر کے بعد بھی تراویح ادا کی جا سکتی ہے۔
(در مختار، ج 2، ص 494)
جیسا کہ بعض اوقات 29 شعبان المعظم کو رویتِ ہلال کی شہادت ملنے میں تاخیر کے سبب ایسا ہو جاتا ہے۔
مُستحبّ یہ ہے کہ تراویح میں تہائی رات تک تاخیر کی جائے اگر آدھی رات کے بعد بھی پڑھیں تب بھی کراہت نہیں۔
(درمختار، ج 2، ص 495)
تراویح اگر فوت ہوئی تو اس کی قضا نہیں۔
(درمختار ،ج 2، ص 494)
بہتر یہ ہے کی تراویح کی بیس رکعتیں دو دو کرکے دس سلام کے ساتھ ادا کرے۔
(درمختار، ج 2، ص 495)
تراویح کی ہر دو رکعت پر الگ الگ نیت کرے۔ (درمختار، ج 2، ص 494)
بِلاعذر بیٹھ کر تراویح ادا کرنا مکروہ ہے، بلکہ بعض فقہاء کرام کے نزدیک ہوتی ہی نہیں۔
(درمختار، ج 2، ص 499)
تراویح مسجد میں باجماعت ادا کرنا افضل ہے، اگر گھر میں باجماعت ادا کی تو ہو جائے گی ، مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں ادا کرنے کا تھا۔
(عالمگیری، ج 1، ص 116)
تراویح میں ختمِ قرآن سنت مؤکدہ کفایہ ہے، یعنی اہلِ علاقہ میں سے کسی نے تراویح میں ختمِ قرآن کر لیا تو سب کی طرف سے سنت ادا ہو گئی، لہٰذا گھر میں تراویح میں ختمِ قرآن نہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔
اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ہو جائے تو جتنا قرآنِ پاک اُن رکعتوں میں پڑھا تھا اُن کا اعادہ کیا جائے ،تاکہ ختمِ قرآن میں نقصان نہ رہے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
امام غلطی سے کوئی آیت یا سورت چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو مُستحب یہ ہے کہ اُسے پڑھ کر آگے بڑھے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
الگ الگ مسجد میں تراویح ادا کر سکتا ہے جبکہ ختمِ قرآن میں نقصان نہ ہو۔
تراویح کی دو رکعت پر بیٹھنا بھول گیا تو جب تک تیسر ی کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جائے آخر میں سجدۂ سہو کرلے اور اگر تیسری کا سجدہ کر لیا تو چار پوری کرلے مگر یہ دو شمار ہوں گی ،ہاں اگر دو پر قعدہ کیا تھا تو چار ہوئیں۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرا اگر دوسری پر بیٹھا نہیں تھا تو نہ ہوئیں، ان کے بدلے کی دو رکعتیں دوبارہ ادا کرے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ہے دو ہوئیں کوئی کہتا ہے تین، تو امام کو جو یاد ہے اسکا اعتبار ہے، اگر امام خود بھی تذبذب کا شکار ہے تو جس پر اعتماد ہو اس کی بات مان لے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 117)
اگر لوگوں کو شک ہو کہ بیس ہوئیں یا اٹھارہ؟ تو دو رکعت ہر بندہ تنہا تنہا ادا کرے۔
(عالمگیری، ج 2، ص 117)
افضل یہ ہے کہ ہر دو رکعت میں قِراءت برابر ہو، اگر ایسا نہ کیا جب بھی حرج نہیں۔
(ج 1، ص 117)
امام و مقتدی ہر دو رکعت کی ابتداء میں ثناء پڑھیں امام تعوذ و تسمیہ بھی پڑھے اور التحیات کے بعد درودِ ابراھیم اور دعا بھی۔
(در مختار، ج 2، ص 498)
اگر 27 ویں کو یا اس سے قبل قرآنِ پاک ختم ہو گیا تب بھی آخر رمضان تک تراویح پڑھتے رہیں کہ سنتِ مؤکدہ ہے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
بعض مقتدی بیٹھے رہتے ہیں جب امام رکوع کرنے والا ہوتا ہے تب کھڑے ہوتے ہیں یہ مُنافقین کی علامت ہے۔
بہارِ شریعت، حصہ 4، ص 36)
رمضان المبارک میں وتر جماعت سے ادا کرنا افضل ہے، جس نے عشاء کے فرض بغیر جماعت کے ادا کیے وہ بھی وتر جماعت کے ساتھ ادا کر سکتا ہے۔
(فتاوی نوریہ جلد: 1، 559)
ایک امام کے پیچھے عشاء کے فرض دوسرے کے پیچھے تراویح اور تیسرے کے پیچھے وتر پڑھے اِس میں حرج نہیں۔
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرض و وتر کی جماعت خود کرواتے اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تراویح پڑھاتے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 116)
…………………………… - عقیدہ کی حد تک کسی کی پیروی کرنا اور اہل السنۃ والجماعت
انسان جب عقیدے کی حد تک کسی شخص کی پیروی کرے تو پچھلے بیانات نئے بیان پر شریعت کی طرح حاوی ہوتی ہیں ، جو نعوذ بااللہ ناسخ و منسوخ کا درجہ رکھتی ہیں۔ دین اسلام کا تنہا اور واحد ماخذ رسول اللہﷺ کی شان و صفات والی ذات اقدس ہے ،عقیدے کی حد تک کسی کی پیروی کرنےوالے کو انگریزی میں کلٹ فالوور کہتے ہیں، اور ایسی پیروی اسلام کی رو سے صرف انبیاء کرام علیہم السلام اور آثار صحابۂ کرام و اہل بیت العظام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کی جائز ہے اور کسی کی بھی نہیں، آثار صحابہ سے متصل زمانہ، تابعین کرام رحمہم اللہ تعالی علیہم نے سنت نبوی ﷺ کو مرتب و مدون کیا یعنی سنت نبویﷺ کو کتاب کی مستند شکل میں مرتب و مدون اہل السنہ و الجماعت کے لئے صرف ائمہء فقہاء أربعہ نے کیا ہے۔ اس تدوین کے لئے بعد از شہادت کربلا اہل بیت العظام اور امام عالی مقام سیدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ 61 ھ سے 99 ہجری تک کا زمانہ بنو امیہ کےناصبیت اور رافضیت کے تاریک دور کے بعد سنہ 99 ھ کو پانچویں خلیفہ الراشد سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کی سنہ 102 ھ تک کڑی نگرانی اور رہنمائی میں سرکاری سطح پر اہتمام و بندوبست اور تحقیق شامل ہے۔۔ بطور اجماع امت مجاز ائمہ کرام کے نام مندرجہ ذیل ہیں ، پہلا ، الامام الاعظم فی الفقہ سیدنا نعمان بن ثابت ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ (80ھجری تا 150ھجری) جس کا مرکز برائے تحقیق و تدوین سنت نبویﷺ شہر کوفہ دارالخلافہء اسلام بعد از شہادت امیرالمومنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ تھا، دوسرا، الامام دار الہجرہ دیار نبیﷺ، سیدنا مالک بن انس رحمہ اللہ تعالٰی عنہ(93 ھجری تا 179ھجری) جس کا مرکز تحقیق و تدوین سنت رسول اللہﷺ شہر رسالت مآبﷺ المدینہ المنوره تھا، تیسرا، لاامام المجدد کعبہ اللہ، سیدنا امام محمد ادریس الشافعی رحمہ اللہ تعالى علیہ(150ھجری تا 204 ھجری) جسکا مرکز تحقیق و تدوین حرم کعبہ مکہ المکرمہ اور شہر قاہرہ، مصر تھا، چوتھا، الامام المُبَجَّل سیدنا احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی علیہ(163ھجری تا 242ھجری) جسکا مرکز تدوین و تحقیق نو آباد شہر بغداد دارالخلافہ خلافت عباسیہ دور ہارون الرشید و مابعد تھا۔ان مندرجہ بالا چار ائمہ کے مدون کردہ سنت نبوی ﷺ و مرتب کردہ فقہی مسائل پر پیروی و تقلید کرنے والوں کو اہل السنہ والجماعہ کہتے ہیں۔۔۔
- غلط معلومات کی بنیاد پرخبریں گھڑنا اور پھر ریٹنگز کے چکر میں جھوٹےذاتی تجزئے کو آگے پھیلانا ، کیا یہی صحافت ہے ؟؟
غلط معلومات کی گندگی سے آلودہ صحافت:صحافت لفظ صحیفہ سے بنا ہے۔جس کا مطلب معلومات کی بنیاد پر خبر کی درست تحقیق کرکےعوام الناس کو آگاہی دینا ہے۔صحیفہ کا لفظ عموما الہامی کتاب کے لئے بولا جاتا ہے ، جبکہ صحافت کو ہم زمینی کتاب کہہ سکتے ہیں۔جیسےعالم امر سے وحی اور الہام کے لئے اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں یعنی انبیائے کرام کا انتخاب کیا تھا جسکا تعلق رشد و ہدایت اور علم سے ہے، ویسے ہی عالم خلق میں کلام کے لئے بھی اہل افراد کا صحافت کے میدان میں اترنا لازم ہے جس کا تعلق معلومات سے ہے۔ذاتی مفادات پر مبنی تجزئے صحافت کے لئے زہر ہلاہل ہیں۔ شہرت اور مقبولیت کے لئے , یا پھر اپنے یوٹیوب اور الیکٹرانک چینلز کی ریٹنگ اور پروموشن کے لئے اپنی پسند کی خبریں لگانا اور سنسنی پھیلانا تعفن زدہ بدبودار صحافت ہے۔عوام کو شعور اور آگاہی دینے کی بجائے انہیں اپنی ہی دھرتی ماں ریاست کے مقابلے کے لئے ابھارنا صحافت جیسے عظیم پیشے سے خیانت کرنا ہے۔افسوس۔۔۔! آج صحافت ڈس انفارمیشن کی گندگی سے لت پت ہو چکی ہے۔ ڈس انفارمیشن کا بانی دراصل شیطان ہے۔کہ جب اس نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر حضرت آدم اور حضرت حوا کے سامنے ایک شجرِ ممنوعہ کے متعلق غلط رپورٹنگ کی تھی۔صحافت میں بھی ذاتی اور مالی مفادات کے لئے غلط رپورٹنگ کرنا, عوام الناس کو گمراہ کرنا اور جھوٹی خبروں کو بنیاد بنا کر پراپیگنڈہ کرنا یقینا شیطانی قول و فعل ہے۔پاکستان کے صحافی , صحافت کو صحیفہ سمجھ کر ادا کرتے تو انبیاء کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ان کی ہر خبر عبادت ہوتی مگر انہوں نے عبادت کی بجائے امارت کی راہ اختیار کی۔شیطان کو گرو مان کر ڈس انفارمیشن پھیلا کر اپنے ہی ہم وطنوں کو اپنے ہی وطن کے خلاف اکسایا اور مسلسل اکسا رہے ہیں۔ایسی تعفن زدہ بدبودار صحافت ملک و ملت کے لئے ہولناک نتائج بلکہ کسی حادثے سے دوچار کرنے کے مترادف ہے،جو ڈس انفارمیشن اور سنسنی سے بھرپور ہو، جو صرف عوام کو مشتعل کرنے کے کام آ رہی ہو۔جب کوئی بھی صحافی اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی اور مالی مفادات کے لئے کام کرتا ہے تو یقینا وہ اپنے پیشے سے ہی نہیں بلکہ ملک و ملت سے عین غداری کرتا ہے۔یہ امر مسلمہ ہے کہ سچ کو جتنا بھی ڈس انفارمیشن کے پردوں میں چھپایا جائے وہ بہر صورت ظاہر ہو کر ہی رہتا ہے اور ڈس انفارمیشن پھیلانے والے بالآخر ناکام ہی رہ جاتے ہیں۔آزادی اظہار رائے کی حد کہاں تک ہے؟؟جہاں آپ کی زبان میری ناک کو چھونے لگے وہاں تک..چین میں 72 برس سے اور روس میں 104 سال سے اسی نقطہ نظر پر ریاستیں سختی سے کاربند ہیں اور یہی انکی ترقی کا راز ہےاس وقت دنیا میں سب سے زیادہ صحافی چین کی جیلوں میں ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو ریاست کے خلاف کام کرنے اور خبریں گھڑنے کے الزامات کا سامنا ہے۔پاکستان آج انتشار کا شکار ہے تو وجہ یہی نام نہاد آزاد ی صحافت ہے یہ ہمارے ناک تک محدود رہنے کی بجائے نتھنوں میں گھس چکی ہے۔پاکستان میں صحافی کے پاس صحافت کا لائسنس ہو یا نا ہو بدمعاشی کا ضرور ہوتا ہے۔ملٹری قیادت ہو، عدلیہ ہو یا کوئی بھی معزز ادارہ یہ دھڑلے سے ان پر جھوٹ لکھتے ہیں اور یہ جھوٹ عالمی منظر نامے پر جگہ بناتا ہے۔آج تک مملکت خداداد پاکستان میں کوئی بھی حکومت میں فیک نیوز پر قوانین نہیں بنا سکی جس پر عمل درآمد کرایا جا سکا۔عمران ریاض اور اسد طور کی گرفتاری سے یہ اعلان تو ہو چکا کہ اب بس.. بدمعاشی کے دن گئے..مزید نہیں..یہی وجہ ہے کہ حامد میر اور مطیع اللہ جان کو اپنے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے چیخیں بتا رہی ہیں کہ فیک نیوز کا شکنجہ ان کی طرف بڑھ رہا اور انھیں اپنا انجام صاف نظر آ رہا۔حکومت کو بھی چاہئے کہ اب من گھڑت اور فیک نیوز پر سخت ترین قوانین متعارف کروائے بھارت، چائنا، روس اور ترکی کی طرز پر تیز ترین ٹرائل ہوں بھاری جرمانے، سزائیں اور ایسے مقدمات کے فیصلے تین ہفتوں میں ہوں تب ہی اس بدمعاشی کے جن کو بوتل میں بند کیا جا سکتا ہے۔صحافی جھوٹ بولیں اور غلط الزام لگائیں اور ان سے کچھ نہ پوچھا جائے کیوں کے وہ صحافی ہیں ؟ اور آپ الزام لگانے والے کو ڈیفنڈ کریں کہ وہ صحافی ہے؟ آپ کے ہاتھ میں قلم آ گیا تو جو مرضی کرو نہیں ایس اب ہرگز ا نہیں ہو گا صحافی سے بھی پوچھا جائے گا۔قومی مطالبہ ہے کہ اب بس۔۔۔!سب جھوٹ بولنے والے صحافیوں گرفتار کر لیا جائے۔۔۔ سنی ہوئی بات آگے پھیلانا جھوٹ میں داخل ہے کسی بھی شخص کے بارے میں کوئی بات بغیر تحقیق کے کہہ دینا یہ اتنی بڑی بیماری ہے جس سے پورے معاشرے میں بگاڑ اور فساد پھیلتا ہے، دشمنیاں جنم لیتی ہیں ، عداوتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ اس لئے قرآن کریم یہ کہہ رہا ہے کہ جب بھی تمہیں کوئی خبر ملے تو پہلے اس خبر کی تحقیق کرلو، ایک حدیث شریف میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ جو بات سنے اس کو آگے بیان کرنا شروع کردے ۔ لہٰذا جو آدمی ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کرنے لگے تووہ بھی جھوٹا ہے، اس کو جھوٹ بولنے کا گناہ ہوگا ۔ سوجب تک تحقیق نہ کرلو، بات کو آگے بیان نہ کرو۔افسوس یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ اس قبیح گناہ کے اندر بری طرح ڈوبا ہوا ہے، ایک شخص کی بات آگے نقل کرنے میں کوئی احتیاط نہیں ، بلکہ اپنی طرف سے اس میں نمک مرچ لگا کے اضافہ کرکے اس کو آگے بڑھا دیا جو ایک عام سی بات بن گئی ہے ۔ دوسرے شخص نے جب اس بات کو سنا تو اس نے اپنی طرف سے اور اضافہ کرکے آگے چلتا کردیا، بات ذرا سی تھی ، مگر وہ پھیلتے پھیلتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی، اس کے نتیجے میں دشمنیاں ، عداوتیں ، لڑائیاں ، قتل و غارت گری اور نفرتیں پھیل رہی ہیں ۔ بہر حال ! قرآن کریم اللہﷻ ہمیں یہ سبق دے رہا ہے کہ یہ زبان جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے، یہ اس لئے نہیں دی کہ اس کے ذریعہ تم جھوٹی افواہیں پھیلاؤ اس لئے نہیں دی کہ اس کے ذریعہ تم لوگوں پر الزام اور بہتان عائد کیا کرو، بلکہ تمہارا فرض ہے کہ جب تک کسی بات کی مکمل تحقیق نہ ہوجائے، اس کو زبان سے نہ نکالو۔ افسوس ہے کہ آج ہم لوگ باری تعالیٰ کے اس حکم کو فراموش کئے ہوئے ہیں ، اور اس کے نتیجے میں ہم طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہورہے ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں اس برائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
- ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ھے
مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کا فتوی موجود ہے کہ ہمارا ووٹ تین حیثیتیں رکھتا ھے ایک شہادت، دوسرے سفارش، تیسرے حقوق مشترکہ میں وکالت۔ تینوں حیثیتوں میں جس طرح نیک، صالح، قابل آدمی کو ووٹ دینا موجبِ ثوابِ عظیم ہے اور اُس کے ثمرات اُس کو ملنے والے ہیں، اسی طرح نااہل یا غیرمتدین شخص کو ووٹ دینا جھوٹی شہادت بھی ہے اور بُری سفارش بھی اور ناجائز وکالت بھی اور اس کے تباہ کن اثرات بھی اُس کے نامۂ اعمال میں لکھے جائیں گے۔ *ضروری تنبیہ* مذکور الصدر بیان میں جس طرح قرآن و سنت کی رُو سے یہ واضح ہوا کہ نااہل، ظالم، فاسق اور غلط آدمی کو ووٹ دینا گناہِ عظیم ہے، اسی طرح ایک اچھے، نیک اور قابل آدمی کو ووٹ دینا ثوابِ عظیم ہے بلکہ ایک فریضہ شرعی ہے۔ قرآن کریم نے جیسے جھوٹی شہادت کو حرام قرار دیا ہے، اسی طرح سچی شہادت کو واجب و لازم بھی فرما دیا ہے۔ ارشاد باری ہے:قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآءَ بِالْقِسْطِ (المائدہ ۵:۸) اور دوسری جگہ ارشاد ہے:کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآءَ لِلّٰہِ (النساء ۴:۱۳۵)ان دونوں آیتوں میں مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ سچی شہادت سے جان نہ چرائیں، اللہ کے لئے ادائیگی شہادت کے واسطے کھڑے ہوجائیں۔ تیسری جگہ سورۂ طلاق (۶۵:۱) میں ارشاد ہے: وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ،یعنی اللہ کے لیے سچی شہادت کو قائم کرو۔ ایک آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ سچی شہادت کا چھپانا حرام اور گناہ ہے۔ ارشاد ہے: وَ لَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَ ط وَمَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ ط (البقرہ ۲:۲۸۳)، (یعنی شہادت کو نہ چھپاؤ اور جو چھپائے گا اُس کا دل گناہ گار ہے)۔ان تمام آیات نے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد کردیا ہے کہ سچی گواہی سے جان نہ چھڑائیں، ضرور ادا کریں۔ آج جو خرابیاں انتخابات میں پیش آرہی ہیں اُن کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ نیک اور صالح حضرات عموماً ووٹ دینے ہی سے گریز کرنے لگے جس کا لازمی نتیجہ وہ ہوا جو مشاہدے میں آرہا ہے کہ ووٹ عموماً اُن لوگوں کے آتے ہیں جو چند ٹکوں میں خرید لئے جاتے ہیں اور اُن لوگوں کے ووٹوں سے جو نمائندے پوری قوم پر مسلط ہوتے ہیں، وہ ظاہر ہے کہ کس قماش اور کس کردار کے لوگ ہوں گے۔ اس لیے جس حلقے میں کوئی بھی اُمیدوار قابل اور نیک معلوم ہو، اُسے ووٹ دینے سے گریز کرنا بھی شرعی جرم اور پوری قوم و ملّت پر ظلم کے مترادف ہے، اور اگر کسی حلقے میں کوئی بھی اُمیدوار صحیح معنی میں قابل اور دیانت دار نہ معلوم ہو مگر ان میں سے کوئی ایک صلاحیتِ کار اور خداترسی کے اصول پر دوسروں کی نسبت سے غنیمت ہو تو تقلیلِ شر اور تقلیلِ ظلم کی نیت سے اس کو بھی ووٹ دے دینا جائز بلکہ مستحسن ہے، جیساکہ نجاست کے پورے ازالے پر قدرت نہ ہونے کی صورت میں تقلیلِ نجاست کو اور پورے ظلم کو دفع کرنے کا اختیار نہ ہونے کی صورت میں تقلیلِ ظلم کو فقہا رحمہم اللہ نے تجویز فرمایا ہے۔ واللّٰہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔خلاصہ یہ ہے کہ انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام، اس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام، اس میں محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بڑی بھاری غلطی ہے۔ آپ جس اُمیدوار کو ووٹ دیتے ہیں، شرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم و عمل اور دیانت داری کی رُو سے اس کام کا اہل اور دوسرے اُمیدواروں سے بہتر ہے جس کام کے لئے یہ انتخابات ہورہے ہیں۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:۱۔ آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمایندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا، وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا بُرے اقدامات کرے گا اُن کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے۔۲۔ اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہوجائے تو اس کا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے، ثواب و عذاب بھی محدود۔قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے، اس کا ادنیٰ نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے، اس لئے اس کا ثواب و عذاب بھی بہت بڑا ہے۔۳۔ سچی شہادت کا چھپانا از روئے قرآن حرام ہے۔ آپ کے حلقۂ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریے کا حامل و دیانت دار نمایندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔۴۔ جو اُمیدوار نظامِ اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے، اس کو ووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے جو گناہِ کبیرہ ہے۔۵۔ ووٹ کو پیسوں کے معاوضے میں دینا بدترین قسم کی رشوت ہے اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنا دین قربان کردینا کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو، کوئی دانش مندی نہیں ہوسکتی۔ رسولؐ اللہﷺنے فرمایا ہے کہ ’’وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنا دین کھو بیٹھے‘‘۔”ووٹ کی شرعی حیثیت'(مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ)
- مدح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین
دینِ اسلام کا منبع اور سرچشمہ وحیِ الٰہی ہے، جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے سیدنا محمد مصطفٰیﷺ پر نازل کی گئی، خواہ وہ وحیِ الٰہی قرآن کریم کی صورت میں ہو یا سنتِ رسول اور احادیثِ نبوی ﷺ کی صورت میں ہو۔ جناب رسالت مآبﷺ سے اس وحیِ الٰہی اور دینِ اسلام کو لینے کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ ہی نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسی مقدس جماعت کو نبی کریمﷺ کی صحبت، تعلیم اور تلقین کے لیے منتخب فرمایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ترویج دین اسلام میں اہم ترین مقام حاصل ے۔ یہ ایک ایسی منتخب جماعت ہے جو رسول اللہ ﷺ اور عام اُمت کے درمیان رشد و ہدایت کا واحد ذریعہ رابطہ ہے۔ اس رابطہ کے بغیر نہ اُمت کو قرآن کریم ہاتھ آسکتا ہے، نہ قرآن کریم کے وہ مضامین جن کو قرآن نے رسول اللہﷺ کے بیان پر یہ کہہ کر چھوڑا ہے۔۔ ارشاد باری تعالٰی ہے (النحل:۴۴) ۔۔۔۔ ’’آپ بیان کریں لوگوں کے لئے وہ چیز جو آپ کی طرف نازل کی گئی۔‘‘ اور نہ ہی رسالت اور اس کی تعلیمات کا کسی کو اس واسطہ کے بغیر علم ہوسکتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین‘ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کو دنیا کی ہر چیز حتیٰ کہ اپنی آل اولاد اور اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، آپ ﷺ کے پیغام کو اپنی جانیں قربان کرکے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم اجمعین ہی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے لئے ارشاد فرمایا، (الحجرات:۷)ترجمہ: ’’اور جان لو! تمہارے درمیان اللہ کے رسول (ﷺ) موجود ہیں اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہارا کہنا مان لیں توضرور تم بڑی مشکل میں پڑجاؤ گے لیکن اللہ نےایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیااور اُسے تمہارے دلوں میں مزیّن فرما دیا اور تمہارے نزدیک کفر فسق اورنافرمانی کو قابل نفرت بنا دیا یہی لوگ راہِ راست پر ہیں ۔‘‘ (المجادلۃ:۲۲)ترجمہ:’’ان کے دلوں میں اللہ نے لکھ دیا ہے ایمان اور ان کی مدد کی ہے اپنے غیب کے فیض سے ۔ (التوبۃ آیت۱۰۰)ترجمہ:’’اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ، اللہ راضی ہوا اُن سے اور وہ راضی ہوئے اُس سے ۔‘‘ (البقرۃ:۱۳۷)ترجمہ: ’’سو اگر وہ بھی ایمان لاویں جس طرح تم ایمان لائے ہدایت پائی انہوں نے بھی۔‘‘ (آل عمران:۱۱۰) ترجمہ :’’تم ہو بہتر سب اُمتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں۔‘‘ (البقرۃ:۱۴۳)ترجمہ:’’اور اسی طرح کیا ہم نے تم کو اُمت معتدل۔‘‘ (الفتح:۲۹)ترجمہ:’’محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر، نرم دل ہیں آپس میں، تو دیکھے ان کو رکوع میں اور سجدہ میں ، ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشی ، نشانی (پہچان، شناخت) ان کی اُن کے چہرے پر ہے سجدہ کے اثر سے۔‘‘اس آیت میں ’’وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ‘‘ عام ہے، اس میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم شامل ہیں، اس میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کا تزکیہ اور ان کی مدح وثنا خود مالکِ کائنات کی طرف سے آئی ہے ’’(التحریم:۸)ترجمہ:’’جس دن کہ اللہ ذلیل نہ کرے گا نبی کو اور ان لوگوں کو جو یقین لائے ہیں اس کے ساتھ۔‘‘ (یوسف:۱۰۸)ترجمہ:’’کہہ دے یہ میری راہ ہے، بلاتا ہوں اللہ کی طرف سمجھ بوجھ کر میں اور جو میرے ساتھ ہے۔” (الحدید:۱۰)ترجمہ:’’اور سب سے وعدہ کیا ہے اللہ نے خوبی کا۔ ‘‘حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے(مسند احمد، رقم الحدیث:۳۴۶۸)’’اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد ﷺ کے قلب کو ان سب قلوب میں بہتر پایا، ان کو اپنی رسالت کے لیے مقرر کردیا، پھر قلب محمدﷺ کے بعد دوسرے قلوب پر نظر فرمائی تو اصحابِ محمدﷺ کے قلوب کو دوسرے سب بندوں کے قلوب سے بہتر پایا، ان کو اپنے نبی ﷺ کی صحبت اور دین کی نصرت کے لیے پسند کرلیا۔‘‘امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا (شرح السفارینی للدرۃ المنیفۃ، ج:۱،ص:۱۲۴)’’جو شخص اقتداء کرنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ اصحابِ رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کرے، کیونکہ یہ حضرات ساری اُمت سے زیادہ اپنے قلوب کے اعتبار سے پاک، اور علم کے اعتبار سے گہرے اور تکلف وبناوٹ سے دور اور عادات کے اعتبار سے معتدل، اور حالات کے اعتبار سے بہتر ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اقامت کے لیے پسند فرمایا ہے۔ تو تم ان کی قدر پہچانو اور اُن کے آثار کا اتباع کرو، کیونکہ یہی لوگ صراط مستقیم پر ہیں۔‘‘حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ (ترمذی، ج:۲، ص:۲۲۵) ’’اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملے میں، میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع کا) نشانہ نہ بناؤ، کیونکہ جس شخص نے ان سے محبت کی تو میری محبت کے ساتھ ان سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھاتو میرے بغض کے ساتھ ان سے بغض رکھا، اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذاء پہنچائی، اور جس نے مجھے ایذاء دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی، اور جو اللہ کو ایذاء پہنچانا چاہتا ہے تو قریب ہے کہ اللہ اس کو عذاب میں پکڑلے گا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، نبی کریمﷺ نے فرمایا(ترمذی، ج:۲، ص:۲۲۵) ’’ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہؓ کو برا کہتے ہیں تو تم ان سے کہو: خدا کی لعنت ہے اس پر جو تم دونوں (یعنی صحابہؓ اور تم) میں سے بدتر ہیں۔‘‘ ظاہرہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے مقابلے میں بدتر وہی ہے جو اُن کو برا کہنے والا ہے۔ اس حدیث میں صحابیؓ کو برا کہنے والا مستحقِ لعنت قرار دیا گیا ہے۔ علامہ سفارینی رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔’’اہل سنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ تمام صحابہؓ کو پاکیزہ سمجھے، ان کے لئے عدول ثابت کرے، ان پر اعتراضات کرنے سے بچے، اور ان کی مدح و توصیف کرے، اس لئے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں ان کی مدح وثنا کی ہے۔ اس کے علاوہ اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے صحابہؓ کی فضیلت میں کوئی بات منقول نہ ہوتی تب بھی ان کی عدول پر یقین اور پاکیزگی کا اعتقاد رکھنا اور اس بات پر ایمان رکھنا ضروری ہوتا کہ وہ نبی ﷺ کے بعد ساری اُمت کے افضل ترین افراد ہیں، اس لئے ان کے تمام حالات اسی کے مقتضی تھے، انہوں نے ہجرت کی، جہاد کیا، دین کی نصرت میں اپنی جان ومال کو قربان کیا، اپنے باپ بیٹوں کی قربانی پیش کی، اور دین کے معاملے میں باہمی خیرخواہی اور ایمان ویقین کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا۔ (عقیدہ سفارینی ، ج:۲،ص:۳۳۸) امام ابوزرعہ عراقی رحمہ اللہ جو امام مسلم رحمہ اللہ کے استاذ تھے ، ان کا یہ قول نقل کیا ہے (ج:۲،ص:۳۸۹) ’’جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کی بھی تنقیص کررہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے، اس لئے کہ قرآن حق ہے، رسولﷺ حق ہے، جو تعلیمات آپﷺ لے کر آئے وہ حق ہیں، اور یہ سب چیزیں ہم تک پہنچانے والے صحابہؓ کے سوا کوئی نہیں، تو جو شخص ان کو مجروح کرتا ہے وہ کتاب وسنت کو باطل کرنا چاہتاہے، لہٰذا خود اس کو مجروح کرنا زیادہ مناسب ہے، اور اس پر گمراہی اور زندقہ کا حکم لگانا زیادہ قرینِ حق وانصاف ہے۔‘‘ان آیات اور احادیث میں صرف یہی نہیں کہ اصحابِ رسول کی مدح وثناء اور ان کی رضوانِ الٰہی اور جنت کی بشارت دی گئی ہے، بلکہ اُمت کو ان کے ادب واحترام اور ان کی اقتداء کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے کسی کو برا کہنے کی سخت وعید فرمائی ہے، ان کی محبت کو رسول اللہ ﷺکی محبت، ان سے بغض کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض قرار دیا گیا ہے۔
- تقوی کے فوائد اور ثمرات
#تقوی#مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا چاہئے۔ اللہ کا خوف مسلمان کے لئے حق و باطل کا معیار بن جاتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی تقویٰ اختیار کرنے والے کے گناہ معاف کردیتا ہے۔اللہ تعالیٰ بڑا فضل وکرم والا ہے۔
تقویٰ کے فوائدتفسیر بالقرآن:متقین کے لئے کامیابی ہے۔ (الانبیاء : 31تا33) متقین کے لئے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم :24)متقی کا ہر کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لئے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : 4تا5)متقین اولیاء اللہ ہیں جو بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : 61تا64)اگر مؤمن اس بات سے ڈرتا رہے جو اللہ تعالٰی کے احکام کے خلاف ہو ، تو اللہ تعالٰی متقین کے اندر ایسا نور بصیرت یا قوت تمیز پیدا کردے گا جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کی راہنمائی کرے گا۔ جس سے حق و باطل میں تمیز ہو جائے گی۔ دنیا و آخرت کی سعادت مندی حاصل ہوگی۔برائیوں کو مٹا دیا جائے گا اور اکثر و بیشتر گنا ہ معاف کر دئیے جائیں گے۔تقویٰ (یعنی پرہیزگاری اللہ کی نافرمانی سے بچنا)کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ایمان والے شخص کو ایسی سمجھ عطا کر دیتا ہے جو حق اور ناحق میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور گناہ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کی عقل خراب کر دیتا ہے جس سے وہ اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔یہاں فرقان کے معنی حق وباطل کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت ہے۔ آدمی اگر اللہ سے ڈرے، وہ وہی کرے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اس سے بچے جس سے اللہ نے منع کیا ہے تو اس کو اس بات کی توفیق ملتی ہے کہ وہ حق اور باطل کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھ سکے۔انسانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے والی سب سے بڑی چیز ڈر ہے۔ جس معاملہ میں انسان کے اندر ڈر کی نفسیات پیدا ہوجائے اس معاملہ میں وہ حد درجہ حقیقت پسند بن جاتاہے۔ ڈر کی نفسیات اس کے ذہن کے تمام پردوں كو اس طرح ھٹا ديتی ہےکہ اس بارے ميں وه ہر قسم كي غفلت يا غلط فہمی سے بلند ہو كر صحیح ترین رائے قائم کرسکے۔ یہی معاملہ اس بندۂ خدا کے ساتھ پیش آتا ہے جس کو رب العالمین کے ساتھ تقویٰ (ڈر) کاتعلق پیداہوگیا ہو۔یہ فرقان تقریباً وہی چیز ہے جس کو معرفت یا بصیرت کہا جاتا ہے۔ بصیرت کسی آدمی میں وہ اندرونی روشنی پیدا کرتی ہے کہ وہ ظاہری پہلوؤں سے دھوکا کھائے بغیر ہر بات کو اس کے اصل روپ میں دیکھ سکے۔ جب بھی کوئی آدمی کسی معاملہ میں اپنے کو اتنا زیادہ شامل کرتا ہے کہ وہ اس کی پرواہ کرنے لگے۔ وہ اس کے بارے میں تشویش ناک حد تک اندیشہ میں رہتا ہو تو اس کے بعد اس کے اندر ایک خاص طرح کی حساسيت پیدا ہوتی ہے جو اس کو اس معاملہ کے موافق اور مخالف کی پہچان کرا دیتی ہے۔ یہ فرقانی معاملہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہے خواہ وہ ایک مذہبی آدمی ہو یا ایک تاجر خواہ وہ ڈاکٹر ہو یا انجینئر۔ کوئی بھی آدمی جب اپنے کام سے تقویٰ (کھٹک) کی حد تک اپنے کو وابستہ کرتا ہے تو اس کو اس معاملہ کی ایسی معرفت ہوجاتی ہے کہ ادھر اُدھر کے مغالطوں میں اُلجھے بغیر وہ اس کی حقیقت تک پہنچ جائے۔کسی آدمی کے اندر یہ خدائی بصیرت (فرقان) پیدا ہونا اس بات کی سب سے بڑی ضمانت ہے کہ وہ برائیوں سے بچے، وہ اللہ تعالی کے ساتھ اپنے تعلق کو درست کرے اور بالآخر اللہ کے فضل کا مستحق بن جائے۔ یہ فرقان (حق وباطل کی نفسیاتی تمیز) پیدا ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی اپنے آپ کو حق کے ساتھ اتنا زیادہ وابستہ کرچکا ہے کہ اس میں اور حق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ وہ اور حق دونوں ایک دوسرے کا مُثنی (counterpart) بن چکے ہیں۔ اس کے بعد اس کا بچایا جانا اتنا ہی ضروری ہو جاتا ہے جتنا حق کو بچایا جانا۔ ایسے لوگ براہِ راست اللہ تعالی کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ اب ان کے خلاف تدبیریں کرنا خود حق کے خلاف تدبیریں کرنا بن جاتا ہے۔ اور اللہ تعالی کے خلاف تدبیر کرنے والا ہمیشہ ناکام رہتا ہے خواہ اس نے کتنی ہی بڑی تدبیر کر رکھی ہو۔وللہ اعلم بالصواب۔
- یکم نومبر یوم جشن آزادی گلگت بلتستان
میرے خاندان کے افراد آزادی کی نعمت اور غلامی کی اذیت سے نابلد ہوتے اگر ہمارے درمیان میرے عم محترم مجاہد اول گلگت بلتستان جناب مولانا عبدالمنان حفظہ اللہ تعالی جن کی عمر ایک صدی سے زائد پر محیط ہے کی مسلسل پند و نصائح نہ ہوتی۔۔ الحمد للہ۔۔! مجاہد اول گلگت بلتستان محترم چچا جان ہی کی تحریک آزادی کے لئے جہاد فی سبیل اللہ نے ہمیں غلامی اور آزادی کی پہچان دی۔۔ آپ اکثر اس پیرانہ سال حال میں بھی مکرر فرماتے ہیں کہ
“آزادی ہی اس دنیاوی زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے جبکہ غلامی زندگی کی سب سے بڑی ذلت اور اذیت ہے ۔ آزادی کی اہمیت کا ادراک وہی فرد کر سکتا ہے جس نے غلامی کی ذلت اور رسوائی دیکھی ہو۔”
اسلامی تعلیمات ہمیشہ حریت اور آزادی کا درس دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ جنگ آزادی 1857ءکی ناکامی کے بعد مسلمانان ہند دوسرے اقوام کے غلام بن بیٹھے تو تب انہیں آزادی کی اہمیت کا احساس ہوا جس کی وجہ سے جداگانہ تحریک آزادی کا آغاز ہوا ۔ بالآخر لاکھوں قیمتی جانوں کی قربانی کے بعد 14اگست 1947کو موجودہ دنیا کا پہلا آزاد اسلامی ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ تقسیم ہند سے پہلے گلگت بلتستان کے علاقوں میں ڈوگرہ اور انگریزوں کی حکومت تھی ۔ گلگت بلتستان کا موجودہ رقبہ لگ بھگ بہتر(72000)مربع کلومیٹر اور آبادی کم و بیش30لاکھ ہے جبکہ انتظامی طور پر تین ڈویژنز اور عبوری صوبائی اسمبلی کے 24حلقوں پر مشتمل ہیں ۔ پاکستان کے اس عبوری صوبہ گلگت بلتستان کی سرحدیں شمال کی جانب چین ، شمال مغرب میں افغانستان ، جنوب میں پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخواہ، جنوب مشرق میں آزاد جموں کشمیر اور مشرق میں بھارتی مقبوضہ کشمیر سے ملتی ہے جو کہ اپنا محل وقوع کے لحاظ سے پاکستان کے دیگر صوبوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے مقابلے میں بالخصوص قدرے زیادہ اور دنیا کی چھت کے طور پر بالعموم پوری دنیا میں غیرمعمولی جغرافیائی اہمیت اور افادیت رکھتا ہے ۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے کامیاب منصوبے کی وجہ سے بام جہاں گلگت بلتستان پوری دنیا میں معاشی محور و گزرگاہ کا مقام حاصل کرچکا ہے۔
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح رح نے ہمارے نزدیک دراصل گلگت بلتستان ہی کے لئے پاکستان کی شہ رگ کہا تھا جو تقسیم ہند کے موقع پر جزوی طور پر کشمیر سے ملحق ایک وسیع خطہ تھا۔ گلگت بلتستان کی وجہ سے نہ صرف پاکستان سیاحت اور پانی سے مالامال ہے بلکہ وطن عزیز کی سرحدیں چین اور وسطی ایشیاءتک پہنچ چکی ہیں اور یہی گلگت بلتستان ہے جو کہ پاک چین دوستی کی لازوال علامت ہے۔ مجھے یہ امر مانع نہیں ہے اگر یہ دعوی کروں کہ اس خطے کے عوام وطن عزیز مملکت خداداد پاکستان کی بہترین محافظ بھی ہیں۔ اگر یکم نومبر1947ء میں تحریک آزادی گلگت بلتستان کا یہ جذبہ منظر عام پر نہ آتا تو شاید پاکستان کی خارجی، داخلی اور معاشی حکمت عملی کی شکل کچھ اور ہی ہو جاتی۔ بہر کیف ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک آزادی گلگت بلتستان کو واقعی وہ مقام دیا جائے جو ان کا حق بنتا ہے تاکہ یہ جذبہ اور جنون ہمیشہ قائم و دائم رہے ۔ قومی میڈیا یکم نومبر کے اہم تقریبات کو منظر عام پر لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے تاکہ تحریک آزادی گلگت بلتستان اپنی اصل روح اور حقیقت کےساتھ سامنے آئے جو کہ ملکی ، علاقائی اور عوامی مفاد میں ہے۔گلگت بلتستان کے عوام کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ تحریک آزادی گلگت بلتستان کے تمام رہنما، ہیروز اور مجاہدین کو تحریک پاکستان کے راہنماؤں اور عمائدین کے برابر مقام دیا جائے۔
گلگت بلتستان کے ہر ایک فرد یاد رکھے کہ آج اگر وہ معاشرے کا ایک آزاد و خود مختار فرد ہے ،تو اس کی قسمت کی یہ روشن لکیر ہمارے آباء و اجداد کے لہو سے کندہ ہے ۔یہ آزادی بہت ہی بیش قیمت ہے۔اس لئے ہم سب ملکر اس کے تحفظ کے لئے یک جان ہو کر کوشش کریں ۔آزادی کی قدر و منزلت کا اندازہ ان قوموں کی تکالیف و اضطراب سے لگایا جاسکتا ہے،جنھیں یہ نعمت حاصل نہیں۔لہٰذا یہ قوم کے ہر اک فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے بزرگوں کی قربانی اور ایثار سے حاصل شدہ نعمت کی قدر کرے اور اس کی مضبوط دفاع و استحکام کے لئے اپنا فریضہ احسن طریقے سے نبھائے۔گلگت بلتستان کے لوگوں کو آج کے دن یہ عہد کرنا ہے کہ وہ اس خطے کی سلامتی اور خودمختاری کے لئے ہر صورت جہد مسلسل کرتے رہیں گے ۔وہ رواداری، مذہبی ہم آہنگی،پرامن بقائے باہم ، برداشت اور صلہ رحمی کو فروغ دیں اور ایسے افعال اور امور کو فروغ دینے سے اجتناب کریں ،جن سے علاقائی امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہوں جو دشمنوں کے لئے ترنوالہ ثابت ہوسکے۔ فی الحقیقت من حيث القوم یہی یوم جشن آزادی کے موقع پر ہمارا پیغام برائے پختہ عہد اور عزم ہو۔
طالب دعاء : بوسکندر - شداد کی جنت کے بارے حیرت انگیز حکایت
قوم ارم:۔ان لوگوں کا تعلق قومِ عاد سے تھا اور وہ اِرم نام کی بستی کے رہنے والے تھے۔ وہ بستی بڑے بڑے ستونوں والی تھی۔ عماد جمع ہے عمد کی اور عمد کے معنی ستون کے ہیں۔ عاد کے نام سے دو قومیں گزری ہیں۔ ایک کو عادِ قدیمہ یا عادِاِرم کہتے ہیں۔ یہ عاد بن عوض بن اِرم بن سام بن نوحؑ کی اولاد میں سے تھے۔ ان کے دادا کی طرف منسوب کرکے ان کو عادِ اِرم بھی کہا جاتاہے۔ اپنے شہر کا نام بھی انھوں نے اپنے دادا کے نام پر رکھا تھا۔ ان کا وطن عدن سے متصل تھا۔ان کی طرف حضرت ہُودؑ علیہ السلام مبعوث کیے گئے تھے لیکن قومِ عاد کی بداعمالیوں کے سبب جب انھیں تباہ کردیا گیا تو حضرت ہُودؑ علیہ السلام حضر موت کی طرف مراجعت کر گئے۔ ان کی رہائش احقاف کے علاقے میں تھے۔ حضرت ہوُدؑ کی وفات یہیں پر ہوئی۔ احقاف میں بسنے والی اس قوم نے بہت ترقی کی۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو غیرمعمولی قدوقامت اور قوت عطا فرمائی تھی۔ ان میں ہر شخص کا قد کم از کم بارہ گز کا ہوتا تھا۔ طاقت کا یہ حال تھا کہ بڑے سے بڑا پتھر جس کو کئی آدمی مِل کر بھی نہ اٹھا سکیں، ان کا ایک آدمی ایک ہاتھ سے اٹھا کر پھینک دیتا تھا۔ یہ لوگ طاقت و قوت کے بل بوتے پر پورے یمن پر قابض ہوگئے۔ دو بادشاہ خاص طور پر ان میں بہت جاہ جلال والے ہوئے۔ وہ دونوں بھائی تھے۔ ایک کا نام شدید تھاجو بڑا تھا۔ دوسرے کا نام شدّاد تھا جو اس کے بعد تخت نشین ہوا۔ یہ دونوں وسیع علاقے پر قابض ہوگئے اور بے شمار لشکر و خزانے اُنھوں نے جمع کر لئے تھے۔عادِاِرم کا قصہ شدّاد نے اپنے بھائی شدید کے بعد سلطنت کی رونق و کمال کو عروج تک پہنچایا۔ دنیا کے کئی بادشاہ اسکے باج گزار تھے۔ اُس دور میں کسی بادشاہ میں اتنی جرأت و طاقت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کرسکے۔ اس تسلط اور غلبہ نے اس کو اتنا مغرور و متکبر کردیا کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کردیا۔ اُس وقت کے علما و مصلحین نے جو سابقہ انبیا کے علوم کے وارث تھے، اسے سمجھایا اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا تو وہ کہنے لگا، جو حکومت و دولت اور عزت اس کو اب حاصل ہے، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟ جو کوئی کسی کی خدمت و اطاعت کرتا ہے، یا تو عزت و منصب کی ترقی کے لیے کرتا ہے یا دولت کے لیے کرتا ہے، مجھے تو یہ سب کچھ حاصل ہے، مجھے کیا ضرورت کہ میں کسی کی عبادت کروں؟ حضرت ہُودؑ نے بھی اُسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن بے سُود۔سمجھانے والوں نے یہ بھی کہا کہ یہ حکومت و دولت ایک فانی چیز ہے جبکہ اللہ کی اطاعت میں اُخروی نجات اور جنت کا حصول ہے جو دنیا کی ہر دولت سے بہتر اور زیادہ قیمتی ہے۔ اس نے پوچھا، یہ جنت کیسی ہوتی ہے؟ اس کی تعریف اور خوبی بتاؤ۔ نصیحت کرنے والوں نے جنت کی وہ صفات جو انبیائے کرام کی تعلیمات کے ذریعے ان کو معلوم ہوئی تھیں، اس کے سامنے بیان کیں تو اس نے کہا ”مجھے اس جنت کی ضرورت نہیں ایسی جنت تو میں خود دنیا ہی میں بنا سکتا ہوں۔“
شدّاد کی جنت :۔
چنانچہ اس نے اپنے افسروں میں سے ایک سو معتبر افراد کو بلایا۔ ہر ایک کو ایک ہزار آدمیوں پر مقرر کیا اور تعمیر کے سلسلے میں ان سب کو اپنا نکتہ نظر اور پسند سمجھا دی۔ اس کے بعد پوری دنیا میں اس کام کے ماہرین کو عدن بھجوانے کا حکم دیا۔ علاوہ ازیں اپنی قلمرو میں سب حکمرانوں کو یہ حکم دیا کہ سونے چاندی کی کانوں سے اینٹیں بنوا کر بھیجیں۔ اور کوہِ عدن کے متصل ایک مربع شہر (جنت) جو دس کوس چوڑا اور دس کوس لمبا ہو، بنانے کاحکم دیا۔ اس کی بنیادیں اتنی گہری کھدوائیں کہ پانی کے قریب پہنچا دیں۔ پھر ان بنیادوں کو سنگِ سلیمانی سے بھروادیا۔ جب بنیادیں بھر کر زمین کے برابر ہوگئیں تو ان پر سونے چاندی کی اینٹوں کی دیواریں چنی گئیں۔ ان دیواروں کی بلندی اس زمانے کے گز کے حساب سے سو گز مقرر کی گئی۔ جب سورج نکلتا تو اس کی چمک سے دیواروں پر نگاہ نہیں ٹھہرتی تھی۔ یوں شہر کی چاردیواری بنائی گئی۔ اس کے بعد چار دیواری کے اندر ایک ہزار محل تعمیر کئے گئے، ہر محل ایک ہزار ستونوں والا تھا اور ہر ستون جواہرات سے جڑاؤ کیا ہوا تھا۔پھر شہر کے درمیان میں ایک نہر بنائی گئی اور ہر محل میں اس نہر سے چھوٹی چھوٹی نہریں لے جائی گئیں۔ ہر محل میں حوض اور فوارے بنائے گئے۔ ان نہروں کی دیواریں اور فرش یاقوت، زمرد، مرجان اور نیلم سےسجادی گئیں۔ نہروں کے کناروں پر ایسے مصنوعی درخت بنائے گئے جن کی جڑیں سونے کی، شاخیں اور پتے زمرد کے تھے۔ ان کے پھل موتی و یاقوت اور دوسرے جواہرات کے بنواکر ان پر ٹانک دیے گئے۔شہر کی دکانوں اور دیواروں کو مشک و زعفران اور عنبر و گلاب سے مزّین کیا گیا۔ یاقوت و جواہرات کے خوب صورت پرندے چاندی کی اینٹوں پر بنوائے گئے جن پر پہرے دار اپنی اپنی باری پر آ کر پہرے کے لئے بیٹھتے تھے۔ جب تعمیر مکمل ہوگئی تو حکم دیا کہ سارے شہر میں ریشم و زردوزی کے قالین بچھا دیے جائیں۔ پھر نہروں میں سے کسی کے اندر میٹھا پانی، کسی میں شراب، کسی میں دودھ اور کسی میں شہد و شربت جاری کردیا گیا۔بازاروں اور دکانوں کو کمخواب و زربفت کے پردوں سے آراستہ کردیا گیا اور ہر پیشہ و ہنر والے کو حکم ہوا کہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوجائیں اور یہ کہ اس شہر کے تمام باسیوں کے لئے ہر وقت ہر نوع و قسم کے پھل میوے پہنچا کریں۔بارہ سال کی مدت میں یہ شہر جب اس سجاوٹ کے ساتھ تیار ہوگیا تو تمام امرا و ارکان ِ دولت کو حکم دیا کہ سب اسی میں آباد ہوجائیں۔ پھر شدّاد خود، اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ انتہائی تکبر اور غرور کے ساتھ اس شہر کی طرف روانہ ہوا۔ بعض علما و مصلحین کو بھی ساتھ لیا اور راستے بھر اُن سے طنز و تمسخر کرتے ہوئے ان سے کہتارہا ”ایسی جنت کے لئے تم مجھے کسی اور کے آگے جھکنے اور ذلیل ہونے کا کہہ رہے تھے! میری قدرت و دولت تم نے دیکھ لی؟“جب قریب پہنچا تو تمام شہر والے اس کے استقبال کے لئے شہر کے دروازے کے باہر آگئے اور اس پر زر و جواہر نچھاور کرنے لگے۔ اسی ناز و ادا سے چلتے ہوئے جب شہر کے دروازے پر پہنچا تو روایت ہے کہ ابھی اس نے گھوڑے کی رکاب سے ایک پاؤں نکال کر دروازے کی چوکھٹ پر رکھا ہی تھاکہ اس نے وہاں پہلے سے ایک اجنبی شخص کو کھڑے ہوئے دیکھا۔ اس نے پوچھا ”تُو کون ہے؟“اس نے کہا ”میں ملک الموت ہوں۔“پوچھا ”کیوں آئے ہو؟“اس نے کہا”تیری جان لینے۔“ شداد نے کہا مجھ کو اتنی مہلت دے کہ میں اپنی بنائی ہوئی جنت کو دیکھ لوں۔ جواب ملا ”مجھ کو حکم نہیں۔“ کہا، چلو اس قدر ہی فرصت دے دو کہ گھوڑے پر سے اتر آؤں۔ جواب ملا ”اس کی بھی اجازت نہیں۔“ چناں چہ ابھی شداد کاایک پاؤں رکاب میں اور دوسرا چوکھٹ پر ہی تھا کہ ملک الموت نے اس کی روح قبض کرلی۔پھر حضرت جبرائیل ؑنے بڑے زور سے ایک ہولناک چیخ ماری کہ اسی وقت تمام شہر مع اپنی عالی شان سجاوٹوں کے ایسا زمین میں سمایا کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ قرآن پاک میں اس کا ذکر اس طرح ہوا ہے:ترجمہ:”وہ جو اِرم تھے بڑے ستونوں والے اور شہروں سے اس کے مانند کوئی شہر شان دار نہ تھا۔“(پارہ 30۔ سورۃ فجر۔ آیت 7،8)شداد اور اس کی جنت کا انجام معتبر تفاسیر میں لکھا ہے کہ بادشاہ اور اس کے لشکر کے ہلاک ہوجانے کے بعد وہ شہر بھی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل کردیا گیا۔ مگر کبھی کبھی رات کے وقت عدن اور اس کے اِردگرد کے لوگوں کو اس کی کچھ روشنی اور جھلک نظرآجاتی ہے۔یہ روشنی اُس شہر کی دیواروں کی ہوتی تھی ۔ حضرت عبداللہؓ بن قلابہ جو صحابی ہیں، اتفاق سے اُدھر کو چلے گئے۔ اچانک آپ کا ایک اونٹ بھاگ گیا، آپ اس کو تلاش کرتے کرتے اُس شہر کے پاس پہنچ گئے۔ جب اس کے میناروں اور دیواروں پر نظر پڑی تو آپ بے ہوش ہو کر گِر پڑے۔ جب ہوش آیا تو سوچنے لگے کہ اس شہر کی صورتِ حال تو ویسی ہی نظر آتی ہے جیسی نبی کریمؐ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہم سے شداد کی جنت کے بارے میں بیان فرمائی تھی۔ یہ میں خواب دیکھ رہاہوں یا اس کا کسی حقیقت سے بھی کوئی تعلق ہے؟اسی کیفیت میں اٹھ کر وہ شہر کے اندر گئے۔ اس کے اندر نہریں اور درخت بھی جنت کی طرح کے تھے۔ لیکن وہاں کوئی انسان نہیں تھا۔ آپؓ نے وہاں پڑے ہوئے کچھ جواہرات اٹھائے اور واپس چل پڑے۔ وہاں سے وہ سیدھے اُس وقت کے دارالخلافہ دمشق میں پہنچے۔ حضرت امیرمعاویہؓ وہاں موجود تھے۔ وہاں جو کچھ ماجرا ان کے ساتھ پیش آیا تھا، انھوں نے بیان کیا۔ حضرت امیرمعاویہؓ نے ان سے پوچھا، وہ شہر آپ نے حالتِ بیداری میں دیکھا تھا کہ خواب میں؟حضرت عبداللہؓ نے بتایا کہ بالکل بیداری میں دیکھا تھا۔ پھر اس کی ساری نشانیاں بتائیں کہ وہ عدن کے پہاڑ کی فلاں جانب اتنے فاصلے پر ہے۔ ایک طرف فلاں درخت اور دوسری طرف ایسا کنواں ہے اور یہ جواہرات و یاقوت نشانی کے طور پر میں وہاں سے اٹھا لایا ہوں۔حضرت امیرمعاویہؓ یہ ماجرا سننے کے بعد نہایت حیران ہوئے۔ پھر اہلِ علم حضرات سے اس بارے میں معلومات حاصل کی گئیں کہ کیا واقعی دنیا میں ایسا شہر بھی کبھی بسایا گیا تھا جس کی اینٹیں سونے چاندی کی ہوں؟ علما نے بتایا کہ ہاں قرآن میں بھی اس کا ذکر آیا ہے۔ اس آیت میں ”اِرم ذات العماد۔“ یہی شہر ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا دیا ہے۔ علما نے بتایا کہ آنحضرتؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میری امت میں سے ایک آدمی اس میں جائے گا اور وہ چھوٹے قد، سرخ رنگ کا ہوگا، اس کے ابرو اور گردن پر دو تل ہوں گے، وہ اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا اس شہر میں پہنچے گا اور وہاں کے عجائبات دیکھے گا۔ جب حضرت امیرمعاویہؓ نے یہ ساری نشانیاں حضرت عبداللہؓ بن قلابہ میں دیکھیں تو فرمایا، واللہ یہ وہی شخص ہے۔(بحوالہ:تذکرۃ الانبیا- تحقیق شاہ عبدالعزیز دہلوی)دوسری حکایت : ایک مرتبہ ملک الموت نے بارگاہ رب العزت میں عرض کی: اے مولائے کریم میں نے کروڑوں لوگوں کی جانیں قبض کی ہیں، مگر دو جانیں ایسی ہیں جنہیں قبض کرتے وقت مجھے بڑا ہی صدمہ اور افسوس ہوا ہے، میں نے تیرے حکم کی تعمیل ضرور کی، مگر نہایت ہی دکھ کے ساتھ اور وہ دو: ایک ماں اور ایک بیٹا تھا۔واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک جہاز غرق ہوگیا تھا اور ایک عورت درد زہ میں اپنے نومولود بچے کے ساتھ ایک تختے کا سہارا لینے میں کامیاب ہوگئی، تختہ دریا میں بہہ رہا تھا اور ماں اور بیٹا اس پر سوار تھے، اے مولا کریم اچانک تیرا حکم ہوا اور میں نے ماں کی جان اس تختہ پر نکال لی، میرے لئے پریشان کن بات یہ تھی کہ ماں مر چکی ہے، اب بچے کا کیا حشر ہوگا؟ بچہ ایک ٹوٹے ہوئے تختے پر سوار ہے اور تختہ ہرآن پانی کی لہروں کے تھپیڑ کھا رہا ہے، جو کسی وقت بھی کسی لہر کی زد میں آکر الٹ سکتا ہے، بچے کے لئے نہ خوراک کا انتظام ہے، نہ کسی نگران کا بندوبست ہے۔دریا کے کنارے دھوبی کپڑے دھورہے تھے، اچانک کسی کی اس بچے پر نظر پڑی تو تختے کو کھینچ کر لائے، بڑے حیران ہوئے کہ ماں مر چکی ہے، بچہ بے یارو مددگار تختہ پر زندہ سلامت موجود ہے۔ وہ لوگ اس بچے کو اپنے سردار کے پاس لے گئے، سردار بے چارہ بے اولاد تھا، سردار خوبصورت بچہ دیکھ کر اس پر اس کا دل آگیا اور سردار نے بچے کو اپنی نگرانی میں لے کر اسے اپنا بیٹا بنا لیا، یہ بچہ آٹھ نو سال کی عمر کا تھا کہ اپنے ساتھی بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا، اتنے میں بادشاہ وقت کی سواری کی آمد کا شور اٹھا، سب لوگ اِدھر اُدھر بھاگ گئے، مگر یہ بچہ سڑک پر اکیلا کھڑا رہا، بادشاہ کی سواری گزر گئی، اس کے پیچھے اس کا عملہ پیدل آرہا تھا۔ ان میں سے ایک سپاہی کو راستے میں سے سرمہ کی ایک پڑیا مل گئی، اتفاق سے اس پیادہ سپاہی کی نظر بہت کمزور تھی اور سرمہ کی اسے بہت ضرورت بھی تھی، لہٰذا اس نے وہ سرمہ بحفاظت اپنے پاس رکھ لیا، آنکھوں میں لگانے سے پہلے اس خیال آیا کہ یہ سرمہ کوئی تکلیف نہ پہنچائے، لگانے سے پہلے کسی دوسرے شخص پر آزمالینا چاہیے، قریب ہی وہ بچہ کھڑا تھا، اس نے اس بچے پر آزمانا چاہا۔ بچے نے سرمہ اپنی آنکھوں میں لگایا، مگر جوں ہی سرمہ اس نے لگایا اسے زمین کی تہہ میں موجود چیزیں بھی نظر آنے لگیں، اس نے دیکھا کہ زمین کے اندر بہت سے خزانے پوشیدہ ہیں، بچہ ہوشیار تھا، اس نے چیخنا چلانا شروع کردیا کہ سرمہ لگانے کی وجہ سے میری آنکھوں میں سخت تکلیف پیدا ہوگئی۔ ( وہ سرمے کی پڑیا گرا کر چلے گئے)۔ بچہ سرمہ کی پڑیا اٹھا کر گھر پہنچا اور خوشی خوشی باپ کو سارا واقعہ سنایا۔ سردار بڑا خوش ہوا، باپ نے کہا کہ ہمارے پاس آدمی بھی ہیں اور گدھے بھی ہیں، تم سرمہ لگاؤ، ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں، جہاں کہیں خزانے پاؤ، ہمیں بتاؤ ہم نکال لیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، بچے کے بتانے پر وہ لوگ خزانے نکالنے لگے اور تھوڑی ہی عرصے میں امیر بن گئے، بچہ جوان ہوا تو اس نے پوشیدہ خزانے نکالنے شروع کئے، ان کے پاس دولت کی فراوانی ہوگئی، زمین کے تمام خزانے اس کے نظروں میں تھے۔ اس نے آہستہ آہستہ بہت سے آدمی اپنے ساتھ ملا لئے، اس کے بعد تمام سرداروں کو اِدھر اُدھر کردیا اور خود سردار بن گیا۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس نے بادشاہ کے ساتھ بھی ٹکر لے لی اور اسے مغلوب کر کے خود بادشاہ بن گیا۔اس بچہ کا نام شداد تھا اور یہ وہی بچہ تھا، جس کی ماں تختے پر ہی مرگئی تھی اور یہ اکیلا دریا کی لہروں کے ساتھ بہہ رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ جب یہ برسر اقتدار آیا تو اس نے حکم دیا کہ ایک ایسا کمال درجے کا شہر آباد کیا جائے، جس کی ایک اینٹ سونے کی ہو اور دوسری چاندی کی ہو، اس میں ایک عالی شان باغ ہو، جس میں دنیا کی ہر چیز میسر ہو، جب وہ شہر ہر لحاظ سے مکمل ہوگیا تو شداد نے ارادہ کیا کہ جا کر اس شہر کا نظارہ کیا جائے۔ چنانچہ وہ شہر کو دیکھنے نکلا، ابھی وہ دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ ملک الموت کو حکم ہوا اور اس نے وہیں اس کی روح قبض کرلی، اسے اتنا موقع بھی نہ دیا کہ اپنے بے مثال باغ کو ایک نظر دیکھ سکتا، ملک الموت نے کہا کہ اے اللہ ! اس شخص کی روح قبض کرتے وقت بھی مجھے نہایت ہی صدمہ پہنچا کہ وہ شخص ہر چیز تیار کر کے اسے دیکھ بھی نہ سکا۔رب تعالیٰ نے فرمایا یہ وہی بچہ ہے جس کی ماں تختہ پر مرگئی تھی اور اس پر تجھے ترس آیا تھا۔ اس بچے نے بڑے ہوکر نافرمانی کی، خدا کے حکم سے بٖغاوت کی اور سرکشی اختیار کی، مگر ہم نے اسے خود ساختہ جنت میں قدم رکھنے کی مہلت بھی نہ دی اور اسے باہر ہی ہلاک کردیا۔ اسی جنت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دنیا میں موجود ہے، مگر انسان کی نظروں سے اوجھل ہے۔سیدنا امیر معاویہؓ کے زمانے میں ایک صحابیؓ کا اونٹ گم ہوگیا تھا، وہ اونٹ کی تلاش میں کہیں اس علاقے میں جا نکلا، تو حق تعالیٰ نے اسے وہ سب کچھ دکھلا دیا تھا۔ وہ صحابی وہاں کی کوئی نشانی بھی ساتھ لایا تھا، اس صحابی نے یہ واقعہ امیر معاویہؓ کے پاس بیان کیا۔ انہوں نے کافی تلاش کرایا، مگر کسی کو وہ جنت نہیں ملی اور اسے حق تعالیٰ نے پوشیدہ کردیا۔ (بحوالہ خزینہ)شداد اور اس کی جنت کا واقعہ کتبِ تفاسیر میں سے تفسیر مظہری ،تفسیر رازی اور روح المعانی میں سورہ الفجر کی تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے، اول الذکر دو تفاسیر میں اسے ذکر کرکے کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا جب کہ موخر الذکر تفسیر میں یہ قصہ ذکر کرکے صاحبِ تفسیر روح المعانی علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:”وخبر شداد المذکورأخوہ فی الضعف بل لم تصح روایت کما ذکرہ الحافظ ابن حجر فھو موضوع کخبر ابن قلابہ”.(روح المعانی:15 / 338)یعنی شداد کا واقعہ من گھڑت ہے۔نیز اول الذکر ہر دو تفاسیر میں بھی اس واقعہ کو کسی مستند روایت سے بیان نہیں کیا گیا۔فقط واللہ اعلم
- علامات اہل السنۃ و الجماعۃ (امام اعظم ابوحنیفہؒ)
امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفی۱۵۰ھ) کی مختلف وصیتیں ہیں جو ان کے مختلف شاگردوں سے منقول ہیں۔ یہ وصیت عقائد کے موضوع سے تعلق رکھتی ہے جو امام صاحب کے نامور شاگرد قاضی القضاہ امام ابویوسف یعقوب بن ابراہیم رحمہ اللہ تعالیٰ (متوفی۱۸۲ھ) کی روایت سے نقل ہوئی ہے۔ اس میں امام صاحب نے اہل السنۃ و الجماعۃ کی بارہ علامات بیان فرمائی ہیں، ا گرچہ مزید غور سے دیکھا جائے تو ہر علامت متعدد مضامین پر مشتمل ہونے کی وجہ سے عقائد کے یہ مضامین بارہ سے زیادہ بن جاتے ہیں؛ مگر امت مسلمہ کے فقہاء کرام امام صاحب کے بیان کے موافق ان علامات کو بارہ کے عدد سے ہی ذکر کیا ہے اور جس قدر مضمون ایک علامت کے تحت امام صاحب کی اس وصیت میں درج ہے اسی طرح ہی اس کو باقی رکھا ہے ۔ اس وصیت کی ایک معروف شرح مصر کے معروف حنفی فقیہ و اصولی علامہ اکمل الدین محمد بن محمد البابرتی حنفی (متوفی ۷۸۶ھ) نے تحریر کی ہے۔ جسے عصرحاضر میں الدکتور محمد صبحی عایدی اور الدکتور حمزہ محمد وسیم البکری نے تحقیق وتخریج اور تعلیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔اور یہ نسخہ دارالفتح، اردن سے شائع ہوا ہے۔ اسی شرح کے آغاز سے قارئین کی سہولت کے لیے وصیت کا متن الگ سے بھی شامل کیاگیا ہے جو مندرجہ ذیل ہیں ۔ ۔
- اسرائیل اور مسلمان فلسطینیوں کے درمیان برسوں سے جاری سب سے زیادہ سنگین کشیدگی
بیت المقدس کے فضائل بہت زیادہ ہیں جس کے بارے میں قرآنی آیات و احادیث تواترہ بے شمار ہیں : اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں اسے مبارک سرزمین قرار دیا ہے ،فرمان باری تعالی ہے ،پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں ۔ الاسراء آیت1 القدس الشریف ہی وہ علاقہ اور شہر ہے جس کو اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ السلام کی زبان سے مقدس کا وصف دیا ، فرمان باری تعالی ہے ،اے میری قوم اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ تعالی نے تمہارے نام لکھ دی ہے۔ سورہ المائدۃ آیت21 بیت المقدس ایسی پاکیزہ سرزمین ہے جہاں پر کانا دجال بھی داخل نہیں ہوسکتا، جیسا کہ حدیث میں رسالت مآب ﷺ نے فرمایا، وہ دجال حرم کعبہ و حرم نبوی اور بیت المقدس کے علاوہ باقی ساری زمین میں گھومےگا۔ مسنداحمد حدیث رقم 19665 ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے 2 / 327 صحیح ابن حبان رقم 7 / 102 ۔سیدنا عیسی علیہ السلام دجال کو اسی علاقے کے قریب قتل کریں گے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، بروایت سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ تعالی عنہ ہے کہ سیدنا عیسی بن مریم علیہ السلام دجال کو باب لد میں قتل کریں گے ۔ صحیح مسلم رقم2937 لد بیت المقدس کے قریب تل ابیب میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں اسرائیل نے ائرپورٹ بنا رکھا ہے۔ مسجد الاقصی وہ جگہ ہے جہاں نبی کریم ﷺ کو معراج کے لئے مسجد حرام سے مسجد اقصی لے جایا گیا۔بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں ہے :سیدنا براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نمازپڑھی ۔۔۔ صحیح بخاری رقم41، صحیح مسلم رقم525 ،معروف و معلوم ہےکہ بیت المقدس ، محبط وحی اورانبیاء کرام کا مسکن اور وطن ہے ۔بیت المقدس ان مساجد میں سے ہے جن کی طرف سفرکرنا جائزہے سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ،کہ تین مساجدکے علاوہ کسی اور کی طرف سفرنہیں کیا جاسکتا ، مسجد حرام ، مسجد نبوی ﷺ ، اورمسجد الاقصی ،صحیح بخاری رقم1132 اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی یہی روایت کی ہے ۔ صحیح مسلم رقم827ایک طویل حدیث کا مفہوم ، جسے سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے راویت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسی مسجد میں سارے انبیاء علیہم السلام کی ایک نماز میں امامت کرائی ، حدیث کے الفاظا کچھ اس طرح ہیں،فحانت الصلاۃ فاممتھم ۔نمازکا وقت آیا تومیں نے سارے انبیاء کرام کی امامت کرائی۔ صحیح مسلم رقم172، لہذا امت کا اجماع ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ زمین کے کسی بھی علاقہ کی طرف عبادت کی غرض سے سفرکرنا جائز نہیں ہے ۔فرمانِ باری تعالی ہے، اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنا دے گا۔ سورہ محمد آیت7 ،بیت المقدس کی فضیلت کو مد نظر رکھتے ہوئے سیدنا فاروق اعظم امیرالمومنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ہمراہ اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے مسجد اقصی کو تب آزاد کروایا تھا جب انہوں نے غلبہ اسلام کیلئے دل و جان سے عملی اقدامات کئے تھے۔درحقیقت تقوی کا تقاضا ہے کہ جس دن دلوں پر قرآن و سنت کا راج ہو گا، زندگی کے تمام شعبے عملی طور پر اس کی گواہی دیں گے تو مسلمان کبھی بھی کمزور اور ذلیل نہیں ہوں گے، انہیں کسی قسم کی پستی اور تنزلی کا سامنا نہیں ہو گا، کیونکہ اللہ تعالی نے سچا وعدہ بتلا دیا ہے القرآن سورہ آل عمران آیت139، اور نہ ہی کمزوری دکھاؤ اور غم بھی نہ کرو، اگر تم مؤمن ہو تو تم ہی غالب رہو گے، زمانہ قدیم میں جس علاقے کو’’شام‘‘ کہا جاتا تھا ، وہ لبنان ،فلسطین، اردن اور شام کی سرزمین پر مشتمل ہے ،احادیث مبارکہ میں جس مبارک علاقے کی فضیلت ذکر فرمائی گئی ہے، اس سرزمین کو یہ اعزازحاصل ہے کہ یہاں کثرت سے انبیاء و رسل کرام کو مبعوث فرمایا گیا،نیزدیگر کئی علاقوں سے انبیاء کرام نے ہجرت فرما کر اس علاقے کو اپنامسکن بنایا، جن میں سے چند اسمائے مبارک ، سیدناابراھیم خلیل اللہ، سیدنا لوط ،سیدنااسحاق ،سیدنایعقوب ،سیدنا موسیٰ کلیم اللہ نے تو اس سرزمین ،بیت المقدس پر اپنی موت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعافرمائی تھی۔صحیح بخاری رقم۱۳۳۹، سیدنا ہارون ، سیدنا یوشع ،سیدنا داؤد،سیدنا سلیمان، سیدنازکریا، ،سیدنا یحییٰ، سیدناعیسیٰ علیہم السلام اجمعین۔ جب یہودیوں نے سیدنا عیسیٰ کے قتل کی سازشیں کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھالیا،اور ان کا دوبارہ نزول اسی سرزمین پر ہوگا۔بیت المقدس کے گرد و نواح کا سارا علاقہ یعنی فلسطین انبیاء رسل علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے فلسطین ہی کی طرف ہجرت فرمائی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔سیدنا داؤود خلیفہ اللہ علیہ السلام نے اسی بابرکت سر زمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔سیدنا سلیمان علیہ السلام اسی بابرکت ماحول میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔سیدنا زکریا علیہ السلام کا مبارک محراب بھی اسی شہر میں ہے۔اولوالعزم رسول سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء و رسل علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں بی بی سیدہ مریم علیہ السلام کے بطن سے رسول سیدنا عیسٰی روح اللہ علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے ۔سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔قیامت کی علامات میں سے ایک سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قران میں بیان کردہ قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی نبی آخر الزمان سیدنا محمد رسول اللہﷺ کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ مدینہ منورہ کے جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔ ہجرت سے پہلے جناب نبی کریم محمد مصطفٰی، احمد مجتبٰی ﷺ معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔سرور کونین محمد رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں تمام انبیاء و رسل علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔وصال سرور کائنات نبی اکرمﷺ کے بعدخلیفہ رسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر کئی مشکلات کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ ﷺ کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔اسلام کے سنہرے دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود امیر المومنین فاروق اعظم سیدنا عمر ابن الخطاب کا خو چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ھجری کو سلطان صلاح الدین ایوبی رح کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی عالم اسلام کے لئے ایک نشانی ہے۔ ہمارے پیارے نبی آخر الزمان سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ کی پیدائش اور بعثت اگرچہ مکہ میں ہوئی لیکن معراج کے موقعہ پر آپﷺ کو اس مقدس سرزمین یعنی مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی سیر کرائی گئی جہاں آپﷺ نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی اور معراج کی ابتداء یہیں بیت المقدس مسجد الاقصیٰ سےہی ہوئی۔سیدنا ابوذررضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا یارسول اللہ! کرۂ ارض پر سب سے پہلی مسجد کونسی تعمیر کی گئی؟آپﷺ نے فرمایا، مسجدالحرام، پھرعرض کیا دوسری کونسی مسجد تعمیر ہوئی؟ آپﷺ نے فرمایا، مسجدالاقصیٰ ،انہوں نے سوال کیا ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟آپﷺ نے فرمایا:چالیس سال۔صحیح بخاری رقم۳۳۶۶،صحیح مسلم رقم ۵۲۰ایک اور حدیث میں ” نبی کریم ﷺ نے فرمایا،اعدد ستا بین یدی الساعۃ موتی ثم فتح بیت المقدس صحیح بخاری رقم۳۱۷۶، قیامت کی چھ نشانیاں شمار کرلو،ایک میری موت اور پھر بیت المقدس کی فتح، سر زمین انبیاء علیہم السلام بیت المقدس و مسجد الاقصی جس کے تقدس اور تبرک کا تذکرہ قرآن کریم میں بار بار آیا ہے ، جس کے مسلمانوں کے بطور وارث ہونے کا تذکرہ قرآن مجید نے کیا ہے ، یہ سرزمین مسلمانوں کے یہاں نہایت متبرک اور مقدس گردانی جاتی ہے؛ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس مقدس اور پاک سرزمین پر ی ہ ودی اپنے قدم جمانے اور اس کو ملک اسرائیل کا دار الحکومت بنانے کے ناپاک عزائم بناچکے ہیں اور منصوبہ پر عمل در آمد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، ساری دنیا میں اس کے خلاف احتجاج جاری ہے ، جلسے جلوس ہورہے ہیں ، مسلمانوں کو اس کے تقدس کو سمجھنا اور اس بیت المقدس کی بازیابی کے لئے ہر طرح کی جدوجہد واجب عین ہے۔ تمام مسلمان چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک اور خطے سے ہو ، وہ کسی بھی جگہ کے رہائشی ہوں، سب مسلمان کسی بھی ایسے اقدام کو تسلیم نہیں کرتے جو مسئلہ قدس اور مسجد اقصی پر منفی اثرات مرتب کرے؛ کیونکہ یہ اسلامی مقدسات ہیں کسی صورت میں ان کی بے حرمتی کی گنجائش نہیں۔ بلکہ بیت المقدس کے متعلق منفی اقدامات مسلمانوں کو اپنے مسلّمہ حقوق مزید پر زور طریقے سے مانگنے پر ابھارتے ہیں، ان کے مطالبے اپنے حقوق لینے، ظالم کو روکنے اور مظلوم کی مدد کے مقررہ اصولوں کے عین مطابق ہیں، ان کے یہ مطالبے سابقہ تمام آسمانی شریعتوں اور عالمی دستور میں بھی موجود ہے۔آج پوری دنیا اس قسم کے کسی بھی اقدام کو ان تمام عالمی قرار دادوں کی خلاف ورزی شمار کرتی ہے جس میں واضح ہے کہ بیت المقدس اسلامی دار الحکومت ہے نیز یہ اسلام اور مسلمانوں کے مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔امت مسلمہ کے مسائل دھواں دھار تقریروں اور زرق برق نعروں کے ذریعے حل نہیں ہوں گے، مذمت، اظہارِ تشویش ، احتجاج اور مظاہروں سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ مسلمانوں نے یہ تمام کام پہلے کتنی بار کر لئے ہیں، ماضی میں تسلسل کے ساتھ ان پر عمل رہا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ایسا رد عمل ہوتا ہے جو ظلم نہیں روک پاتا، ان سے نقصانات کا ازالہ نہیں ہوتا، ایسے اقدامات سے مسلح کاروائیوں اور جارحیت میں کمی نہیں آتی، اللہ تعالی کی جانب حقیقی رجوع کے بغیر کوئی چارہ نہیں، اللہ تعالی کی طرف اخلاص اور گڑگڑا کر رجوع لازمی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے بھر پور کوشش اور محنت بھی ہو۔امت مسلمہ کی مدد اور فتح دل و جان کے ساتھ دینِ الہی کی مدد سے ہو گی، دین الہی کو تسلیم کر کے اس پر عمل پیرا ہوں اور اسے عملی شکل دیں۔ چنانچہ جس دن بھی امت دین الہی پر عمل پیرا ہو جائے گی، اللہ تعالی کے احکامات اور شریعت کی پابند بن جائے گی، پوری امت اپنے تمام تر عملی اقدامات حقیقی دین سے حاصل کرے گی کہ جس دین کی بنیاد پر مسجد اقصی کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے تو تب امت مؤثر علاج اور مثبت نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی،تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے چاہے وہ کسی بھی منصب پر فائز ہیں کہ اقصی ، بیت المقدس، اور فلسطین جیسے بنیادی مسئلے کی حمایت میں صرف اسلام کی بنیاد پر کھڑے ہو جائیں، مؤثر انداز میں متحد ہوں، ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھیں کہ جن کی بدولت ثمرات سامنے آئیں اور اہداف پورے ہو سکیں۔سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ قیامت تک دین پر ثابت قدم اور دشمن پر غالب رہے گا، ان سے اختلاف کرنے والے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، سوائے اس کے کہ انہیں کچھ معاشی تنگدستی کا سامنا کرنا پڑے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے گا اوروہ اسی حالت پر ہوں گے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ بیت المقدس اور اس کے گرد و نواح میں ہوں گے، حدیث صحیح، تخریج از مسند احمد رقم 12494 ۔ طالب دعا اور اپنے رب سے معافی کا طلبگار۔بوسکندر
- برائیوں کے خاتمے کے لئے اسلام کا تصور
ترجمہ اردو : حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔(سورہ آل عمران آیت 164 )
اللہ تعالیٰ کے احسانات قرآن مجید کے رو سے
اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور احسان ان گنت ہیں۔ (سورہ ابراہیم آیت34)
ایمان نصیب ہونا اللہ کے احسان کا نتیجہ ہے۔ (سورہ الحجرات آیت16)
رسالت مآب ﷺ کی بعثت اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (سورہ آل عمران آیت164)
کمزوروں کو خلافت دینا اللہ کا احسان ہے۔ (سورہ القصص آیت5)
اللہ جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ (سورہ ابراہیم :آیت11)
تفسیر و مفہوم آیت 164 سورہ آل عمران
علامہ فخر الدین رازی رحمہ اللہ تعالٰی نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو عربوں میں پیدا کیا، یہ عربوں کے لیے بڑے فخر و شرف کی بات تھی، اس لئے کہ ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ السلام پر فخر کرنا تو یہود، نصاری اور سارے عرب میں مشترک تھا، اور یہود و نصاری، سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلوۃ السلام، سیدنا عیسیٰ ابن مریم روح اللہ علیہ الصلوۃ السلام اور تورات و انجیل پر فخر کیا کرتے تھے۔ عربوں کے پاس ان کے مقابلہ میں فخر کی کوئی بات موجود نہ تھی، جب اللہ نے نبی کریم ﷺ کو مبعوث کیا، اور ان پر قرآن نازل فرمایا، تو یہ عربوں کے لیے بڑے شرف کی بات تھی، جس میں دوسری قومیں شریک نہ تھیں۔
محسن انسانیت ﷺ
اس آیت میں اللہ تعالٰی نے اس احسان عظیم کی طرف مومنین کو متوجہ کیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے دونوں جہاں کی لذتوں کو حاصل کیا ، حضور رسالت مآبﷺ کی بعثت سے پہلے مطلع عالم پر جہالت وجمود کے تاریک بادل چھا رہے تھے ، دنیا اخلاقی برائیوں کی انتہا کو پہنچ چکی تھی ، قتل وغارت گری، بے حیائی، زناکاری اور سرکشی کا بازار انفرادی اور معاشرتی طور پر گرم تھا ، ایران سے لے کر روم تک انسانیت کا کہیں نام ونشان نہ تھا ، ہندوستان سے لیکر مغرب تک طاقتور اپنے زیر دست رعایا کا خون چوس رہے تھے اور مظلوم نہایت عاجزی کے ساتھ زندگی کے دن گزار رہے تھے ،علم کا یہ حال تھا کہ سارے عرب میں چند ہی لوگ تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، جزیرہ العرب تقریبا ہی جہالت کے گہرے تالابوں میں غرق تھا ، ان حالات میں دنیا کا ہر ذرہ ایک آفتاب ہدایت کا منتظر تھا ، چنانچہ وہ نبی آخر الزمانﷺ فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا اور اندھیری ظلمات، درخشندہ تابندگی میں بدل گئی ، اخلاق و اصلاح کا ارتقائی عمل شروع ہوا، اور ایک دفعہ پھر انسانیت کو معراج کمال پر پہنچا دیا گیا ، ساری دنیا حکمت ومعرفت کے نور سے روشن ہوگئی اور قلم کا پرچم نہایت شان سے لہرانے لگا ، یہ کیوں ہوا ؟ اس لئے جو رسول آیا ‘ اس نے اللہ کی آیات کے تفصیل و توضیح کی ‘ تزکیہ وتطہیر کا عمل شروع ہوا ، جہاں پراگندہ دماغوں کو الہامی تعلیمات سے آراستہ کیا وہاں دلوں کی دنیا کو بھی جلوؤں سے منور کردیا ۔ سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی سے کہا : اے بادشاہ ! ہم لوگ جاہل تھے ‘ بتوں کی عبادت کرتے تھے ‘ مردار کھاتے تھے ‘ بےحیائی کے کام کرتے تھے ‘ رشتے توڑتے تھے ‘ ہمسایوں سے بدسلوکی کرتے تھے ‘ ہم میں سے قوی شخص ضعیف کا حق کھا جاتا تھا ‘ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ایک عظیم رسول بھیجا جن کے نسب کو ‘ ان کے صدق کو ‘ ان کی امانت داری کو اور ان کی پاک دامنی کو ہم اچھی طرح جانتے تھے ‘ انہوں نے ہم کو دعوت دی کہ ہم اللہ وحد ہ لاشریک کی عبادت کریں ‘ ہم اور ہمارے آباء و اجداد جن پتھروں اور بتوں کی عبادت کرتے تھے اس کو ترک کردیں انہوں نے ہم کو تعلیم دی کہ ہم سچ بولیں ‘ امانت ادا کریں ‘ رشتے جوڑیں ‘ ہمسایوں سے اچھا سلوک کریں ‘ حرام کاموں اور خوں ریزی کو چھوڑ دیں ‘ انہوں نے ہمیں بےحیائی کے کاموں ‘ جھوٹ بولنے ‘ یتیم کا مال کھانے اور پاک دامن عورت پر تہمت لگانے سے منع کیا۔ انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں ‘ نماز پڑھیں ‘ زکوۃ ادا کریں اور روزے رکھیں۔ الحدیث (تخریج از مسند احمد بن حنبل ج ١ ص ٢٠٢)
تفسیر عثمانی۔آیت164 ۔سورہ آل عمران یعنی انہی کی جنس اور قوم کا ایک آدمی رسول بنا کر بھیجا جس کے پاس بیٹھنا بات چیت کرنا، زبان سمجھنا اور ہر قسم کے انوار و برکات کا استفادہ کرنا آسان ہے، اس کے احوال، اخلاق سوانح زندگی، امانت و دیانت خدا ترسی اور پاکبازی سے وہ خوب طرح واقف ہیں۔ اپنی ہی قوم اور کنبے کے آدمی سےجب معجزات ظاہر ہوتے دیکھتےہیں تو یقین لانے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے۔ فرض کرو کوئی جن یا فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا تو معجزات دیکھ کر یہ خیال کر لینا ممکن تھا کہ چونکہ جنس بشر سے جداگانہ مخلوق ہے شاید یہ خوارق اس کی خاص صورت نوعیہ اور طبیعت ملکیہ و جنیہ کا نتیجہ ہوں، ہمارا اس سے عاجز رہ جانا دلیل نبوت نہیں بن سکتا بہرحال مومنین کو خدا کا احسان ماننا چاہئے کہ اس نے ایسا رسول بھیجا جس سے بےتکلف فیض حاصل کر سکتے ہیں اور وہ باوجود معزز ترین اور بلند ترین منصب پر فائز ہونے کے ان ہی کے مجمع میں نہایت نرم خوئی اور ملاطفت کے ساتھ گھلا ملا رہتا ہے ﷺ۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کی چار شانیں بیان کی گئیں
تلاوت آیات
اللہ کی آیات پڑھ کر سنانا جن کے ظاہری معنی وہ لوگ اہل زبان ہونے کی وجہ سے سمجھ لیتےتھے اور اس پر عمل کرتے تھے
تزکیہ نفوس
نفسانی آلائشوں اور تمام مراتب شرک و معصیت سے ان کو پاک کرنا اور دلوں کو نچوڑ کر صاف ستھرا اور چمکدار بنانا اور یہ چیز آیات اللہ کے عام مضامین پر عمل کرنے، حضور کی صحبت اور قلبی توجہ و تصرف سے باذن اللہ حاصل ہوتی تھی
تعلیم کتاب
کتاب اللہ کی مراد و مقصد بتلانا اس کی ضرورت خاص خاص مواقع میں پیش آتی تھی ۔ مثلًا ایک لفظ کے کچھ معنی عام محاورہ کے لحاظ سے سمجھ کر صحابہ کو کوئی اشکال پیش آیا، اس وقت آپ کتاب اللہ کی اصلی مراد جو قرائن مقام سے متعین ہوتی تھی بیان فرما کر شبہات کا ازالہ فرما دیتے تھے، جیسے {جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں شرک نہیں ملایا انہیں کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔} (الانعام۔۸۲) الخ اور دوسرے مقامات میں ہوا۔
تعلیم حکمت
حکمت کی گہری باتیں سکھلانا اور قرآن کریم کے اسرار و رموز اور شریعت کی دقیق و عمیق علل پر مطلع کرنا خواہ تصریح یا اشارہ ہو ۔آپ ﷺ نے اللہ تعالٰی کی توفیق و اعانت سے علم و عمل کے ان اعلیٰ مراتب پر اس درماندہ قوم کو فائز کیا جو صدیوں سے انتہائی جہل و حیرت اور صریح گمراہی میں غرق تھی۔ آپ کی چند روزہ تعلیم و صحبت سے وہ ساری دنیا کے لئے عظیم ہادی و معلم بن گئے ۔ لہٰذا انہیں چاہئے کہ اس نعمت عظیم کی قدر پہچانیں۔ اور کبھی بھولے سے ایسی حرکت نہ کریں جس سے آپ کا دل افسردہ اور رنجیدہ ہو۔
اسلام میں برائیوں کی بتدریج خاتمے کی حکمت
ہزاروں انسان ایسے ہیں جن کے رگ و ریشے میں بری عادت و اخلاق سرایت کرکے ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھیں تو آپ کو قرآنِ کریم کے23 سال کے عرصے میں بتدریج نزول کی ضرورت کااحساس ہوگا۔قرآن کریم نے پہلے ان کی روحوں کو بری عادات واخلاق کی نجاست سے پاک کیا اور پھر ان کے دلوں کو اعلی اخلاق سے مزین کیا اور مختصر سے عرصے میں کامیابی سے ہزاروں انسان کی اصلاح کی۔ہمارے خیال میں تئیس سال میں قرآن کریم کے نزول کو تیز رفتار نزول سمجھا جانا چاہئے ۔ہرشخص جانتاہے کہ شراب نوشی کے سبب ہرسال سینکڑوں گھر اجڑتے ہیں۔تئیس سال انتہائی مختصرمدت ہے،لہٰذا۔ قرآن کریم نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے، وہ دراصل ہمارے پیارے نبی آخر الزماں ﷺکا معجزہ ہے۔رسول اللہﷺنے تئیس سال کی مدت میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ انسانیت ہزاروں سال میں حاصل کرسکی اورنہ ہی کبھی حاصل کرسکے گی۔قرآن کریم نے جہاں لوگوں کی سینکڑوں بری عادات واخلاق کا ازالہ کیا، وہیں انہیں کوئی تکلیف یا ایذاء پہنچائے بغیر اعلیٰ اوصاف و اخلاق سے مزین بھی کیا۔قرآن نے مختلف مراحل میں بہت سے مسائل کاعملی حل پیش کیا،جن میں سے بعض مراحل کے لئے آج تئیس سال سے کئی گنا زیادہ عرصہ درکارہے۔اس دورکے انسان کے لئے اوامر و نواہی کی ایک بڑی تعداد کو قابل قبول بنانے نیز برائیوں کے بتدریج خاتمے اورشخصیت کی بتدریج تعمیر کے لئے تئیس سال کی یہ مدت ناگزیرتھی،مثلاًاس مدت کے دوران شراب کو تین چار مراحل میں حرام قرار دیا گیا۔بچیوں کو زندہ درگورکرنے کی ممانعت دو مراحل میں ہوئی۔اس دورکے انسان میں اجتماعی شعور کوبیدار کر کے قبائلی زندگی کی تنظیم نو اور وحدت کا بندوبست کیا گیا، دوسرے لفظوں میں ان میں معاشرہ تشکیل دینے کی صلاحیت پیدا کی گئی۔یہ اہداف بری عادات و اخلاق رزیلہ کا خاتمہ کر کے اور انتہائی مشکل اقدامات اٹھاکر ان کی جگہ اعلیٰ اخلاق پیدا کرکے حاصل کئے گئے۔ درحقیقت ان کاموں کے لئے اس سے کہیں زیادہ مدت درکار تھی جو بلندی تک اٹھانے کے مترادف ہوتا۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کریم کاتئیس سال کے دوران بتدریج نازل ہوناانسانی طبیعت اورفطرت کے عین مطابق ہے۔چونکہ انسان کوکائنات سے جدا کیاجاسکتا ہے اورنہ ہی کائنات میں ہونے والے ارتقا کو نظراندازکرکے انسان سے برتاؤ کیاجاسکتاہے، اس لیے ہمیں اس کے ساتھ قوانین فطرت کے مطابق برتاؤ کرنا چاہیے۔جس طرح کائنات میں بتدریج افزائش ہوتاہے اور قوانین فطرت بھی بتدریج کام کرتے ہیں،اسی طرح انسانی افزائش ،ارتقا اورتکمیل پذیری بھی بتدریج ہوتی ہے۔ترقی کی بنیاد اور اعلیٰ اصولوں کے مجموعے کی حیثیت رکھنے والے قرآن کے تئیس سال کے عرصے میں بتدریج نازل ہونے کے پیچھے بھی یہی حکمت کار فرما تھی۔نزول وحی کے دورانیے کاتئیس سال پرمحیط ہونابھی حکمت پر مبنی تھا۔
دین پر مکمل عمل کرنے کے لئے اسلامی نظام حکومت ضروری ہے
حضور سرکار دوعالم ﷺ نہ صرف دین سکھانے بلکہ دین کو دنیا میں قائم اور تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ارشاد الہی سورہ فتح اور التوبہ (لیظھرہ عَلی الدِّینِ کُلِّہ) سے اس کی دلیل ہے۔یہ کہنا صحیح ہےکہ بغیر حکومت کے دین پر مکمل طور پر عمل کرنا ممکن نہیں۔ بلکہ بیشتر متبحر علما کے مطابق ایک نہایت ہی اہم بات یہ ہے کہ شرعی حکومت کے بغیر شریعت پر پورا عمل نہیں ہو سکتا۔کیونکہ اسلام ایک جامع طریقہ حیات ہے اس کے بہت سے شعبہ جات ہیں ان میں سے ایک شعبہ سیاست اور اسلامی نظام حکومت کے قیام بھی ہے ، اور اس سے اسلام کے بہت سے احکام وابستہ ہیں جن پر اس کے بغیر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔لہٰذا اگر اسلامی حکومت کا قیام ہوجائے اور اس کیلئے تن، من اور دھن سے جدو جہد کی جائے تو یہ قابل ستائش ہے۔جہاں تک آیت کریمہ ”لیظہرہ علی الدین کلہ“ کا تعلق ہے تو اس میں دلیل و حجت کے اعتبار سے اسلام کا غلبہ مراد ہے اور یہ ہر زمانے میں رہا ہے ؛ کیونکہ اسلام حد درجہ فطرت سے ہم آہنگ اور مصلحتوں اور حکمتوں کے موافق ہے ۔ سورہ الفتح آیت 28 میں ارشاد الٰہی ہے{ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ } [وہی ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق دے کر] اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد عربی ﷺ کو قرآن حکیم دے کر بھیجا ہے جو نوع انسانی کے لیے ہدایت کاملہ ہے { لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } [تاکہ وہ غالب کر دے اسے کل کے کل نظام زندگی پر]۔ گویا قبل ازیں اس سورت کی آیت 2 اور آیت 20 میں جس سیدھے راستے صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا کا ذکر ہے وہ راستہ ”اظہارِ دین حق“ کی منزل کی طرف جاتا ہے اور اسی ہدف کو حاصل کرنے کا حکم سورہ الشوریٰ کی آیت 13 میں [اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ] کے الفاظ میں ہوا کہ تم دین کو قائم کرو ! پھر سورہ الشوریٰ کی آیت 21 میں جھوٹے معبودوں کے باطل ہونے کی جو دلیل دی گئی ہے اور ان کے مقابلے میں معبود حقیقی کی جو شان بیان ہوئی ہے وہ بھی ”الدِّیْن“ نظامِ زندگی کے حوالے سے ہے۔ ملاحظہ ہوں متعلقہ آیت کا مفہوم کہ [ کیا ان کے لئے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں کچھ ایسا طے کردیا ہو جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا ؟]یعنی اللہ کی شان تو یہ ہے کہ اس نے انسانوں کو دین حق دیا ہے۔ ایک مکمل ضابطہ حیات اور عادلانہ نظام زندگی دیا ہے ، تو کیا اس کا کوئی شریک بھی ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس نے بھی اپنے ماننے والوں کو کوئی نظام زندگی دیا ہے ؟ بہر حال اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی ”اظہارِدین حق“ بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے الہدیٰ اور دین حق دے کر اپنے رسول ﷺ کو بھیجا ہی اس لئے ہے کہ وہ اس ”الدِّین“ کو پورے نظام زندگی پر غالب کر دے۔ { وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا } [اور کافی ہے اللہ مددگار کے طور پر۔] عام طور پر لفظ شَھِید کا ترجمہ ”گواہ“ کیا جاتا ہے ‘ لیکن یہاں پر خصوصی طور پر شھید کا ترجمہ ”مددگار“ ہوگا۔ سورة البقرۃ کی آیت 23 میں بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں آیا ہے ، جہاں قرآن جیسی ایک سورت بنانے کا چیلنج دینے کے بعد فرمایا گیا { وَادْعُوْا شُہَدَآ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ } کہ[ بلا لو اس کام کے لئے اپنے تمام مدد گاروں کو اللہ کے سوا]
سورہ الصف آیت 9 { ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } [وہی ہے اللہ جس نے بھیجا اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظام زندگی پر۔]حضور پرنور ﷺ کے مقصد بعثت کے حوالے سے یہ آیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے اور اسی اہمیت کے باعث قرآن مجید میں اسے تین بار اس مقام کے علاوہ سورہ التوبہ ‘ آیت 33 اور سورہ الفتح ‘ آیت 28 کے طور پر دہرایا گیا ہے۔ تمام انبیاء و رسل کے لئے قرآن مجید میں بشیر ‘ نذیر ‘ مذکر ‘ شاہد ‘ معلم وغیرہ الفاظ مشترک استعمال ہوئے ہیں ‘ لیکن اس آیت کا مضمون اور اسلوب صرف محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے خاص ہے۔ الہدیٰ سے مراد یہاں وہ ہدایت نامہ قرآن ہے جو آپ ﷺ پر کامل ہوگیا ‘ جبکہ آپ سے پہلے تمام انبیاء کو اپنے اپنے دور میں جو میزان شریعت عطا ہوتی رہی تھی حضور ﷺ کی بعثت میں وہ کامل ہو کر دین الحق یعنی سچے اور عادلانہ نظام زندگی کی شکل اختیار کرگئی۔ چنانچہ آپ ﷺ کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ کے نظام عدل و انصاف کو دنیا کے تمام نظاموں پر غالب کردیا جائے۔ یہ تھا حضور ﷺ کی بعثت کا مشن جس کےتکمیل کے لئے ہمارے سپرد فرما گئے تھے۔ لیکن ہم نے تو اس مشن کو کبھی اپنایا ہی نہیں۔ ہمارا مشن تو یہ ہے کہ حلال و حرام طریقے سے جیسے بھی ہو ‘ دولت اکٹھی کرو ‘ پھر اسی دولت سے صدقہ و قربانی دو ‘ حج کرو اور رمضان میں ہر سال عمرے کے لئے چلے جایا کرو۔ ہمارا سارا زور رسم و رواج پر ہے اور دین اگر دنیا میں پامال ہے تو ہوتا رہے ‘ ہماری بلا سے ! تصور کریں ‘ اگر آج صرف ایک سال میں حج پر اکٹھے ہونے والے افراد ہی سروں پر کفن باندھ کر غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے میدان میں کود پڑیں تو دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ { وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ۔ } [اور خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو !] ظاہر ہے مشرکین کب چاہیں گے کہ دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو ‘ نظام توحید کا نفاذ ہو اور اللہ کی حاکمیت قائم ہوجائے۔ یہاں پر مُشْرِکُوْنَ کا لفظ خاص طور پر لائق توجہ ہے۔ اس سے مراد صرف وہ مشرکین ہی نہیں ہیں جو بتوں اور دیوی دیوتائوں کو پوجتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے حضور ان کی سفارش کردیں گے ، بلکہ سب سے بڑے مشرک تو وہ ہیں جو دنیا میں خدائی کے دعوے دار بنے بیٹھے ہیں ، جو نمرود اور فرعون کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور جن کا دعویٰ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ کے مالک ہم ہیں۔ فرعون بھی تو یہی کہتا تھا : سورہ الزخرف ،آیت 51 [ کہ دیکھو ! کیا یہ مصر کی حکومت میری نہیں ہے ؟ اور کیا یہ پورا نہری نظام میرے تابع نہیں ہے ؟ ] تو فرعون کے اس دعوے اور عوام کی حاکمیت کے نعرے میں کیا فرق رہ گیا ؟ صرف یہی کہ وہاں اقتدار کا دعویٰ کرنے والا ایک فرد تھا اور یہاں پوری قوم حاکمیت کی دعوے دار ہے۔ اب ظاہر ہے اگر اس ماحول میں آپ اللہ کی حاکمیت کا نعرہ لگائیں گے اور اللہ کے نظام عدل کے قیام کے مشن کو لے کر آگے بڑھنا چاہیں گے تو اپنی حاکمیت کے یہ دعوے دار خم ٹھونک کر آپ کے مقابلے میں آ کھڑے ہوں گے۔ اس کے بعد بھی اگر آپ اپنے موقف پر قائم رہیں گے تو ان سے آپ کا تصادم ناگزیر ہوجائے گا اور آپ کو مال و جان کی قربانی کی صورت میں اپنے اس موقف کی قیمت چکانا پڑے گی۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالٰی تفسیر عثمانی میں لکھتے ہیں کہ [اسلام کا غلبہ باقی ادیان پر معقولیت اور حجت و دلیل کے اعتبار سے ہے ، یہ تو ہر زمانہ میں بحمداللہ نمایاں طور پر حاصل رہا ہے۔ باقی حکومت و سلطنت کے اعتبار سے وہ اس وقت حاصل ہوا ہے اور ہو گا جبکہ مسلمان اصول اسلام کے پوری طرح پابند اور ایمان و تقویٰ کی راہوں میں مضبوط اور جہاد فی سبیل اللہ میں ثابت قدم تھے یا آئندہ ہوں گے اور دین حق کا ایسا غلبہ کہ باطل ادیان کو مغلوب کر کے بالکل صفحہ ہستی سے محو کر دے۔یہ نزول مسیحؑ کے بعد قریب قیامت کے ہونے والا ہے۔] وللہ اعلم طالب دعا،بو سکندر
- اپنی کم تنخواہ پر غم نہ کریں ہو سکتا ہے
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ : إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ مَلَكًا بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ فَيُكْتَبُ عَمَلُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ فَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُ النَّارَ .
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا اور آپ سچوں کے سچے تھے کہ انسان کی پیدائش اس کی ماں کے پیٹ میں پہلے چالیس دن تک پوری کی جاتی ہے۔ پھر وہ اتنے ہی دنوں تک علقة یعنی غلیظ اور جامد خون کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے لیے مضغة ( گوشت کا لوتھڑا ) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ پھر ( چوتھے چلہ میں ) اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے۔ پس وہ فرشتہ اس کے عمل، اس کی مدت زندگی، روزی اور یہ کہ وہ نیک ہے یا بد، کو لکھ لیتا ہے۔ اس کے بعد اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔ پس انسان ( زندگی بھر ) دوزخیوں کے کام کرتا رہتا ہے۔ اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آتی ہے اور وہ جنتیوں کے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں چلا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک شخص جنتیوں کے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر سامنے آتی ہے اور وہ دوزخیوں کے کام شروع کر دیتا ہے اور وہ دوزخ میں چلا جاتا ہے۔ صحیح بخاری رقم3332طالب دعاء : بوسکندر
- اسلام کا اقرار کرنے والے جنتی ہیں۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالٰی عنہ
فالمسلمون سنيهم وبدعيهم متفقون على وجوب الإيمان بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر، ومتفقون على وجوب الصلاة والزكاة والصيام والحج، ومتفقون على أن من أطاع الله ورسوله فإنه يدخل الجنة، ولا يعذب، وعلى أن من لم يؤمن بأن محمدًا رسول الله ﷺ إليه فهو كافر، وأمثال هذه الأمور التي هي أصول الدين وقواعد الإيمان التي اتفق عليها المنتسبون إلى الإسلام والإيمان، فتنازعهم بعد هذا في بعض أحكام الوعيد أو بعض معاني بعض الأسماء أمر خفيف بالنسبة إلى ما اتفقوا عليه.
مجموع الفتاوى ابن تيمية ٧/٣٥٧.تمام سنی اور بدعتی مسلمان متفق ہیں کہ اللہ تعالٰی پر ایمان واجب ہے،رسولوں،فرشتوں،کتابوں اور آخرت پر بھی ایمان فرض ہے.. دین کی ان بنیادوں پر اتفاق کے بعد امت میں بقیہ تمام اختلافات کی نوعیت قدرے خفیف سی رہ جاتی ہے.(شیخ الاسلام ابن تیمیہ،مجموع الفتاوی،٧/٣٥٧).
عَامَّةَ أَهْلِ الصَّلَاةِ مُؤْمِنُونَ بِاَللَّهِ وَرَسُولِهِ؛ وَإِنْ اخْتَلَفَتْ اعْتِقَادَاتُهُمْ فِي مَعْبُودِهِمْ وَصِفَاتِهِ؛ إلَّا مَنْ كَانَ مُنَافِقًا يُظْهِرُ الْإِيمَانَ بِلِسَانِهِ وَيُبْطِنُ الْكُفْرَ بِالرَّسُولِ؛ فَهَذَا لَيْسَ بِمُؤْمِنِ. وَكُلُّ مَنْ أَظْهَرَ الْإِسْلَامَ وَلَمْ يَكُنْ مُنَافِقًا فَهُوَ مُؤْمِنٌ. لَهُ مِنْ الْإِيمَانِ بِحَسَبِ مَا أُوتِيَهُ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ مِمَّنْ يَخْرُجُ مِنْ النَّارِ وَلَوْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ الْإِيمَانِ وَيَدْخُلُ فِي هَذَا جَمِيعُ الْمُتَنَازِعِينَ فِي الصِّفَاتِ وَالْقَدَرِ عَلَى اخْتِلَافِ عَقَائِدِهِمْ؛ وَلَوْ كَانَ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إلَّا مَنْ يَعْرِفُ اللَّهَ كَمَا يَعْرِفُهُ نَبِيُّهُ ﷺ لَمْ تَدْخُلْ أُمَّتُهُ الْجَنَّةَ؛ فَإِنَّهُمْ أَوْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ هَذِهِ الْمَعْرِفَةَ؛ بَلْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَتَكُونُ مَنَازِلُهُمْ مُتَفَاضِلَةً بِحَسَبِ إيمَانِهِمْ وَمَعْرِفَتِهِمْ.
مجموع الفتاوى ابن تيمية ٥/١٣٥.وہ تمام لوگ اور فرقے مومن مسلمان ہیں جنہوں نے اسلام کا اقرار کیا ہے اور بالآخر جنّتی بھی ہیں.. اگرچہ اللہ تعالٰی اور اسکے اسماء و صفات تک میں اختلافات واقع ہو جائیں.اور اگر جنت میں جانے کے لئے معرفتِ الٰہی کی ایسی کڑی شرط لگائیں جیسی معرفت رسول اللہ ﷺ کو حاصل تھی تو امت میں کوئی بھی جنت میں نا جا سکے.. کیونکہ رسول اللہ ﷺ جیسا ایمان کسی کا بھی نہیں ہے.پس اسماء و صفات اور قضاء و قدر تک میں اختلاف کرنے والے بھی مومن ہیں اور جنت میں جائیں گے اگرچہ درجات سب کے الگ الگ ہیں اور ہوں گے.(شیخ الاسلام ابن تیمیہ،مجموع الفتاوى،٥/١٣٤)
رأيت للأشعري كلمة أعجبتني وهي ثابتة رواها البيهقي سمعت أبا حازم العبدوي سمعت زاهر بن أحمد السرخسي يقول : لما قرب حضور أجل أبي الحسن الأشعري في داري ببغداد دعاني فأتيته فقال : اشهد علي أني لا أكفر أحدا من أهل القبلة لأن الكل يشيرون إلى معبود واحد وإنما هذا كله اختلاف العبارات . قلت : وبنحو هذا أدين وكذا كان شيخنا ابن تيمية في أواخر أيامه يقول : أنا لا أكفر أحدا من الأمة ويقول قال النبي صلى الله عليه وسلم : ” لا يحافظ عى الوضوء إلا مؤمن ” فمن لازم الصلوات بوضوء فهو مسلم (سیر اعلام النبلاء 15/88)
میں نے امام اشعری رحمہ اللہ تعالٰی عنہ کی ایک ایسی بات دیکھی ہے جو مجھے بہت پسند آئی ہے اور وہ ان سے ثابت ہے۔امام بیہقی رحمہ اللہ تعالٰی عنہ ،نے امام ابو حازم عبدوی رحمہ اللہ تعالٰی عنہ سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام زاہر بن احمد سرخسی رحمہ اللہ تعالٰی عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ جب بغداد میں میرے گھر میں الشیخ امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ تعالٰی عنہ کی وفات ک وقت ا قریب آیا تو انھوں نے مجھے بلایا۔ میں ان کے پاس گیا تو انھوں نے کہا کہ تم مجھ پر گواہ بن جاؤ کہ میں اہل قبلہ (یعنی مسلمانوں کے تمام فرقوں) میں سے کسی کو کافر نہیں کہتا، کیونکہ سب ایک ہی معبود کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان کے درمیان یہ سارا اختلاف، عبارات والفاظ کا اختلاف ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ میرا مذہب بھی یہی ہے اور اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالٰی عنہ اپنے آخری ایام میں یہ کہا کرتے تھے کہ میں امت میں سے کسی کی بھی تکفیر نہیں کرتا۔ وہ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ وضو کی پابندی صرف مومن ہی کرتا ہے۔ اس لئے جو شخص بھی وضو کر کے پابندی سے نمازیں ادا کرتا ہے، وہ مسلمان ہے (چاہے اس کا کسی بھی فرقے سے تعلق ہو)۔
- صلہ رحمی قرآن مجید اور احادیث نبوی کے روشنی میں
قطع رحمی کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ اس کا ارتکاب کرنے والے کو لعنت و تباہی اور ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے چنانچہ قران مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ، اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تمہیں حکومت و اقتدار حاصل ہو جاۓ تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو ، یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھن لی ہے ۔ (سورة محمد 22 ۔ 23 )
نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے ، صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں برابری کر لے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتہ دار اس سے قطع تعلقی کریں اور وہ ان سے اپنا رشتہ جوڑ رکھے ۔ ( صحیح بخاری ) ۔
نبی اکرم ﷺکاارشاد گرامی ہے ، حرص و لالچ سے بچیں ، اس نے پہلے لوگوں کو ہلاک کرکے رکھ دیا تھا ۔ اسی حرص و لالچ کے جذبے نے انھیں بخل کا حکم دیا تو وہ بخل کرنے لگے ، اس نے انھیں ظلم و زیادتی کا حکم دیا تو یہ ظلم و ستم ڈھانے لگے ۔ اس نے انہیں قطع رحمی کا حکم دیا تو وہ قطع رحمی کرنے لگے ۔ ( متفق علیہ )
قرابت داروں سے تعلقات جوڑنا اور صلہ رحمی کرنا ایمان کی نشانی ہے ۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے ، جو شخص اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے ۔ ( متفق علیہ )اللہ تعالی نے قطع رحمی پر قریش کی مذمت فرمائی ہے ۔چنانچہ ارشاد الہی ہے ، یہ تو کسی مسلمان کے حق میں کسی رشتہ داری یا عہد کا مطلق لحاظ نہیں کرتے ۔ ( التوبہ : 10)
صلہ رحمی قائم کرنے کے لۓ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی و حسن سلوک کریں اگرچہ وہ وفات ہی کیوں پا چکے ہوں۔ایک آدمی نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا ، اے اللہ کے رسول ﷺ والدین کے فوت ہو جانے کے بعد بھی میرے لیے کوئی ایسا کام ہے کہ میں ان کے ساتھ حسن سلوک کر سکوں ؟ نبی اکرم ﷺنے فرمایا ، ہاں ، ان کے لئے رحمت کی دعائیں مانگو ،ان کے لئے اللہ سے مغفرت و بخشش کی دعا کرو اور ان کے بعد ان کے عہد و پیمان کو پورا کرو ، اور اپنے ان قرابت داروں سے رشتہ قائم رکھو جن کا تعلق تم سے صرف والدین کی طرف سے ہی ہے ۔ ( ابوداؤد )
ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا ، میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ مجھ سے قطع تعلقی کا رویہ اپناتے ہیں ، میں ان پر نیکی و احسان کرنے کی راہ اپناتا ہوں ، مگر وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں ۔ میں حلم و بردباری سے کام لیتا ہوں مگر وہ مجھ پر زیادتی کرتے ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ، اگر تو ایسے ہی ہے جیسے تو بتا رہا ہے تو انھیں انگاروں پر لوٹا رہا ہے اور جب تک تم اپنی اسی روش پر قائم رہو گے ۔ اللہ کی طرف سے تمھارے لۓ ایک مدد گار مقرر رہے گا ۔ ( صحیح مسلم ) ۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ، اللہ تعالی نے رحم سے کہا تھا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جو تیرے ساتھ تعلق قائم رکھےگا میں بھی اس سے تعلق بحال رکھوں گا اور جو تیرے ساتھ قطع رحمی کرے گا میں بھی اس سے قطع تعلقی کر لوں گا ۔ اس پر رحم نے کہا تھا ، ہاں میں اس پر راضی ہو ں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا تھا ، کہ میں تجھے یہ عہد دیتا ہوں کہ رحم عرش الہی کے ساتھ لٹک رہا ہے اور کہتا ہے ، جس نے مجھے جوڑا میں اس سے رشتہ قائم رکھوں گا اور جس نے مجھے توڑا میں اس سے ناطہ توڑ لوں گا ( متفق علیہ )
یتیموں مسکینوں پر خرچ کرنے سے بھی رشتہ داروں کا حق زیادہ ہے اور وہ ان پر مقدم ہیں چنانچہ ارشاد الہی ہے ، لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ۔ آپ( ان سے ) کہہ دیں کہ بھلائی ( مال ) سے جو بھی تم خرچ کرو وہ اپنے والدین ، رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لۓ ہے ۔( البقرہ : 215)
صدقہ سب سے پہلے جسے دیا جائیگا وہ ایسے قرابت دار ہیں جو مسکین بھی ہوں ، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا باغ صدقہ کیا تو نبیﷺ نے فرمایا ، میں سمجھتا ہوں کہ اس باغ کو تم اپنے قرابت داروں پر صدقہ کردو ۔ تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ اپنے رشتہ داروں اور چچا زادوں پر صدقہ کر دیا ۔ ( متفق علیہ )
امام شعبی رح فرماتے ہیں ، میرے قرابت داروں میں سے جو بھی فوت ہو اور اس پر کسی کا کوئی قرض ہو ، اس کا قرض میں ادا کروں گا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں ، میں اپنے بھائیوں میں سے کسی بھائی کے ساتھ صلہ رحمی کروں ، یہ چیز مجھے بیس درھم صدقہ کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے ۔قرابت داروں پر خرچ کرنے والا شخص سخی اور صاحب جود و کرم ہے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا تھا وہ معروف ہے لیکن جب انھوں نے معذرت کی تو انہوں نے ان کی معذرت کو قبول فرمایا اور انھیں معاف فرما دیا ، انہیں کوئی ڈانٹ نہیں پلائی بلکہ ان کے لۓ دعاء فرمائی اور اللہ سے ان کے لۓ مغفرت و بخشش طلب فرمائی جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ ( سیدنا یوسف علیہ السلام نے) جواب دیا : آج تم پر کوئی ملامت نہیں ، اللہ تمھیں بخشے وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے ۔ ( یوسف : 92)
ہرقل نے ابو سفیان سے پوچھا تھا کہ وہ نبی اکرمﷺ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے ؟ ابوسفیان نے (عہد کفر میں ہونے کے باوجود ) گواہی دی تھی کہ وہ کہتے ہیں کہ، صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ،اور وہ ہمیں نماز پڑھنے ، سچ کہنے ، عفت و پاکدامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ ( متفق علیہ)
پڑوسی کو بھی قرابت دار شمار کیا گیا ہے اور وہ دوسروں سے بھی زیادہ اہتمام و نگرانی کا مستحق ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے ،
اور قرابت دار ہمسائے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھ ( ہمنشین) سے بھی حسن سلوک کرو ۔ ( النساء 36)
رشتہ داروں کی عزت و تکریم کا حکم دیا گیا ہے مگر شرط یہ ہے کہ انہیں مقدم کرنے میں کسی کی حق تلفی یا کسی کے اصل حق میں کمی بیشی نہ ہونے پاۓ ۔ ارشاد الہی ہے ، جب بات کرو تو عدل و انصاف کرو ، اگر چہ وہ شخص قرابت دار ہی کیوں نہ ہو ” ۔(الانعام : 162)
نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے ، صلہ رحمی اہل و عیال اور اہل خاندان میں باہمی محبت ، مال میں فروانی اور عمر میں درازی کا باعث ہوتی ہے ۔ ( مسنداحمد ) ، جسے یہ بات خوشگوار لگے کہ اس کے رزق میں اضافہ ہو اور اس کی عمر دراز ہو ، اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے ۔ ( بخاری و مسلم ) در حقیقت صلہ رحمی اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے اوراس کی نافرمانی سے بچنے کی اور توفیق پانے کا سبب بنتی ہے اور اس آدمی کے مرنے کے بعد بھی اس کا ذکر خیر لوگوں کی زبانوں پر جاری رہتا ہے ۔ گویا کہ وہ آدمی ابھی مرا ہی نہیں ۔
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے ، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ جس کی اخروی سزا کے ساتھ ساتھ اللہ اسے اس دنیا میں بھی فوری سزا نہ دے دے سواۓ بغاوت و سرکشی اور قطع رحمی کے ۔ (ترمذی )
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نماز فجر کے بعد اگر کسی حلقہ درس میں بیٹھے ہوتے تو فرماتے ، کہ میں قطع رحمی کرنے والے کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ وہ ہم سے اٹھ کر چلا جاۓ کیونکہ اب ہم اپنے رب سے دعا مانگنے لگے ہیں اور قطع رحمی کرنے والے پر آسمان و رحمت کے دروازے بند کۓ جا چکے ہیں
- ثناء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور دعاء موسی علیہ الصلوۃ والسلام
اس سورہ کی پہلی آیت میں علوم و معارف کے سمندر اتار دیئے اور لوازم نبوت اور فرائض رسالت برداشت کرنے کو بڑا وسیع حوصلہ دیا کہ بے شمار دشمنوں کی عداوت اور مخالفوں کی مزاحمت سے گھبرانے نہ پائیں (تنبیہ) احادیث و سیر سے بیان ہے کہ ظاہری طور پر بھی فرشتوں نے متعدد مرتبہ آپﷺ کا سینہ چاک کیا۔ لیکن مدلول آیت کا بظاہر وہ معلوم نہیں ہوتا۔ دراصل اور فی الحقیقت اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی ذات پر بے انتہا نعمتوں کا نزول فرمایا جن میں سر فہرست تین نعمتیں ہیں، جن کا ذکر اس سورہ مبارکہ میں کیا گیا ہے۔ وحی حفظ و ضبط کرنے، اسے سمجھنے، پھر اسے بیان کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کا سینہ کھول دیا گیا۔ پیغام نبوت کو من وعن لوگوں تک پہچانے کا عظیم بوجھ رسول اللہ ﷺ کے لئے بہت آسان کردیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے کام اور نام کو ہمیشہ کے لئے سربلند فرما دیا۔انسان کے لئے ضروری ہے کہ ہر عمل صالح کرنے سے پہلے اس کے لئے اسے شرح صدر حاصل ہو، ایک داعی پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہوتا ہے کہ دعوت دینے اور نیک اعمال کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دے۔ داعی کا سینہ دعوت کے لئے کھول دیا جائے تو اس میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ جب پورے جذبہ کے ساتھ نیک کام کے لئے محنت کی جائے تو اس کے لئے مشکل آسان کردی جاتی ہے۔شرح صدر ایسی نعمت ہے جس کے لئے اللہ تعالٰی کے اولوالعزم رسول سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلوۃ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی۔قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْلِیْٓ اَمْرِیْ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ (طٰہٰ: 25تا28) موسیٰ نے اپنے رب سے دعا کی کہ میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لئے آسان فرما دے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ سورہ طہ کی مذکورہ آیات کی سمجھ سور الم نشرح میں تفہیم و تدبر کرنے سے انسان پر شرح صدر،بوجھ اٹھانا اور اللہ کا تسبیح و حمد و ذکر کثیر کرنا آشکارا ہوتا ہے۔سورہ طہ کی مذکورہ آیات سیدنا موسی کلیم اللہ علیہ السلام کی دعا ہے۔۔ یہاں اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان محمد مصطفٰی ،احمد مجتبٰی ﷺ پر انتہائی مہربانی فرماتے ہوئے آپ کے لئے آپ کا سینہ کھول دیا۔ اس سے پہلے آپ کی حالت یہ تھی کہ نبوت سے پہلے آپ اپنی قوم کے حالات دیکھ کر رنجیدہ خاطر رہتے تھے، جونہی آپ کی عمر چالیس سال کے قریب پہنچی تو انسانیت کے بارے میں آپ ﷺ کی فکر مندی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ آپ کئی کئی دن تک غار حرا میں خلوت نشین ہو کر اس بات پر غور وفکر کرتے کہ لوگوں کو کس طرح راہ راست پر لایا جائے۔ اسی سوچ میں متفکر تھے کہ ایک دن غار حرا میں جبریل امین علیہ السلام آئے اور محسن انسانیت، سرور کونین ﷺ پر سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات نازل فرمائیں۔ عقیدہ توحید کی بنیاد پر قوم کی اصلاح کرنا اتنا مشکل کام ہے کہ جس سے بڑھ کر کوئی کام مشکل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کی دعوت دینے کے لئے جتنے انبیاء اور رسل مبعوث فرمائے وہ ظاہری ، جوہری اور روحانی صلاحیتوں کے حوالے سے اپنے اپنے دور کے عظیم اور منفرد ہستیاں تھیں ۔ ان خوبیوں میں خاتم الانبیاء و رسل جناب رسالت مآب ﷺ تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے زیادہ باصلاحیت اور ارفع و اولی تھے مگر انسانیت کی اصلاح اور توحید کی دعوت اس قدر مشکل کام تھا اور ہے کہ نبی آخر الزمان، ہادئ اعظم، رسالت مآب، محمد رسول اللہ ﷺ بھی اس کام کو بے پناہ وزنی محسوس کرتے تھے۔نبی اکرم ﷺ پر جونہی نبوت کی ذمہ داری عائد ہوئی تو آپ نے اس قدر جانفشانی کے ساتھ محنت اور جہاد فرمایا کہ بسا اوقات آپ اس قدر نڈھال ہوجاتے کہ قریب تھا کہ آپ کو کوئی تکلیف لاحق ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے فکر و تشویش کو ہلکان کرنے کے لئے کئی بار ارشاد فرمایا کہ آپ ایک حد سے زیادہ فکر مند نہ ہوں کیونکہ ہم نے آپ کو لوگوں کے لئے مبلغ بنایا ہے نگران نہیں بنایا(فذكر إنما أنت مذكر۔ سورة الغاشية)۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور آپ کی محنت کے نتیجہ میں ایک وقت ایسا آیا کہ آپ کو اس قدر جانثار اصحاب ملے کہ جس سے آپ کا بوجھ ہلکا ہوگیا جس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ہم نے آپ کا بوجھ ہلکا کردیا جو بوجھ آپ کی کمر توڑے جارہا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول مکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ (رواہ البخاری : کتاب العلم)ایک اور روایت ہے کہ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ (رض) قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَۃَ (رض) ہَلْ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یُصَلِّی وَہُوَ قَاعِدٌ قَالَتْ نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النّاسُ) (رواہ مسلم : باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا)ترجمہ، حضرت عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے پوچھا کیا نبی اکرم ﷺ بیٹھ کر بھی نماز پڑھا کرتے تھے؟ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا : ہاں لوگوں نے آپ کو بوڑھا کردیا تھا۔ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ، شاید آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے کہ وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔ (الکہف :6) قرآن میں ذکر ہے،لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْن (الشعراء :3) اے نبی شاید آپ اس غم میں اپنی جان کھودیں گے اس لئے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ قرآن مجید میں مزید ذکر ہے کہ ، اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا اور نہ آپ ان کے وکیل ہیں۔ (الانعام :107) ایک اور آیت کریمہ میں ارشاد ہے کہ، اے نبی، نصیحت کئے جاؤ آپ نصیحت ہی کرنے والے ہیں۔ ان پر جبر کرنے والے نہیں۔ (الغاشیہ : 21، 22)۔۔۔ ان سارے حالات کے پیش نظر اور پس منظر میں سورہ الانشراح میں چنانچہ ذکر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے کام کے لئے آپ ﷺ کا سینہ کھول دیا۔ آپ ﷺ کا بوجھ ہلکا کردیا ۔ جبکہ آپ ﷺ کا ذکر تا قیامت بلند ہوا اور تا قیامت ہوتا رہے گا۔ یہ سورۃ الم نشرح مکی ہے اور ابتدائی عہد نبوی کی قرآنی سورتوں کے نزول سے ہے جسکا مقصد دراصل نبی کریمﷺ کو تسلی دینا تھا نیزآپ کو بتایا گیا کہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشقت دکھاناضروری ہے۔ تو اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جائیں اور عبادت میں ہمہ تن مشغول ہو جائیں۔علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ دینی کاموں میں مشغول لوگوں کے لئے جس طرح یہ اہم ہے کہ وہ دین کی تعلیم، دعوت اور تبلیغ کا کام کریں، لوگوں کی راہِ حق کی طرف رہنمائی کریں اور ان کو اعمالِ صالحہ کی ترغیب دیں، اسی طرح ان کے لئے یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ وہ عبادات الٰہیہ، تعلق مع اللہ، اصلاحِ نفس اور اللہ تعالیٰ کے ذکر و اذکار میں خوب مجاہدہ کریں۔دانش مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنی ترقّی کی فکر کرے اور امّت کی ترقّی کی بھی فکر کرے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہماری محنت اور جدوجہد یک طرفہ نہ ہوں کہ ہم صرف اپنی فکر کریں اور امّت کو فراموش کر دیں یا یہ کہ صرف امّت کی فکر کریں اور اپنے آپ کو فراموش کر دیں۔ اس سورہ مبارکہ میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دونوں میں توازن (برابری) قائم رکھیں۔ یعنی اپنی فکر کریں اور امّت کی بھی فکر رکھیں۔اس سورہ مبارکہ میں اللہ جلّ شانہ نے رسول اللہﷺ کی ثناء خوانی کی اور اپنی بے پناہ محبّت و الفت کا تذکرہ کیا ہے اور اس بلند ترین مقام و مرتبہ کو بیان کیا ہے، جس سے نبی کریم ﷺ سرفراز کئے گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ شرف عظیم حاصل ہےکہ جب بھی اللہ تعالیٰ کا مبارک نام لیا جاتا ہے، تو اس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا مبارک نام بھی لیا جاتا ہے۔ چناں نچہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے جو کلمہ پڑھا جاتا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا مبارک نام بھی لیا جاتا ہے۔ اسی طرح اذان، اقامت، خطبہ اور تشہد میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا مبارک نام لیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر نماز میں رسول اللہ ﷺ کا نام نہ لیا جائے اور آپ پر درود نہ پڑھا جائے، تو نماز ناقص رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں رسول اللہ ﷺ کی قدر و منزلت اتنی زیادہ ہے کہ قرآنِ مجید میں بار بار انتہائی تعظیم و تکریم اور محبّت کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ورَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ کہ ہم نے آپ کا مقام و مرتبہ اور شہرہ بلند کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ یہ دنیا مصائب و مشکلات کا گھر ہے۔ چناں چہ انسان اپنی زندگی میں مختلف قسم کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے دوچار ہوتا ہے۔ کبھی صحت،مال و دولت اور اولاد کی وجہ سے مصیبتوں کا سامنا کرتا ہے، تو کبھی زمین و جائیداد کو لے کر پریشانیاں جھیلتا ہے۔ انسان خواہ جتنا بڑے عہدہ پر فائز ہو اس کی زندگی میں کچھ نہ کچھ پریشانیاں ضرور آتی ہیں، چاہے وہ ذہنی اور فکری پریشانیاں ہوں یا جسمانی اور جذباتی پریشانیاں ہوں۔اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ہمیں آگاہ کر رہے ہیں کہ ہم غمگین اور اداس نہ ہوں؛ کیونکہ ہرمصیبت کے بعد آسانی آتی ہے۔ لہذا اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے دین پر ایمان رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل بھروسہ رکھتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے کلام اور رسول کریم ﷺ کی باتوں پر مکمل یقین رکھتا ہے تو وہ مصیبت کے بعد آسانی ضرور دیکھےگا اور اس کی زندگی میں تنگی کے بعد خوش حالی ضرور آئےگی۔اس مبارک سورہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہﷺ کو خطاب کیا جارہا ہے کہ جب آپ دین کی دعوت و تبلیغ اور دین کے مختلف شعبوں میں امّت مسلمہ کی ہدایت و رہنمائی کے فریضہ سے فارغ ہو جایا کریں، تو اپنے رب کی طرف(راغب) متوجہ ہو جائیں اور عبادت میں ہمہ تن مشغول ہو جائیں۔ کیونکہ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ، جب آپ دنیوی کاموں سے فراغت پائیں تو ہماری عبادتوں کی طرف راغب ہو جائیں، یعنی اپنی نیت خالص کر لے اپنی پوری رغبت کے ساتھ ہماری بارگاہ میں کھڑے ہو جائیں ۔علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ دینی کاموں میں مشغول لوگوں کے لئے جس طرح یہ اہم ہے کہ وہ دین کی تعلیم و تبلیغ کا کام کریں، لوگوں کی راہِ حق کی طرف رہنمائی کریں اور ان کو اعمالِ صالحہ کی ترغیب دیں، اسی طرح ان کے لئے یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ وہ عبادات الٰہیہ، تعلق مع اللہ، اصلاحِ نفس اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں خوب مجاہدہ کریں۔ مجاہد رحمہ اللہ اس سورہ کے آخری آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب امر دنیا سے فارغ ہو کر نماز کے لئے کھڑے ہو تو محنت کے ساتھ عبادت کرو اور اخلاص کے ساتھ رب کی طرف توجہ کرو۔ اسی معنی کی وہ حدیث ہے جس کی صحت پر اتفاق ہے جس میں ہے کہ کھانا سامنے موجود ہونے کے وقت نماز نہیں اور اس حالت میں بھی کہ انسان کو پاخانہ پیشاب کی حاجت ہو ۔ [صحیح مسلم:560] ، ایک اور حدیث میں ہے کہ جب نماز کھڑی کی جائے اور شام کا کھانا سامنے موجود ہو تو پہلے کھانے سے فراغت حاصل کر لو ۔ [صحیح بخاری:5463] سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب فرض نماز سے فارغ ہو تو تہجد کی نماز میں کھڑا ہو۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہوئے اپنے رب کی طرف توجہ کر۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، یعنی دعا کر، زید بن اسلم رحمہ اللہ اور ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں، جہاد سے فارغ ہو کر اللہ کی عبادت میں لگ جا۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اپنی نیت اور اپنی رغبت اللہ ہی کی طرف رکھ۔دانش مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنی ترقّی کی فکر کرے اور امّت کی ترقّی کی بھی فکر کرے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہماری محنتیں اور کوششیں یک طرفہ نہ ہوں کہ ہم صرف اپنی فکر کریں اور امّت کو فراموش کر دیں یا یہ کہ صرف امّت کی فکر کریں اور اپنے آپ کو فراموش کر دیں۔ اس سورہ مبارکہ کی آخری آیات میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دونوں میں توازن (برابری) قائم رکھیں۔ یعنی اپنی فکر کریں اور امّت کی بھی فکر رکھیں۔صلوا عليه وآله وصحبه أجمعين. آمين يارب العالمين
- آٹھ اخلاقی امور جو اصلاح معاشرہ کے لئے بے حد ضروری ہیں۔
مفہوم حدیث
مذکورہ حدیث میں چند ایسی برائیوں کا ذکر ہے جو باہم مسلمانوں میں نفرت اور عداوت کا باعث بنتی ہیں۔ اور یہ ایسی معاشرتی برائیاں ہیں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں، اس حدیث پاک میں چند اخلاقی امور کی تلقین کی جا رہی ہے جو اصلاح معاشرہ کے لئے بے حد ضروری ہیں۔پہلا امر : بدگمانی سے بچنا
بدگمانی، دوسرے کے متعلق جھوٹا وہم ہے، اور جو جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے
پس بدگمانی کی اکثر باتیں جھوٹی ہوتی ہیں ۔ امام بغوى رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ، برے گمان سے بچو، ایسا گمان جس میں دوسرے شخص کے ہر کام میں بدنیتی نظر آتی ہے، جس کے نتیجے میں دو افراد کے درمیان برادرانہ تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ وہ گمان مراد نہیں جن کا انسان مالک ہی نہیں، دل میں خودبخود پیدا ہو جاتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں، اے ایمان والو! بہت ساری بدگمانی کی باتوں سے پرہیز کرو، بے شک بعض بدگمانی گناه ہیں۔سورہ الحجرات آیت12
مذکورہ آیت میں مطلق گمان کو گناہ نہیں گردانا گیا بلکہ بعض گمان کو گناہ کہا گیا ہے، اور وہ برا گمان ہے۔ اور وہ گمان جو گناہ نہیں وہ کسی کے متعلق حسن ظن رکھنا ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، یقیناً اچھا گمان بہترین عبادت ہے ،مسند احمد،رقم7943،سنن ابوداؤد، رقم4993
سفیان ثوری رحمة الله عليه کا کہنا ہے کہ گمان دو طرح کا ہے
انسان کسی کے متعلق برا گمان رکھے، اور اس کو آگے بیان بھی کرے، تو ایسے گمان پر گناہ ہے۔دوسرے سے مراد وہ گمان ہے جس کو انسان آگے بیان نہ کرے، ایسے گمان پر گناہ نہیں ہے۔زجاج رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ بدکرداروں اور فاسقوں کے ظاہری اعمال سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے، ان کے بارے میں ویسا ہی (برا گمان) رکھنے میں کوئی حرج نہیں، اور جس مسلمان کا ظاہر اچھا ہے، اس کے بارے میں بدگمانی جائز نہیں۔ اور جس کا ظاہر خراب ہو، اس کے بارے میں بدگمانی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوسرا امر: کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھانا
مراد یہ ہے کہ ایک چیز کا خریدنا منظور نہ ہو، لیکن دوسرے کو دھوکا دینے کے لئے جھوٹ سے اس چیز کی قیمت بڑھائے، اسی طرح کوئی شخص کسی شے کا بھاؤ کر رہا ہو تو تم اس میں دخل اندازی مت کرو۔ دھوکا دینے کے لئے جھوٹ سے بھاؤ بڑھانے والا گنہگار ہے۔تیسرا امر : حسد نہ کرنا
حسد انسانی فطرت کا جزو لا ینفك ہے، حسد کے معنی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے پاس کوئی چیز یا نعمت دیکھے اور تمنا کرے کہ یہ چیز میرے پاس ہو، اور اس شخص (جس کے پاس وہ نعمت ہے) سے زائل اور ختم ہو جائے، جبکہ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ نعمت ہمیں اگرچہ حاصل نہ ہو لیکن وہ شخص بھی اس نعمت سے محروم ہو جائے۔ اس قسم کا حسد کرنے والے زیادہ خبیث اور بدکردار ہوتے ہیں۔ یاد رہے! اس حدیث میں حسد سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ حسد حرام ہے۔
الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو بالعموم تمام مخلوقات کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے، اور کچھ برائیوں سے بالخصوص پناہ مانگنے کی نصیحت فرمائی ہے، ان میں سے حسد بھی ہے۔ جیسا کہ سورة الفلق میں ہے، وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ … اے نبی! کہہ دیجئے: کہ میں حاسد کے حسد سے تیری پناہ چاہتا ہوں، جب وہ اپنا حسد ظاہر کرتا ہے۔
تاکہ محسود کو نقصان نہ پہنچائے، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حاسد کے مفہوم میں وہ آدمی بھی داخل ہے جس کی نظر لگ جاتی ہے، اس لئے کہ جو آدمی حاسد، بدطینت اور خبیث النفس ہوتا ہے اسی کی نظر بری ہوتی ہے۔
عمر بن عبد العزیز رحمة الله عليه فرماتے ہیں ، میں نے حاسد سے زیادہ کسی ظالم کو مظلوم کے مشابہ نہیں دیکھا، حسد کے سبب ظالم ہوتا ہے، لیکن نعمت سے محرومی کے سبب مظلوم معلوم ہوتا ہے۔
حسد کے حرام ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ الله نے جسے کچھ بھی دیا ہے بغیر حکمت کے نہیں دیا، وہ خواہ اس کا فضل و کرم سہی، خواہ اس آدمی کی محنت کا صلہ ہو، دینے والا تو بہرحال الله خالق کل اور مختار کل ہے، تو نعمت پر اعتراض دراصل الله کے فضل و کرم پر اعتراض ہے، جبکہ مخلوق کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے خالق پر اعتراض کرے وہ ہر چیز پر قادر ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جب انسان کسی سے حسد کرتا ہے تو اپنے بھائی کے نقصان کے در پے ہوتا ہے، پھر غیبت، جھوٹ وغیرہ جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ جس کا وہ مرتکب ہوتا رہتا ہے۔چوتھا امر: رشک کرنا
لیکن رشک کرنا جائز و درست ہے، رشک یعنی دوسرے کو جو نعمت الله نے دی ہے، اس کی آرزو کرنا یہ درست ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، رشک تو دو ہی آدمیوں پر ہو سکتا ہے، ایک تو اس پر جسے الله نے قرآن مجید کا علم دیا اور وہ جس نے اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا۔ اور دوسرا آدمی وہ جسے الله تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اسے محتاجوں پر رات دن خیرات کرتا رہا ، [صحيح بخاري، رقم: 5025]پانچواں امر:نفسانیت سے ایک دوسرے سے آگے نہیں بڑھنا
طبرانی رحمة الله عليه اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں”تم ایک دوسرے کی رِیس کرتے ہوئے، ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دنیا کا مال و دولت حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو۔ بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر نیکی کے کام کرنے کی کوشش کرو۔“ فرمان باری تعالیٰ ہے ، انہی (نیکی کے) کاموں میں رغبت کرنے والوں کو رغبت کرنی چاہئے ۔المطففون:26چھٹا امر : ایک دوسرے سے دشمنی پیدا نہ کرنا، بغض نہ رکھنا۔
بغض محبت کی ضد ہے، لہذا ایک دوسرے سے بغض رکھنے کے بجائے ایک دوسرے سے محبت رکھنی چاہئے، کیونکہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ سورہ الحجرات آیت 10 میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے
”بےشک مومنین آپس میں بھائی ہیں۔“
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں بھی اسلامی اخوت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے رسوا کرے صحيح بخاری، رقم 2442
اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک مومن مومن کے لئے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو طاقت پہنچاتا ہے۔ اور آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔صحیح بخاری رقم،481
اور اگر یہ بغض دین کی خاطر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ قرآن مجید میں کفار سے بغض رکھنے کا حکم ہے، اور ان سے دوستی اور محبت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہےکہ
اہل ایمان، مومنون کو چھوڑ کر کافروں کو ہرگز دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں الایہ کہ تم ان کافروں کے شر سے بچنا چاہو اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔سورہ آل عمران،آیت 28ساتواں امر: ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرنا
اس حدیث میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرنے، پشت پھیر لینے، منہ موڑ لینے اور بے رخی اختیار کرنے سے بھی منع کر دیا گیا ہے۔ ایک صحیح مسلم کی روایت میں «لَا تَقَاطَعُوْا» کے الفاظ بھی ہیں کہ ایک دوسرے سے تعلق نہ توڑو، غصہ انسانی فطرت کا حصہ ہے، اگر کسی دوست پر غصہ آ ہی جائے تو اسلام نے انسانی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے تین دن تک اسے جائز رکھا ہے، تین دنوں سے زیادہ روٹھے رہنا اور ایک دوسرے سے گفتگو نہ کرنا، یہ نفرت و حقارت کا سبب بن سکتا ہے اس صورتحال سے بچنے کے لئے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ، کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی کرے (بائیکاٹ کرے) دونوں آپس میں ملتے ہیں، ایک اس طرف منہ پھیر لیتا ہے اور دوسرا دوسری طرف رخ پھیر لیتا ہے۔ ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔ صحیح بخاری رقم6077آٹھواں امر : الله کے بندوں کو آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنا
اس حدیث کے آخر میں بھائی بھائی بن کر رہنے کا حکم فرمایا ہے، تاکہ مسلمان آپس میں اکھٹے اور مضبوط رہیں۔ کیونکہ تم سب مسلمان ایک ہی برادری کے افراد ہو، مسلمان جہاں کہیں بھی ہو دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کچھ حقوق ہیں جو اخوت اسلامی کے تقاضے بھی ہیں کہ دوسرے پر ظلم نہ کرے، ضرورت کے وقت اس کا ساتھ نہ چھوڑے، اس کو نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھے اور اس سے دروغ گوئی نہ کرے ۔ - موت کے بعد انسان کی 9 آرزوئیں جن کا تذکرہ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ
پہلی آرزو۔
يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا
اے کاش : میں مٹی ہوتا
(سورة النبا، آیت: 40)
دوسری آرزو۔
يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِی
اے کاش ! میں نے اپنے آخرت کی زندگی کے لئے کچھ کیا ہوتا۔( سورہ الفجر آیت:24 )
تیسری آرزو۔
یا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ
اے کاش ! مجھے میرا اعمال نامہ نہ دیا جاتا ۔(سورة الحاقہ آیت:25)
چوتھی آرزو۔
يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا
اے کاش ! میں فلاں کو دوست نہ بناتا۔ (سورہ فرقان، آیت:28)
پانچویں آرزو۔
يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا
اے کاش ! ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی۔ ( سورہ احزاب، آیت:66)
چھٹی آرزو۔
يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا
اے کاش ! میں رسول کا راستہ اپنا لیتا۔ (سورة الفرقان ، آیت:27)
ساتویں آرزو۔
يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا
اے کاش ! میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑی کامیابی حاصل کر لیتا۔ (سورة النساء آیت:73)
آٹھویں آرزو۔
يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا
اے کاش ! ! میں نے اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہوتا۔(سورة الکھف آیت:42)
نویں آرزو۔
يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
اے کاش ! کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بیجھے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں۔ (سورہ الانعام آیت:27)
یہ ہیں وہ آرزوئیں جن کا موت کے بعد حاصل ہونا ممکن نہیں، ﺍسی لئے زندگی میں ہی اپنے عقائد و عمل کی اصلاح کرنا بہت ضروری ہے ۔اللہ تعالٰی نے مستقبل میں ہمیشہ باقی رہنے والی زندگی میں پیش آنے والے حالات سے بھی مندرجہ بالا آیات کے ذریعے متنبہ کیا اور فانی دنیاوی زندگی کے حال کے بارے میں سورہ حشر کے مندرجہ ذیل آیت نمبر 18 میں پیشگی مطلع فرمایا: کہ
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل (یعنی قیامت) کیلئے کیا (سامان) بھیجا ہے اور ہم پھر کہتے ہیں کہ اللہ ہی سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور ہر ایک شخص خواہ نیک ہو یا بد دیکھ بھال کرے کہ اس نے قیامت کے لیے کیا تیاری کی ہے کیونکہ قیامت میں اسی کا بدلہ ملے گا جو اس نے دنیا میں اعمال کئے ہیں اگر نیک ہیں تو اچھا اور برے ہیں تو برا اور اپنے اعمال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو وہ تمہارے اعمال سے پوری طرح باخبر ہے۔(تخریج تفسیر از عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ )
- یقینا اس نے فلاح پایا جس نے اپنے نفس کو پاکیزہ کیا اور وہ ناکام ہوا جس نے اسے گناہوں میں ڈبویا۔
خلاصہ تفسیر سورہ الشمس آیت 1 تا 10 : قسم ہے سورج کی اور اس کی روشنی کی اور چاند کی جب سورج (کے غروب) سے پیچھے آوے ( یعنی طلوع ہو مراد اس سے وسط ماہ کی بعض شبوں کا چاند ہے کہ سورج کے چھپنے کے بعد طلوع ہوتا ہے اور یہ قید شاید اس لئے ہو کہ وہ وقت کمال نور کا ہوتا ہے جیسا کہ ضحاہا کا اشارہ ہے کہ کمال نور آفتاب کی طرف اور یا اس وقت دو آیة قدرت علی سبیل التعاقب والاتصال ظاہر ہوتی ہیں غروب شمس وطلوع قمر) اور (قسم ہے) دن کی جب وہ اس (سورج) کی خوب روشن کردے اور (قسم ہے) رات کی جب وہ اس (سورج) کو (اور اس کے آثار وانوار کو ) چھپالے (یعنی خوب رات ہوجاوے کہ دن کی روشنی کا کچھ اثر نہ رہے اور چاروں چیزیں جن کی قسم کھائی گئی ہے ان میں جو قیدیں لگائی گئی ہیں وہ ان کے کمال کے اعتبار سے ہیں، یعنی ہر ایک کی قسم ان کی حالت کمال کے اعتبار سے ہے) اور (قسم ہے) آسمان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو بنایا (مراد اللہ تعالیٰ ہے اس طرح ماطحاہا اور ماسواہا میں بھی اور مخلوق کی قسم کو خالق کی قسم پر مقدم فرمانا اس لئے ہوسکتا ہے کہ اس میں ذہن کو دلیل سے مدلول کی طرف منتقل کرنا ہے کیونکو مصنوع دلیل ہے صانع پر، تو اس میں استدلال علی التوحید کی طرف بھی اشارہ ہوگیا) اور (قسم ہے) زمین کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو بچھایا اور (قسم ہے انسان کی جان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو (ہر طرح صورت وشکل اعضا سے) درست بنایا پھر اس کی بدکرداری اور پرہیزگاری (دونوں باتوں کا اس کو القا کیا) یہ اسناد باعتبار تخلیق کے ہے یعنی قلب میں جو نیکی کا رجحان ہوتا ہے یا جو بدی کی طرف میلان ہوتا ہے دونوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، گو القاء اول میں فرشتہ واسطہ ہوتا ہے اور ثانی میں شیطان پھر وہ رجحان ومیلان کبھی مرتبہ غرم تک پہنچ جاتا ہے جو کہ انسان کے قصد و اختیار سے صادر ہوتا ہے اسی قصد و اختیار پر عذاب وثواب مرتب ہوتا ہے جس کے بعد صدور فعل تخلیق حق ہوتا ہے اور کبھی عزم تک نہیں پہنچتا وہ معاف ہے۔ آگے مضمون کی تکمیل کے لئے اہل فجور و اہل تقویٰ کا مال بتلاتے ہیں کہ یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے اس (جان) کو پاک کرلیا (یعنی نفس کو فجور سے روکا اور تقویٰ اختیار کرلیا) اور نامراد ہوا جس نے اس کو (فجور میں) دبا دیا اور فجور سے مغلوب کردیا۔(تخریج از معارف القرآن۔مفتی اعظم محمد شفیع)
پہلی آیت سے لے کر آٹھویں آیت تک تمام قسموں کا جواب قسم یہ ہے کہ ” جس شخص نے اپنے نفس کو پاک کر لیاوہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے مٹی میں دبا دیا وہ ناکام ہوا۔ “ ان قسموں اور جواب قسم کی مناسبت یہ ہے (واللہ اعلم) کو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے کے لئے پیدا فرمایا، جیسا کہ فرمایا :(ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً (البقرۃ : ٢٩)” وہ ذات کہ زمین میں جو کچھ ہے اس نے سب تمہارے لئے پیدا فرمایا۔ “ حتیٰ کہ آسمان کی چھت ، زمین کا فرش، سورج اور اس کی دھوپ ، اس کے بعد چاند اور اس کی چاندنی اور دن کو آفتاب کا اجالا، پھر رات کا اس کو ڈھانپ لینا اسی کے فائدے کے لئے ہے، فرمایا :(وسخر لکم الشمس والقمر دآئبین ، وسخر لکم الیل والنھار) (ابراہیم : ٣٣)” اور اس نے تمہارے لئے سورج اور چاند کو مسخر کردیا جو مسلسل چلنے والے ہیں اور تمہارے لئے رات اور دن کو مسخر کردیا۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور نفس انسانی کو بہترین شکل و صورت میں بنا کر اسے نیکی اور بدی کی پہچان بھی کرادی۔ ہر آدمی ان سب چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور شعور سے محسوس کرتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص ان عظیم الشان مخلوقات کو اور ان کے خالق کے احسانات کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اپنے آپ کو کفر و شرکت اور ظلم و زیادتی سے پاک کرلیتا ہے یقیناً وہ اپنا مقصد تخلیق پورا کردینے کی وجہ سے کامیاب ہے اور جو شخص ان سب چیزوں سے آنکھیں بند کر کے اپنے نفس کو شہوت، غضب اور شرک و کفر کے کیچڑ میں دبا دیتا ہے وہ ناکام ہے۔(تخریج از تفسیر القرآن۔عبدالسلام بھاٹوی)
سورت میں اصل مضمون یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر اِنسان کے دِل میں نیکی اور بدی دونوں قسم کے تقاضے پیدا فرمائے ہیں، اب اِنسان کا کام یہ ہے کہ وہ نیکی کے تقاضوں پر عمل کرے، اور بُرائی سے اپنے آپ کو روکے۔ یہ بات کہنے کے لئے ﷲ تعالیٰ نے سورج، چاند ۔ دن اور رات کی قسمیں کھائی ہیں۔ اس میں شاید اشارہ ہے کہ جس طرح ﷲ تعالیٰ نے سورج کی اور دن کی روشنی بھی پیدا کی ہے، اور رات کا اندھیرا بھی، اسی طرح اِنسان کو نیکی کے کاموں کی بھی صلاحیت دی ہے، اور بدی کے کاموں کی بھی۔(تخریج از آسان ترجمہ القرآن۔مفتی اعظم محمد تقی عثمانی )
- ہر ایک کی اپنی مسجد ہے اور اس کا طول و عرض صرف ڈیڑھ انچ ہے۔
قرآنِ مجید میں قوم سدوم کاذکر سترہ (17) مرتبہ آیا ہے،اس قومِ کا مسکن شہر سدوم اور عمورہ تھا جو بحیرۂ مردار کے ساحل پر واقع تھا، اور مکہ مکرمہ کے رہائشی اپنے شام کے سفر میں برابر اسی راستہ سے آتے جاتے تھے ، یہ علاقہ پانچ اچھے بڑے شہروں پر مشتمل تھا۔ جن کے نام سدوم، عمورہ، ادمہ، صبوبیم اورضُغر تھے، ان کے مجموعہ کو قرآن کریم نے موتفکہ اور موتفکات (یعنی الٹی ہوئی بستیاں) کے الفاظ میں کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔ سدوم ان شہروں کا دار الحکومت اور مرکز سمجھا جاتا تھا۔
جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجا سیدنا لوط علیہ السلام اردن میں بحیرۂ مردار پر جہاں سدوم اور عامورہ کی بستیاں تھیں وہاں آکر رہائش پذیر ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اہلِ سدوم کی ہدایت کے لیے رسول مبعوث فرمایا، یہاں کے باشندے بے شمار فحش گناہوں میں مبتلا تھے، دنیا کی کوئی ایسی برائی نہیں تھی جو ان میں موجود نہ ہو ، یہ دنیا کی سرکش، بد تہذیب اور بداخلاق قوم تھی، ان سب برائیوں کے ساتھ ساتھ یہ قوم ایک خبیث عمل کی موجد بھی تھی، مہمان نوازی سے بیزار اس قوم نے میزبانی سے راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ایک ناپاک حرکت شروع کی جو ان کی تہذیب کا حصہ بن گئی ، وہ یہ کہ وہ اپنی نفسانی خواہشات پوری کرنے کے لئے عورتوں کے بجائے لڑکوں سے اختلاط رکھتے تھے، دنیا کی دوسری اقوام میں اس نت نئی بدفعلی کا اس وقت تک کوئی رواج نہ تھا ، یہی وہ بدبخت قوم تھی جس نے اس ناپاک عمل کو شروع کیا تھا، اور اس سے بھی زیادہ بے حیائی یہ تھی کہ وہ اپنی اس بدکرداری کو عیب تک نہیں سمجھتے تھے، بلکہ کھلم کھلا فخر کے ساتھ اس کو اپنی تہذیب کا جز لاینفک سمجھتے تھے۔
ان حالات میں سیدنا لوط علیہ الصلاۃ و السلام نے اس قوم کو ان کی بے حیائیوں اور برائیوں پر اللہ رب العزت کے گرفت و غضب سے ڈرانے کی کوشش کرتے رہے اور شرافت وطہارت اور تزکیہ نفس کی رغبت دلائی، اور ہر ممکن طریقے سے نرمی اور پیار سے انہیں سمجھایا اور نصیحتیں کیں ، اور پچھلی اقوم کی بداعمالیوں کے نتائج اور ان پر آئے ہوئے عذاب بتاکر عبرت دلائی، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوا، بلکہ الٹا اللہ تعالیٰ کے اس اولوالعزم رسول کی طنز و استہزاء کرتے ہوئے یہ کہنے لگے: ” یہ بڑے پاک باز لوگ ہیں، ان کو اپنی بستی سے نکال دو” اور بارہا سمجھانے کے بعد یہ کہنے لگے: “ہم تو نہیں مانتے ، اگر تو سچا ہے تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آ”، ادھر یہ ہورہا تھا اور دوسری جانب ابوالانبیا سیدنا ابراہیم علیہ الصلاہ و السلام کے پاس اللہ کے فرشتے انسانی شکل میں آئے ، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے انہیں مہمان سمجھ کر ان کی تواضع کرنی چاہی لیکن انہوں نے کھانا کھانے سے انکار کردیا، یہ دیکھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ یہ کوئی دشمن ہے جو حسبِ دستور کھانے سے انکار کررہا ہے، اور پریشان سے ہوگئے، تو مہمانوں نے کہا: آپ گھبرائیں نہیں، ہم اللہ کے فرشتے ہیں، آپ کے لیے بیٹے کی بشارت لائے ہیں اور آپ کے بتیجھے سیدنا لوط علیہ السلام کے قوم کی تباہی کے لیے بھیجے گئے ہیں، ابراہیم ؑ نے فرمایا: تم ایسی قوم کو ہلاک کرنے جارہے ہو جس میں سیدنا لوط علیہ السلام جیسا خدا کا برگزیدہ نبی موجود ہے؟ اللہ تعالٰی کے فرستادہ فرشتوں نے کہا: ہمیں معلوم ہے، لیکن اللہ کا یہی اٹل فیصلہ ہے کہ قومِ لوط اپنی بے حیائی اور فواحش پر اصرار کی وجہ سے ضرور ہلاک ہوگی، جبکہ سیدنا لوط علیہ السلام اور ان کا خاندان اس عذاب سے محفوط رہے گا، سوائے سیدنا لوط علیہ السلام کی بیوی کے’ کہ وہ قوم کی حمایت اور ان کی بداعمالیوں میں شرکت کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوگی۔
فرشتے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے روانہ ہوکر سدوم پہنچے ، اور لوط علیہ السلام کے یہاں مہمان ہوئے، اور یہاں یہ فرشتے خوب صورت اور نوجوان لڑکوں کی شکل میں تھے، سیدنا لوط علیہ السلام نے ان کو دیکھا تو بہت پریشان ہوئے کہ اب نہ جانے قوم ان کے ساتھ کیا معاملہ کرے گی، ابھی وہ اسی پریشانی میں تھے کہ قوم کو خبر ہوگئی اور وہ سیدنا لوط علیہ السلام کے مکان پر چڑھ دوڑے اور مطالبہ کرنے لگے کہ ان کو ہمارے حوالہ کردو، سیدنا لوط علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایا، لیکن وہ نہ مانے، تو انہوں سخت پریشانی میں کہا: “کاش میں کسی مضبوط سہارے کی حمایت حاصل کرسکتا”
فرشتوں نے ان کو پریشان دیکھ کر کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں ، ہم انسان نہیں ہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں، اور اس ناپاک قوم کے عذاب کے لیے نازل ہوئے ہیں ، آپ راتوں رات اپنے خاندان سمیت یہاں سے نکل جائیں ، تو فرشتوں کے پیغام کے بعد سیدنا لوط علیہ السلام اپنے خاندان سمیت بستی سے نکل کر سدوم سشہر سے رخصت ہوگئے اور ان کی بیوی نے ان کی رفاقت سے انکارکردیا اور یہیں رہ گئی، جب رات کا آخری پہر ہوا تو عذاب الٰہی نازل ہونا شروع ہوگیا، سب سے پہلے ایک سخت ہیبت ناک چیخ نے ان کو تہہ وبالاکردیا، پھر ان کی آبادی کو اوپر اٹھا کر زمین کی طرف الٹ دیا گیا، اور پھر اوپر سے پتھروں کی بارش نے ان کا نام ونشان مٹادیا، اور گزشتہ قوموں کی طرح یہ بھی اپنی سرکشی کی وجہ سے انجام کو پہنچے۔۔۔۔ ہر ایک کی اپنی مسجد ہے اور اس کا طول و عرض صرف ڈیڑھ انچ ہے۔۔۔۔ اللہ تعالٰی اس ملک خداداد پاکستان اور اس میں بسنے والے رعایا کو دین کی سمجھ دے اور ان کے حال اور مستقبل پر رحم کرے ۔
- فقہ کی فضیلت اور تدوین احادیث نبوی صل اللہ علیہ والہ وسلم
فقہ کی فضیلت :
امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: جو حدیث سیکھتا ہے، اور فقہ نہیں جانتا،اس کی مثال اس دوا فروش یا فارمیسی کے ماہر کی سی ہے، جو دوائیں بناتا ہے یا جمع کرتا رہتا ہے، لیکن یہ نہیں جانتا کہ دوا کس مرض میں کام ائے گی، یہاں تک کہ طبیب آتا ہے اور وہ بتاتا ہے کہ اس مرض کی دوا کونسی ہے ‘ بعینہ اسی طرح طالب حدیث ہے جو حدیثیں تو یاد کر لیتا ہے لیکن ان کی ماہیت اور حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے، یہاں تک کہ فقیہ آتا ہےاور مرض کے مطابق دوائی تشخیص کرتا ہے (ابن حنبل ص٢٨)
- Brief profile of Engr.Rashid Ahmed IPE-28,PE 10550/civil, candidate for Member Governing Body, PEC Elections (2021-24) to be held on 8 August 2021
profile of Engr.Rashid Ahmed IPE-28,PE 10550/civil, candidate for Member Governing Body, PEC Elections (2021-24) to be held on 8 August 2021
Engr. Rashid Ahmed Chief Engineer is serving for the remote province of Gilgit-Baltistan, globally known as “Roof of the World” and “Jewel of Pakistan”. He relentlessly pursued the indicators of social dimensions of development through related interventions initiated to strengthen the public infrastructures, smoothen the interaction between public institutions & public at large. He also made endeavours to address the future development needs for the continued progress and prosperity to the inhabitants of the world’s most hard area to live and flourish in a healthy society according to the entire satisfaction of engineering standards.
He envisions the province of Gilgit Baltistan as a developed society, which would be enlightened in outlook with improved social indicators inclusive of maximum employment opportunities, highest possible fighting needs against natural disasters/calamities and development of tourism sector. Progresses achieved by him in the field of Engineering are evident from visible improvement in all human growth indicators. His efforts for Gilgit Baltistan are depicting focused approach in achieving progress of government by demolishing defiant bureaucratic inertia and introducing the professional dignity and harmony from the sentimental mind-set of so called “status quo”. He motivated the officialdom and important state authorities to move towards policy, planning and execution befitting the requirements of a developmental oriented dispensation.
In recognition of his professional achievements the Government of GB mandated him to perform the function of ex-officio Chief Professional Advisor wef 2015_20 and elevated him Chairman, Inspection Team of GB Government wef October 2019 to Dec 2020. He became member of Governing body of PEC for the two consecutive terms of 2012-2015 & 2015-2018, Convenor of Regional Enrolment Committee for Gilgit- Baltistan, and Member of various committees of PEC w.e.f 2005.
He is lifetime member of Pakistan Engineering Congress and Member of International Professional Engineer(PAK) in Civil Engineering.اسلام علیکم ورحمت وبرکاتہ
to All respectable and eligible Engineers
I deem it an honour to request you to get your vote and support for upcoming Pakistan Engineering Council elections on Sunday, 8th of August 2021. Since you are an eligible voter, kindly set a reminder and take an opportunity out some time to visit your nearest polling station to cast your vote for me and Engr prof.Dr Attaullah Shah vice Chancellor KIU for the slot of Vice chairman from KPK.
Regards
sincerely yours
Engr Rashid Ahmed-IPE28(PAK )
PEC Reg.no.10550 /civil
Candidate for Member Governing Body Civil from KPK / Gilgit-Baltistan Region
for more visit us on website :
https://rashidgabbaro.com/
fb page:
https://www.facebook.com/486793564786023/posts/2442026002596093/ - شیطان بھی قانون قدرت کا حصہ ہے
شیطان بھی قانون قدرت کا حصہ ہے۔۔۔۔۔۔
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ پر غور کرنے سے قدرت کا یہ قانون اظہر من الشمس عیاں ہوگا کہ گرمیوں کے نصف النہار سورج کی تپتی دھوپ یا سخت سردی کی یخ بستہ راتوں کی طرح شیطان کا بھی دخل انسان میں اس طرح ہے کہ جیسے انسان کے جسم میں خون جاری ہے ۔
یعنی وہ ہر وقت انسان کے ساتھ ہے اور اسے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے ، اس کی سوچ کو بدلتا ہے ۔بعض دفعہ انسان نیک کام میں مصروف ہوتا ہے ،اور شیطان اس کے عمل کو نیت کے فساد مثلا ریاکاری ، تکبر وغیرہ یا تصور کے ذریعے یا بدعت کے ذریعے ضائع کر رہا ہوتا ہے اور انسان کو پتہ بھی نہیں چلتا ۔ سوال یہ کہ شیطان ایسی کوششیں کیوں کررہا ہے؟
وہ اس لئے انسان و جنات کو شریعت سےمنحرف اور بگاڑنے کی کوششیں کرتا ہے کہ اس کو بھی جہنم سے آزادی ملے ۔۔۔۔وہ صرف اس آخری روز جزا کے امید سے ہے کہ بیشتر سے بھی زیادہ جن و انس جہنم میں جانے والے ہوں تو شاید اللہ مہربان ہو اور ترس کی جوش سے اس کے بہکائے ہوئے بٹھکے جہنم کے راہیوں کو خلاصی دے۔۔۔اور۔۔۔جب ان سب کو گناہ عظیم سے مغفرت ملنے پر اور جنت کے حقدار ہونے پر اپنے رب سے شیطان بھی اپیل کرے گا کہ اے رحمان و رحیم جب ان پر تیری رحمت کو جوش آئی ہے تو مجھ ناچیز کو بھی بخش دے۔۔۔
یہ ہے اصل میں شیطان کی دوڑ دھوپ ۔۔چنانچہ اس جہد مسلسل میں دن رات لوگوں کو شریعت خداوندی سے بہکانے پر لگا ہوا ہے تاکہ جہنم کی آبادی بڑھے ۔۔۔
لہذا جس طرح سردیوں کی ٹھنڈی راتوں میں اور گرمیوں کی سخت دھوپ سے بر وقت محتاط رہتے ہیں اسی طرح شیطان کے شر اور وسوسوں سے چوکس رہتے ہوئے ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہوئے سیدھے راستے کی طلب ضروری ہے۔۔۔۔۔۔ وللہ اعلم
بو سکندر - کراہت دین
جو شخص یا عورت کافر ہو یا مسلمان سیّد الاولین وآلاخرین، شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس پر طنز و مذاق کرتا ہے، یا ان کی سیرت و زندگی کے کسی گوشے کے بارے میں استہزائیہ انداز اختیا ر کرتاہے، یا ان کی توہین و تنقیص کرتاہے یا ان کی شان میں گستاخی کرتاہے،یا ان کو گالی دیتا ہے، یا ان کی طرف بُری باتوں کو منسوب کرتا ہے یا آپ کی ازواج مطہرات اور امّہات المومنین رضی اللہ عنہن کو کسی اور عورت کے ساتھ تشبیہ دیتاہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرتاہے اور قرآن مجید کو ایک دیوانہ اور مجنون آدمی کا خواب بتاتا ہے، یا ایک ناول اور کہانی سے تعبیر کرتاہے تو وہ آدمی سراسر کافر، مرتد، زندیق اور ملحد ہے۔ اگر ایسا آدمی کسی مسلمان ملک میں حرکت کرتاہے تو اس کو قتل کرنا مسلمانوں کی حکومت پر واجب ہے اور مشہور قول کے مطابق اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اور جو اس کے کفر میں شک کرتاہے وہ بھی کافر ہے۔ اور یہ ائمہ اربعہ کا مسلک ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔
جیسا کہ شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد العلیم بن عبد السلام الحرانی الدمشقی المعروف بہ ابن تیمیہ نے اپنی مشہور و معروف” کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول” میں نقل فرمایاہے: «ان من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم من مسلم او کافر فانہ’ یجب قتلہ، هذآ مذهب علیہ عامة اهل العلم۔ قال ابن المنذر: أجمع عوام أهل العلم علی أن حد من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم : القتل ، وممن قاله مالک واللیث واحمد واسحق وهو مذهب الشافعی ، وقد حکی ابوبکر الفارسی من اصحاب الشافعی اجماع المسلمین علی ان حد من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم القتل».1
ترجمہ : عام اہلِ علم کا مذہب ہے کہ جو آدمی خواہ مسلمان ہو یا کافر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ ابن منذر نے فرمایا کہ عام اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے، اس کی حد قتل کرنا ہے اور اسی بات کو امام مالک، امام لیث، امام احمد، امام اسحاق نے بھی اختیار فرمایا ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے.اور ابوبکر فارسی نے اصحابِ امام شافعی سے مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حد قتل ہے۔
«وقال محمد بن سحنون: اجمع العلماء علی ان شاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم والمُتَنَقِّص له کافر، والوعید جاء علیه بعذاب اللہ له وحکمه عند الامة القتل، ومن شک فی کفره وعذابه کفر۔» 2
محمد بن سحنون نے فرمایا: علماء کا اجماع ہے کہ شاتم رسول اور آپ کی توہین وتنقیصِ شان کرنے والا کافر ہے اور حدیث میں اس کے لیے سخت سزا کی وعید آئی ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک اس کا شرعی حکم ،قتل ہے۔ اور جو آدمی اس شخص کے کفر اور عذاب کے بارے میں شک و شبہ کرے گا وہ بھی کافر ہو گا۔
مندرجہ بالا عبارات سے یہ بات آفتابِ روز روشن کی مانند واضح ہوگئی کہ باجماعِ امت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گالی دینے والا یا ان کی توہین و تنقیص کرنے والا کھلا کافر ہے اور اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ اور آخرت میں اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور جو آدمی اس کے کافر ہونے اورمستحقِ عذاب ہونے میں شک کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا؛ کیوں کہ اس نے ایک کافر کے کفر میں شبہ کیا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےابن سحنون سے مزید نقل کیا ہے :« ان الساب ان کان مسلما فانه یکفر ویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الائمة الأربعة وغیرهم۔
اگر گالی دینے والا مسلمان ہے تو وہ کافر ہوجائے گا اور بلا اختلاف اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اور یہ ائمہ اربعہ وغیرہ کا مذہب ہے۔
اور امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ:«قال احمد بن حنبل: سمعت ابا عبد اللہ یقول :کل من شتم النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم او تنقصه مسلما کان أوکافرا فعلیه القتل، وأری أن یقتل و لایستتاب.»4
جوآدمی بھی خواہ مسلمان ہو یا کافر اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے یا ان کی توہین و تنقیص کرتاہے اس کو قتل کرنا واجب ہے ۔اور میری رائے یہ ہے کہ اس کو توبہ کرنے کے لیے مہلت نہیں دی جائے گی بلکہ فوراً ہی قتل کردیا جائے گا۔
“الدرالمختار “میں ہے: وفی الاشباه ولا تصح ردة السکران الا الردة بسب النبی صلی الله علیه وسلم فانه یقتل ولا یعفی عنه۔» 5
“اشباہ ” میں ہے کہ نشہ میں مست آدمی کی ردّت کا اعتبار نہیں ہے ،البتہ اگر کوئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے کی وجہ سے مرتد ہوجاتاہے تو اس کو قتل کردیا جائے گا اور اس گناہ کو معاف نہیں کیا جائے گا۔
امام احمد رحمہ اللہ اور “اشباہ “کی عبارات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ شاتمِ رسول کے جرم کو معاف نہیں کیا جائے گا ، بلکہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔
پھر یہ شخص جب مسلسل اس جرم کے ارتکاب پر قائم اور اس پر مصرہے تواس کے واجب القتل ہونے اور اس کی توبہ قبول نہ کرنے کے بارے میں کوئی شک ہی نہیں۔چناں چہ کتب فقہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی ارتداد کی حالت پر بدستور برقرار رہتاہے یا بار بارمرتد ہوتا رہتاہے اس کو فوراً قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ “فتاوی شامی” میں ہے:
«وعن ابن عمر وعلی: لا تقبل توبة من تکر رت ردته کالزندیق، وهو قول مالک واحمد واللیث، وعن ابی یوسف لو فعل ذلک مراراً یقتل غیلة۔»
حضرت عبد اللہ بن عمراورحضرت علی رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ متعددبارمرتدہونے والے کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، جیساکہ زندیق کی توبہ قبول نہیں کی جاتی اور یہ امام مالک، احمد اوراللیث کا مذہب ہے، امام ابویوسف سے مروی ہے کہ اگر کوئی آدمی مرتد ہونے کا جرم بار بار کرے تواسے حیلہ سے بے خبری میں قتل کردیا جائے۔
اسی طرح “در مختار ” میں ہے: «وکل مسلم إرتد فتوبته مقبولة إلا جماعة من تکررت ردته علی ما مر۔ والکافر بسب نبی من الانبیاء فانه یقتل حدا ً ولا تقبل توبته مطلقاً۔»
ہر وہ مسلم جو نعوذ بااللہ مرتد ہوجاتاہے اس کی توبہ قبول ہوتی ہے ، مگر وہ جماعت جس کا ارتداد مکرر اور بار بار ہوتا ہو، ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اور جو آدمی انبیاء میں سے کسی نبی کو گالی دینے کی وجہ سے کافر ہوجائے اس کو قتل کر دیاجائے گا اور اس کی توبہ کسی حال میں بھی قبول نہیں کی جائے گی۔
ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سبِّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کی توہین اتنا بڑا جرم ہے کہ بالفرض اگر کوئی نشہ میں مست آدمی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دے گا یا آپ کی توہین و تحقیر کرے گا تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔
اسی طرح امہات المومنین رضوان اللہ علیہن کی شان میں گستاخی کرنے سے آں حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تکلیف پہونچتی ہے اور گستاخی کرنے والے پر دنیا وآخرت میں اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے اسی لیے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ امہات المومنین کی شان میں گستاخی کرنے والے کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور وہ مباح الدم ہے۔ چناں چہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کو گناہ کی تہمت لگانے والوں کے جرم کا ثبوت اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی پاک دامنی کا ثبوت تو قرآن میں مذکور ہے، فقہاء کرام نے بھی اس کی رُو سے ایسے شخص کو مباح الدم کہا ہے جو حضرت عائشہ پر تہمتِ گناہ لگاتاہے۔ جیسا کہ” فتاویٰ شامی” میں ہے:
«نعم لا شک فی تکفیر من قذف السیدة عائشة رضی الله عنها۔» 8
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو تہمت لگانے والا شخص بلا شبہ کافر ہے۔
اور ملعون “سلمان رشدی” اپنی کتاب میں امہات المومنین کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوا ہے، بالخصوص سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ، جیسا کہ ہفت روزہ “حریت” جلد۷ -۱۱تا۱۷نومبر ۱۹۸۸ء شمارہ ۴۵میں تفصیلی طورپرنقل کیا گیا ہے۔ اور یہ بات اہلِ دنیا کے سامنے ظاہر ہے کہ ملعون سلمان رشدی نے حالیہ ناول شیطانی آیات Satanic Versesکے علاوہ “مڈنائٹ چلڈرن” اور “شیم ” میں بھی شان رسالت مآب میں دریدہ د ہنی اور ذہنی خباثت کی بدترین مثال پیش کی ہے۔ تفصیل انڈیا ٹوڈے ستمبر ۱۹۸۸ء کی اشاعت میں موجودہے۔اور مزید اس کتاب کو متعدد ممالک سے شائع کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے تاکہ دنیا میں فساد پھیلایا جائے اور دین اسلام کو بدنام کیا جائے، تاریخ کو مسخ کیا جائے، نا پختہ اذہان کو اسلام سے برگشتہ کیا جائے اور مسلمانوں کے دل و جگر پر تیشے چلائے جائیں اور تلاشِ حق میں دامنِ اسلام کی طرف بڑھنے والے سادہ دل انسانوں کو اسلام اور مسلمانوں سے بد ظن کیا جائے۔ لہٰذا یہ شخص اگر پہلے سے مسلمان تھا تو اب مرتد ہوگیا ہے اور ارتداد پر اصرار کرنے کی وجہ سے ملحد اور زندیق ہے جس کی توبہ کا کچھ اعتبار نہیں اور اس کی سزا قتل ہی ہے۔وللہ اعلم - اپنی اصلاح کی ضرورت
عظیم تابعی حضرت حسن بصری رح سے منقول ہے : . کہ تمہارے حکمران تمہارے اعمال کا عکس ہیں ۔ اگر تمہارے اعمال درست ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی درست ہوں گے ، اگر تمہارے اعمال خراب ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی خراب ہوں گے ۔۔ منصور ابن الاسود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام اعمش رحمہ سے سنا ،کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے اس بارے میں سنا کہ : جب لوگ خراب ہوجائیں گے تو ان پر بدترین حکمران مسلط ہوجائیں گے”۔۔ امام بیہقی نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ : اللہ تعالیٰ ہر زمانہ کا بادشاہ اس زمانہ والوں کے دلوں کے حالات کے مطابق بھیجتے ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ رعایا کے ساتھ حکم رانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرمان برداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکمران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکم ران بھی ان کے حق میں غضب ناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ لہٰذا حکمران کے ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وبے انصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیے بدعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، ایسے حالات میں اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے ، اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی و انکساری کے ساتھ التجا و فریاد کی جائے اور اپنے اعمال و اپنے معاملات کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع کر دیا جائے تاکہ رحمتِ الٰہی متوجہ ہو اور ظالم حکمران کے دل کو عدل وانصاف اور نرمی وشفقت کی طرف پھیر دے ۔’مادر وطن میں بڑے لوگ یعنی صلحا، سخی، دانشور اور معالج آج کے اس مختصر زمانے میں یکے بعد دیگرے اس دنیائے فانی سے بڑی جلدی میں رخصت ہو رہے ہیں۔۔۔دراصل .موت العالِم موت العالم (عالِم کی موت عالم کی موت ہے) کی صحیح تفسیر اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہیں کسی افق میں کوئی آفتابِ علم غروب ہوتا ہے، موت ایک تلخ سچائی ہے اور ہر ذی نفس کو اس سچائی کا زائقہ چکھنا ہے، جو لوگ رخصت ہوئے ہیں انہیں جلد یا بدیر رخصت ہونا ہی تھا، مگر معاشرے کے بڑے قیمتی لوگوں کے جانے سے جہاں یہ غم ہے کہ یہ لوگ علم و عمل کی محفلوں سے دفعۃً اٹھ کر چلے گئے وہاں یہ غم بھی ہے کہ ان کے جانے سے جو جگہیں خالی ہورہی ہیں ان کو پُر کرنے والا کوئی نہیں ہے، بعض مرتبہ یہ خیال آتا ہے کہ کہیں یہ وہ دور تو نہیں آگیا جس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: (بخاری رقم الحدیث: ۶۰۷۰۔۔۔۔نیک لوگ زار و قطار اٹھائے جائیں گے اور جو یا کھجور کے سڑے بھوسے کی طرح ناکارہ لوگ باقی رہ جائیں گے جن کی اللہ کو ذرا پرواہ نہ ہوگی۔وللہ اعلم
- عدالتی ایوان یا جنگی میدان
عدالتی ایوان یا جنگی میدا ن :(تالیف : رشید احمد گبارو)لکھنؤ کی ایک خصوصی عدالت نے بابری مسجد کو شہید کرنے کے کیس میں نامزد تمام 32 ملزمان کو یہ فیصلہ سناتے ہوئے بری کر دیا کہ 28 برس قبل بابری مسجد کی شہادت کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں کیا گیا تھا۔اس مقدمے کے بتیس ملزمان میں برسرِاقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے شریک بانی اور سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن ایڈوانی، سابق مرکزی وزرا مورلی منوہر جوشی، اوما بھارتی اور اترپردیش کے سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ سمیت کئی سینیئر سیاستدان بھی شامل تھے۔عدالتی کارروائی کے بعد بری ہونے والے موجود کچھ ملزمان نے احاطہ عدالت سے باہر نکل کر میڈیا کو اس فیصلے پر اپنا اپنا ردعمل دیا ہے۔بری ہونے والےسفاک مجرم ایل کے اڈوانی کے وکیل ومل سریواستو نے فیصلے کے بعد کہا کہ ’تمام ملزموں کو بری کر دیا گیا ہے، اتنے شواہد موجود نہیں تھے کہ الزمات ثابت ہو سکتے۔‘اسی مقدمے میں دوسرے سفاک مجرم جے بھگوان گویل نے ٹی وی چینلز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے مندر توڑا تھا، ہمارے اندر سخت غصہ تھا، ہر کارسیوک کے اندر ہنومان جی سما گئے تھے۔ ہم نے مسجد کو منہدم کیا تھا ، اگر عدالت سے سزا ملتی تو ہم خوشی سے اس سزا کو قبول کر لیتے۔ عدالت نے سزا نہیں دی۔ یہ ہندو مذہب کی فتح ہے، ہندو دھرم کی فتح ہے۔‘خصوصی عدالت کے باہر موجود افراد نے ایک دوسرے کو گلے لگایا اور جئے شری رام کے نعرے لگائے۔دوسری جانب بابری مسجد اراضی مقدمے میں ایک فریق ہاشم انصاری کے بیٹے نوجوان نسل کے جدید مسلمان اقبال انصاری نے کہا ’ہم قانون کی پاسداری کرنے والے مسلمان ہیں، اچھا ہے اگر عدالت نے بری کر دیا ہے تو ٹھیک ہے۔ کیس بہت طویل عرصے سے التوا میں تھا اب ختم ہوگیا ہے’ اچھا ہوا۔ ہم چاہتے تھے کہ اس کا جلد فیصلہ ہوجائے۔ ہم عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنے ایک ٹویٹ میں فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے اور لکھا ’دیر سے ہی سہی انصاف کی جیت ہوئی۔‘ انھوں نے مزید لکھا کہ ’بابری مسجد انہدام کیس میں لکھنؤ کی خصوصی عدالت کے ذریعہ ایل کے ایڈوانی، کلیان سنگھ، ڈاکٹر مورلی منوہر جوشی، اما جی سمیت بتیس افراد کے کسی بھی سازش میں شامل نہ ہونے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ اس فیصلے سے ثابت ہوا ہے کہ دیر سے ہی سہی انصاف کی جیت ہوئی ہے۔‘ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کے دو مقدمے عدالت میں زیر سماعت تھے۔ایک مقدمہ زمین کی ملکیت کا تھا جس کا فیصلہ بھارتی سپریم کورٹ نے گذشتہ برس نومبر میں سناتے ہوئے یہ قرار دیا کہ وہ زمین جہاں بابری مسجد تھی وہ مندر کی زمین تھی۔ اسی مقام پر دو مہینے قبل گجرات کے قصائی نریندر مودی نے ایک پُر تعیش تقریب میں رام مندر کا سنگ بنیاد بھی رکھا تھا۔دوسرا مقدمہ بابری مسجد کے شہادت کا ہے۔ چھ دسمبر 1992 کو ایک بڑے ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ یہ مسجد پانچ سو سال قبل برصغیر پاک و ہند اور بنگلہ دیش کے مسلمان شہنشاہ ظہیرالدین بابر کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ ہندو انتہا پسندوں کا ماننا ہے کہ یہ مسجد ان کے بھگوان رام چندر کے جائے پیدائش کے مقام پر تعمیر کی گئی تھی۔بابری مسجد کے شہادت کے بعد ایودھیا کی انتظامیہ نے دو مقدمے درج کئے تھے۔ایک مقدمہ مسجد کے تقدس کو پامال کرکے شہید کرنے والے ہزاروں نامعلوم ہندو دہشت گردوں کے خلاف درج ہوا تھا اور دوسرا مقدمہ مسجد کو شہید کرنے والوں کی سازش کے بارے میں تھا۔ اس مقدمے میں ایل کے ایڈوانی،منوہر جوشی، اوما بھارتی، سادھوی رتھمبرا اور وشو ہندو پریشد کے کئی بڑے دہشت گرد اور ایودھیا کے کئی بااثر مجرم بنائے گئے۔ابتدائی طور پر 48 لوگوں کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ اٹھائیس برس سے جاری اس کیس کی سماعت کے دوران سولہ ملزمان مر بھی کر چکے ہیں۔بابری مسجد کے شہادت کے یہ دونوں مقدمے پہلے رائے بریلی اور لکھنؤ کی دو عدالتوں میں چلائے گئے مگر بعد میں انھیں سپریم کورٹ کے حکم پر یکجا کر دیا گیا اور ان کی سماعت لکھنؤ کی سیشن اور ضلعی عدالت میں مکمل کی گئی۔ تقتیش اور مقدمے کی سماعت کے دوران ایسا بھی مرحلہ آیا تھا جب تفتیشی بیورو نے ایل کے ایڈوانی، منوہر لال جوشی اور دوسرے کئی بڑے شدت پسند ہندو عناصر کے خلاف مسجد کو شہید کرنے کی سازش کا مقدمہ واپس لے لیا تھا لیکن بعد میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد اسے دوبارہ بحال کیا گیا۔بین الاقوامی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت کی سیکولر جمہوریت رفتہ رفتہ ہندو دھرم میں بدلنے لگی۔ ایڈوانی جب نائب وزیراعظم تھے، اس وقت نریندر مودی گجرات کےقصائی وزیر اعلیٰ تھے۔ وہ مودی کے مذہبی اور سیاسی گرو تصور کئے جاتے تھے۔ گجرات کے مسلم کش فسادات کے سلسلے میں جب مودی کو وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی نکتہ چینیوں کا سامنا تھا اس وقت ایڈوانی نے ہی مودی کا دفاع کیا تھا اور وہ ہر مشکل مرحلے پر مودی کے ساتھ کھڑے تھے۔لیکن غالباً قائد اعظم محمد علی جناح کو سیکولر ماننے کے سبب ایل کے ایڈوانی سے مودی کے گہرے اختلافات پیدا ہو گئے۔ہندو قوم پرستی کو مذہبی انتہا پسندی تک پہنچانے والے ایڈوانی اور ان کے ساتھی مورلی منوہر جوشی آج سیاسی تنہائی میں زندگی تو گزار رہے ہیں مگر جس ہندو قوم پرستی کی انھوں نے بنیاد رکھی آج اسی کی بنیاد پر نریندر مودی ہندو دھرم میں اپنی مقبولیت کی بلندی پر ہیں۔ایڈوانی نے ہندوؤں کے غلبے والے جس مہابھارت کا تصور پیش کیا تھا وہ خواب مکمل تکمیل کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اسی ہندوستان میں لکھنؤ کی سیشن عدالت اگر انہیں ایک مسجد کے انہدام کی سزا دیتی تو یہ ان کے ساتھ تاریخ کی ستم ظریفی ہوتی۔ہمارے اس دور کے معروضی حالات میں اس طرح کے عدالتی فیصلے بھی نئے نہیں ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب کبھی حکمرانوں نے آزادی اور حق کے مقابلہ میں طاقت کا استعمال کیا ہے تو عدالت گاہوں نے سب سے زیادہ آسان ہتھیار کا کام دیا ہے۔ عدالت کا بے پناہ اختیار بہرحال ایک طاقت ہے اور وہ انصاف اور نا انصافی، دونوں کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے۔ منصف حکومت کے لئے عدل اور حق کا سب سے بہتر ذریعہ ہوتا ہے مگر جابر اور گمراہ حکومتوں کے لئے اس سے بڑھ کر انتقام اور نا انصافی کا کوئی آلہ کار بھی نہیں۔آج کے اس فیصلے پر اور بابری مسجد کی شہادت جو ہندوستان میں ماچس کی تیلی بن کر تقریبا تین ہزار مسلمانوں کی جانوں کو جلا کر خاکستر کرگیا ‘مولانا ابولکلام آزاد کا مندرجہ ذیل قول صادق آتا ہے کہ ” تاریخِ عالم کی سب سے بڑی ناانصافیاں میدانِ جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں”
- مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے
” مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے برونی وئیر(Bronnie Ware) ایک آسٹریلین نرس تھی۔ مگر اس کا کام عام نرسوں جیسا نہیں تھا۔وہ ایک ایسے کلینک میں کام کرتی رہی جہاں ایسے مریض لائے جاتے تھے جو زندگی کی بازی ہار رہے ہوتے تھے۔ان کی سانسیں چندہفتوں کی مہمان ہوتی تھیں۔ مریضوں میں ہر عمر اور ہر مرض کے لوگ ہوتے تھے۔ان میں صرف ایک چیز یکساں ہوتی کہ وہ صرف چند دنوں یا ہفتوں کے مہمان ہوتے تھے۔ زندگی کی ڈور ٹوٹنے والی ہوتی تھی۔ برونی وئیر نے محسوس کیا کہ اس کے کلینک میں دس بارہ ہفتوں سے زیادہ کوئی زندہ نہ رہتا تھا۔کلینک میں موجود دوسرے ڈاکٹروں اور دیگر نرسوں نے ان چند دنوں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا مگر برونی ایک حساس ذہن کی مالکن تھی۔اس نے محسوس کیا کہ اگر انسان کو یہ پتہ ہو کہ وہ اب اس دنیا سے جانے والا ہے تو غیر معمولی حد تک سچ بولنے لگتا ہے۔اپنے گزرے ہوئے وقت پر نظر ڈال کر نتائج نکالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوجاتا ہے‘ اپنی تمام عمر کے المیے، خوشیاں اورنچوڑ سب کچھ بتانا چاہتا ہے۔چنانچہ برونی وئیر نے محسوس کیا، کہ موت کی وادی کے سفر پر روانگی سے چند دن یا ہفتے پہلے انسان مکمل طور پر تنہا ہوجاتا ہے۔خوفناک اکیلے پن کے احساس میں مبتلا شخص لوگوں کو اپنی زندگی کے بارے میں بتانا چاہتا ہے۔ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ مگر اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا۔ کوئی رشتہ دار، کوئی عزیز یا کوئی ہمدرد۔برونی وئیر نے فیصلہ کیا کہ زندگی سے اگلے سفر پر جانے والے تمام لوگوں کی باتیں سنے گی۔ان سے مکالمہ کرے گی۔ ان سے ان کے بیتے ہوئے وقت کی خوشیاں، غم، دکھ، تکلیف اورمسائل سب کچھ غور سے سن کر محفوظ کر لے گی۔ چنانچہ برونی وئیر نے اپنے مریضوں کے آخری وقت کو کمپیوٹر پر ایک بلاگ(Blog) کی شکل میں مرتب کرنا شروع کر دیا۔اس کے بلاگ کو بے انتہا مقبولیت حاصل ہوگئی۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں نے پوری دنیا سے ان کی لکھی ہوئی باتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ برونی وئیر کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اس کے جمع کردہ مریضوں کے تاثرات کو اتنی پذیرائی ملے گی۔ لہٰذہ اس نے ایک اور بڑا کام کر ڈالا۔اس نے یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھ دیا۔ اس کتاب کانام -مرنے کے پانچ بڑے پچھتاوے(The top five regrets of dying) بہت ہی کم عرصے میں برونی وئیرکی تصنیف شدہ کتاب مقبولیت کی بلند ترین سطح کوچھونے لگی۔حیرت کی بات یہ بھی تھی کہ تمام دم توڑتے لوگوں کے تاثرات بالکل یکساں تھے۔ وہ ایک جیسے ذہنی پُل صراط سے گزر رہے تھے۔آئیے زرا ایک طائرانہ نگاہ ڈالتے ہیں کہ یہ پانچ پچھتاوے کیا تھے
پہلی بات ؛ دنیا چھوڑنے سے پہلے جو سب نے کہی۔ جس سے کوئی بھی مستثنٰی نہیں تھا۔ ہرایک کی زبان پر تھا کہ مجھ میں اتنی ہِمّت نہیں تھی کہ زندگی کو اپنی طرح سے جی لیتا۔ پوری زندگی کو اپنے ارد گرد کے لوگوں کی توقعات کے حساب سے بسر کرتا رہا۔ برونی وئیر کواندازہ ہوا کہ ہر انسان کے خواب ہوتے ہیں۔ مگر وہ تمام خواب ادھورے صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ انسان اپنی زندگی کی ڈور ارد گرد کے واقعات، حادثات اور لوگوں کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ وہ زندگی میں خود فیصلے کر ہی نہیں پاتا۔ یہ تمام لوگوں کا پہلا اور یکساں پچھتاوا تھا۔
دوسری بات جو خصوصاً مرد حضرات نے زیادہ کہی کیونکہ اکثرحالات میں گھر کے اخراجات پورے کرنے کی ذمّےداری مرد کی ہوتی ہے۔ یہ کہ انھوں نے اپنے کام یا کاروبار پر اتنی توجہ دی کہ اپنے بچوں کابچپن نہ دیکھ پائے۔ وقت کی قِلّت کے باعث اپنے خاندان کو اچھی طرح جان نہیں پائے۔ کام اور روزگار کے غم نے ان سے تمام وقت ہی چھین لیا جس میں دراصل انھیں کافی ٹائم اپنے بچوں اور اہل خانہ کو دینا چاہئے تھا۔ ساری محنت جن لوگوں کے لئے کر رہے تھے، کام کی زیادتی نے دراصل اسے ان سے دور کر دیا۔ کام ان کے لئے پھانسی کا پھندا بن گیا جس نے ان کی زندگی میں کامیابی ضرور دی، مگر ان کو اپنے نزدیک ترین رشتوں کے لیے اجنبی بنادیا۔ برونی وئیر نے اپنے اکثر مریضوں کو یہ کہتے سنا کہ انھیں اپنی زندگی میں اتنا کام نہیں کرنا چاہئے تھا کہ رشتوں کی دنیا میں اکیلے رہ جائیں۔ یہ دوسرا احساس زیاں تھا۔
تیسری بات بھی انتہائی اہم تھی۔ وہ یہ کہ اکثر لوگوں نے خود سے گلہ کیا کہ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اپنے اصل خیالات اور جذبات سے دوسروں کو آگاہ کر پاتے۔ بیشتر لوگ صرف اس لئے اپنے اصل جذبات کا اظہار نہ کر پائے کہ دوسروں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے یا دوسروں کا خیال رکھنا چاہتے تھے۔ مگراس کا نقصان یہ ہوا کہ وہ ایک عامیانہ سی زندگی گزارتے رہے۔ ان کی تمام صلاحیتیں ان کے اندر قید رہ گئیں ۔ کئی افراد کے مزاج میں اس وجہ سے اتنی تلخی آگئی کہ تمام عمر کُڑھتے رہے۔ انھیں ہونے والے نقصان کا علم اس وقت ہوا جب بیمار پڑ گے اور کسی قابل نہ رہے۔
چوتھا غم بھی بڑا فکر انگیز تھا۔ اکثر لوگ اس افسوس کا اظہار کرتے رہے کہ اپنے پرانے دوستوں سے رابطہ میں نہ رہ پائے۔ نوکری، کام، روزگار یا کاروبار میں اتنے مصروف ہوگئے کہ ان کے بہترین دوست ان سے دور ہوتے گئے۔ ان کو اس زیاں کا احساس تک نہ ہوا۔ اپنے اچھے دوستوں کو وقت نہ دے پائے جن سے ایک بے لوث جذبے کی آبیاری ہوتی رہتی۔ کشمکشِ زندگی نے انھیں اپنے قریب ترین دوستوں سے بھی اتنا دور کردیا کہ سب عملی طور پر اجنبی سے بن گئے۔ سالہاسال کے بعد ملاقات اور وہ بھی ادھوری سی۔ برونی نے محسوس کیا کہ سب لوگوں کی خواہش تھی کہ آخری وقت میں ان کے بہترین دوست ان کے ساتھ ہوتے۔ عجیب حقیقت یہ تھی کہ کسی کے ساتھ بھی سانس ختم ہوتے وقت اس کے دوست موجود نہیں تھے۔ اکثر مریض تو برونی وئیر کو اپنے پرانے دوستوں کے نام تک بتاتے تھے۔ ان تمام خوشگوار اور غمگین لمحوں کو دہراتے تھے جو وقت کی گرد میں کہیں گم ہوچکے تھے۔ اپنے دوستوں کی حِس مزاح، عادات اور ان کی شرارتوں کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ برونی تمام مریضوں کو جھوٹا دلاسہ دیتی رہتی تھی کہ وہ فکر نہ کریں، ان کے دوست ان کے پاس آتے ہی ہوں گے۔ مگر حقیقت میں کسی کے پاس بھی ایک دوسرے کے لئے وقت نہیں تھا۔ زندگی میں بھی اور آخری سانسوں میں بھی
پانچویں اور آخری بات بہت متاثر کن تھی۔ تمام مریض یہ کہتے تھے کہ انھوں نے اپنے آپ کو ذاتی طور پر خوش رکھنے کے لئے کوئی محنت نہیں کی۔ اکثریت نے دوسروں کی خوشی کو اپنی خوشی جان لیا۔ اپنی خوشی کو جاننے اور پہچاننے کا عمل شروع ہی نہیں کیا۔
مندرجہ بالا تحقیق کے مطابق میرے نزدیک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی زندگی سے مسرت کا خوبصورت پرندہ غائب ہوگیا۔ برعکس اسکے وہ لوگوں کو ظاہری طور پر متاثر کرتے رہے کہ وہ انتہائی مطمئن زندگی گزار رہے ہیں۔دراصل انھوں نے نئے تجربے کرنے چھوڑ دیے۔ وہ یکسانیت کا شکار ہوگئے۔ تبدیلی سے اتنے گھبرا گئے کہ پوری زندگی ایک غلط تاثر دیا کہ بہت اطمینان سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اپنے اندر ہنسی اور قہقہوں کو مصلوب کر دیا۔ تمام خوبصورت اور بھرپور جذبے پنہاں رہے بلکہ پابند سلاسل ہی رہے۔عمر کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر سنجیدگی اور غیرجذباتیت کا ایسا خول چڑھا لیا، کہ ہنسنا بھول گئے۔ اپنے قہقہوں کی بھر پور آواز سنی ہی نہیں۔ اپنے اندر گھٹ گھٹ کر جیتے رہے مگر اپنی خوشی کی پروا نہیں کی۔ حماقتیں کرنے کی جدوجہد بھی ترک کر ڈالی۔ نتیجہ یہ ہواکہ عجیب سی زندگی گزار کر سفر عدم پر روانہ ہوگئے۔ برونی کی تمام باتیں میرے ذہن پر نقش ہو چکی ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ آپ تمام لوگ انتہائی ذہین ہیں۔ آپ سب کی زندگی میں یہ پانچ غم بالکل نہیں ہوں گے۔ آپ ہرطرح سے ایک مکمل اور بھرپور زندگی گزار رہے ہوں گے۔ اپنے بچوں اور خاندان کو وقت دیتے ہوں گے۔ اپنے جذبات کو اپنے اندرابلنے نہیں دیتے ہوں گے۔ پرانے دوستوں کے ساتھ خوب قہقہے لگاتے ہوں گے۔ اپنی ذات کی خوشی کو بھرپور اہمیت دیتے ہوں گے۔ مگر مجھے ایسے لگتاہے کہ ہم تمام لوگ ان پانچوں المیوں میں سے کسی نہ کسی کاشکار ضرور ہیں۔ بات صرف اورصرف ادراک اور سچ ماننے کی ہے۔اس کے باوجود میری دعاہے کہ کسی بھی شخص کی زندگی میں پانچ تو درکنار، ایک بھی پچھتاوا نہ ہو۔مگر . . .شائد میں غلط کہہ رہا ہوں؟واقعہ ہے کہ ایک بادشاہ نے کسی بات پر خوش ہو کر ایک شخص کو یہ اختیار دیا کہ وہ سورج غروب ہونے تک جتنی زمین کا دائرہ مکمل کر لے گا، وہ زمین اس کو الاٹ کر دی جائے گی۔ اور اگر وہ دائرہ مکمل نہ کر سکا اور سورج غروب ہو گیا تو اسے کچھ نہیں ملے گا۔یہ سن کر وہ شخص چل پڑا ۔ چلتے چلتے ظہر ہوگئی تو اسے خیال آیا کہ اب واپسی کا چکر شروع کر دینا چاہئے، مگر پھر لالچ نے غلبہ پا لیا اور سوچا کہ تھوڑا سا اور آگے سے چکر کاٹ لوں،، پھر واپسی کا خیال آیا تو سامنے کے خوبصورت پہاڑ کو دیکھ کر اس نے سوچا اس کو بھی اپنی جاگیر میں شامل کر لینا چاہئے۔الغرض واپسی کا سفر کافی دیر سے شروع کیا ۔ اب واپسی میں یوں لگتا تھا جیسے سورج نے اس کے ساتھ مسابقت شروع کر دی ہے۔ وہ جتنا تیز چلتا پتہ چلتا سورج بھی اُتنا جلدی ڈھل رہا ہے۔ عصر کے بعد تو سورج ڈھلنے کی بجائے لگتا تھا پِگلنا شروع ہو گیا ہے۔وہ شخص دوڑنا شروع ہو گیا کیونکہ اسے سب کچھ ہاتھ سے جاتا نطر آ رہا تھا۔ اب وہ اپنی لالچ کو کوس رہا تھا، مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ دوڑتے دوڑتے اس کا سینہ درد سے پھٹا جا رہا تھا،مگر وہ تھا کہ بس دوڑے جا رہا تھاآخر سورج غروب ہوا تو وہ شخص اس طرح گرا کہ اس کا سر اس کے سٹارٹنگ پوائنٹ کو چھو رہا تھا اور پاؤں واپسی کے دائرے کو مکمل کر رہے تھے، یوں اس کی لاش نے دائرہ مکمل کر دیا- جس جگہ وہ گرا تھا اسی جگہ اس کی قبر بنائی گئی اور قبرپر کتبہ لگایا گیا، جس پر لکھا تھا ۔ ۔ ۔ ۔”اس شخص کی ضرورت بس اتنی ساری جگہ تھی جتنی جگہ اس کی قبر ہے”اللہ پاک نے بھی اپنے کلامِ پاک میں اسی طرف اشارہ کیا ہے؛( 1 ) (لوگو) تم کو (مال کی) بہت سی طلب نے غافل کر دیا( 2 ) یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں( 3 ) دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا( 4 ) پھر دیکھو تمہیں عنقریب معلوم ہو جائے گا( 5 ) دیکھو اگر تم جانتے (یعنی) علم الیقین (رکھتے تو غفلت نہ کرتے)( 6 ) تم ضرور دوزخ کو دیکھو گے( 7 ) پھر اس کو (ایسا) دیکھو گے (کہ) عین الیقین (آ جائے گا)( 8 ) پھر اس روز تم سے (شکر) نعمت کے بارے میں پرسش ہو گی ۔۔۔۔القرآن ؛ سورۃ التکاثر…آج ہمارے دائرے بھی بہت بڑے ہوگئے ہیں، چلئے واپسی کی سوچ سوچتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔اللہ پاک ہمیں موت سے پہلے موت کی تیاری کی توفیق نصیب فرمائےاور خاتمہ بالخیر فرمائے .. آمین۔ یا رب العالمین :طالبِ دعا؛ بوسکندر
- کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
کسی جنگل میں ایک “خرگوش” کی اسامی نکلی۔ ایک بے روزگار اور حالات کے مارے ریچھ نے بھی اس کیلئے درخواست جمع کرا دی۔اتفاق سے کسی خرگوش نے درخواست نہیں دی تو اسی ریچھ کو ہی خرگوش تسلیم کرتے ہوئے ملازمت دیدی گئی۔ملازمت کرتے ہوئے ایک دن ریچھ نے محسوس کیا کہ جنگل میں ریچھ کی ایک اسامی پر ایک خرگوش کام کر رہا ہے اور اسے ریچھ کا مشاہرہ اور ریچھ کی مراعات مل رہی ہیں۔ ریچھ کو اس بے انصافی پر بہت غصہ آیا کہ وہ اپنے قد کاٹھ اور جثے کے ساتھ بمشکل خرگوش کا مشاہرہ اور مراعات پا رہا ہے جبکہ ایک چھوٹا سا خرگوش اس کی جگہ ریچھ ہونے کا دعویدار بن کر مزے کر رہا ہے۔ ریچھ نے اپنے دوستوں اور واقف کاروں سے اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم و زیادتی کے خلاف باتیں کیں، سب دوستوں اور بہی خواہوں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ فوراً اس ظلم کے خلاف جا کر قانونی کارروائی کرے۔ریچھ نے اسی وقت جنگل کے منتظم اعلٰی کے پاس جا کر شکایت کی، منتظم اعلٰی صاحب کو کچھ نہ سوجھی، کوئی جواب نہ بن پڑنے پر اس نے شکایت والی فائل جنگل انتظامیہ کو بھجوا دی۔ انتظامیہ نے اپنی جان چھڑوانے کےلئے چند سینیئر چیتوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی۔ کمیٹی نے خرگوش کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ اصالتاً حاضر ہو کر اپنی صفائی پیش کرے اور ثابت کرے کہ وہ ایک ریچھ ہے۔دوسرے دن خرگوش نے کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنے سارے کاغذات اور ڈگریاں پیش کر کے ثابت کر دیا کہ وہ دراصل ایک ریچھ ہے۔کمیٹی نے ریچھ سے غلط دعوی دائر کرنے پر پوچھا کہ کیا وہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ خرگوش ہے؟ مجبوراً ریچھ کو اپنے تیار کردہ کاغذات پیش کر کے ثابت کرنا پڑا کہ وہ ایک خرگوش ہے۔کمیٹی نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ سچ یہ ہے کہ خرگوش ہی ریچھ ہے اور ریچھ ہی دراصل خرگوش ہے۔ اس لیئے کسی بھی ردو بدل کے بغیر دونوں فریقین اپنی اپنی نوکریوں پر بحال اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے۔ درخواست گزار ریچھ نے کسی قسم کے اعتراض کے بغیر فوراً ہی کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کر لیا اور واپسی کی راہ لی۔ریچھ کے دوستوں نے کسی چوں و چراں کے بغیر اتنی بزدلی سے فیصلہ تسلیم کرنے کا سبب پوچھا تو ریچھ نے کہا:میں بھلا چیتوں پر مشتمل اس کمیٹی کے خلاف کیسے کوئی بات کر سکتا تھا اور میں کیونکر ان کا فیصلہ قبول نہ کرتا کیونکہ کمیٹی کے سارے ارکان چیتے در اصل گدھے تھے، جبکہ ان کے پاس یہ ثابت کرنے کےلئے کہ وہ چیتے ہیں باقاعدہ ڈگریاں اور کاغذات بھی تھے۔(چیک ادب سے ماخوذ)
- القائد الخلیفہ امیرالمومنین سیدنا عمر ابن الخطاب الفاروق احاديث صحیح بخاری کے مطابق۔
جس معصوم عن الخطاءہستی کو ابو الانبیا سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ جل شانہ سے مانگا وہ سرور کونین سیدنا محمد صل اللہ علیہ والہ وسلم ہیں جسس محفوظ عن الخطاءشخصیت کو سیدنا محمد مصطفی صل اللہ علیہ والہ وسلم نے اللہ رب العزت کے بارگاہ سے مانگا وہ سیدناعمر ابن الخطاب الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں۔۔ یکم محرم الحرام کو یوم شہادت شہید محراب ، دعائے رسول اللہ، سیدنا عمر ابن الخطاب الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ ہے۔۔۔اس حوالے سے بخاری شریف کے چند احادیث کے مفاہیم قارئین کے نذر ہیں۔
سیدنا و حبیبنا ومو لانا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دودھ پیا، اتنا کہ میں دودھ کی سیرابی دیکھنے لگا جو میرے ناخن یا ناخنوں پر بہہ رہی ہے، پھر میں نے پیالہ عمر کو دے دیا۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ والہ و بارک وسلم نے فرمایا کہ اس کی تعبیر علم ہے۔ بخاری شریف مفہوم حدیث3681
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں جب سیدنا عمر فاورق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ( شہادت کے بعد ) ان کی چارپائی پر رکھا گیا تو تمام لوگوں نے جسم مبارک کو گھیر لیا اور ان کے لئے ( اللہ سے ) دعا اور مغفرت طلب کرنے لگے، جسم مبارک ابھی اٹھائی نہیں گئی تھی، میں بھی وہیں موجود تھا۔ اسی حالت میں اچانک ایک صاحب نے میرا شانہ پکڑ لیا، میں نے دیکھا تو وہ سیدنا علی وجہ اللہ الکریم تھے، پھر انہوں نے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے دعا رحمت کی اور ( ان کی میت مبارک کو مخاطب کر کے ) کہا: آپ نے اپنے بعد کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے یہ تمنا ہوتی کہ اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے میں اللہ سے جا ملوں اور اللہ کی قسم! مجھے تو ( پہلے سے ) یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ ”میں، ابوبکر اور عمر گئے۔ میں، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے۔ میں، ابوبکر اور عمر باہر آئے۔“ بخاری شریف مفہوم حدیث 3685
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو قمیص پہنے ہوئے تھے ان میں سے بعض کی قمیص صرف سینے تک تھی اور بعض کی اس سے بھی چھوٹی اور میرے سامنے عمر پیش کئے گئے تو وہ اتنی بڑی قمیص پہنے ہوئے تھے کہ چلتے ہوئے گھسٹتی تھی۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے اس کی تعبیر کیا لی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ دین مراد ہے۔بخاری شریف مفہوم حدیث 3691
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلی امتوں میں محدث ہوا کرتے تھے، اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہے تو وہ عمر ہیں۔ زکریا بن زائدہ نے اپنی روایت میں سعد سے یہ بڑھایا ہے کہ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے بنی اسرائیل کی امتوں میں کچھ لوگ ایسے ہوا کرتے تھے کہ نبی نہیں ہوتے تھے اور اس کے باوجود فرشتے ان سے کلام کیا کرتے تھے اور اگر میری امت میں کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے تو وہ عمر ہیں۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مزید پڑھا «من نبی ولا محدث» ۔بخاری شریف مفہوم حدیث 3689
- Syed Munawar Hasan رح
آہ سید منور حسن رح ۔۔۔!زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔ ایک انٹرویو میں سوال وجواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سوال :منور حسن صاحب آپ اپنے اثاثے ڈکلئیر کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جواب میں سید منور حسن رح نے فرمایا :اثاثے ڈکلئیر کے لئے ضروری ہے کہ اثاثے ہونے بھی چاہئے میرے پاس میری بیوی کے نام ایک سو گز(تین مرلہ) مکان کے علاوہ اثاثے نام کی کوئی چیز نہیں. یہ مکان بھی میری بیوی کو وراثت میں ملا، میں ساری حلال کی کمائی سے گھر تو دور کی بات ہے گاڑی بھی نہیں خرید سکا، جب جماعت اسلامی کی طرف سے کوئی زمہ داری ادا کرنی ہوتی ہے تو جماعت اسلامی کی گاڑی استعمال کرتا ہوں ورنہ ساری زندگی پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کیا. اس کے علاوہ مجھ پہ کچھ قرض ضرور ہے جو اندازاً سترہ ہزار روپے ہے. بس مجھے اس کی ادائیگی کی پریشانی رہتی ہے.یہ اس شحص کے کا حال ہے جو الیکشن 1977 میں پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے خود ممبر قومی اسمبلی (MNA)بھی رہا اور پانچ سال تک انکی زوجہ محترمہ بھی ممبر قومی اسمبلی (MNA)رہیں. بیس سال جماعت اسلامی کا سیکرٹری جنرل اور پانچ سال امیر جماعت اسلامی رہا. مگر انکے پاس اپنی بیوی کی وراثت میں ملا سو گز کا مکان سو گز ہی رہا اور آج اسی گھر سے انکا جنازہ اٹھایا گیا….بیٹے کی شادی کی تو وہ اس وقت امیر جماعت اسلامی پاکستان تھے مگر ولیمے میں سموسے پکوڑے اور چائے پیش کی حالانکہ اس وقت وزیر اعظم ، وزراء اعلیٰ، گورنر ، بےشمار وزراء اور میں خود بھی شریک ہوا، ہم سب نے پوچھا تو کہنے لگے بس اتنی ہی استطاعت رکھتے ہیں. مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب بیٹی کی شادی میں بے شمار تحفے ملے تو سب اٹھا کر جماعت اسلامی کے بیت المال میں جمع کروا دیئے کہ یہ میری بیٹی کو امیر جماعت اسلامی کی وجہ سے ملے ہیں اور ان پر حق جماعت اسلامی کا بنتا ہے.جو لوگ آخرت کی جوابدہی پر ایمان کامل رکھتے ہیں وہ کبھی بھی دنیاوی لذات نفس کے پیچھے نہیں پڑتے. سید منور حسن صاحب جس زہد و تقوی کی معراج پر تھے آج ہر شخص انکی مثال دے رہا ہے کہ اس شخص کو نماز پڑھتے دیکھ کر اللہ یاد آتا تھا. جب بھی نماز سے اٹھتے چہرہ آنسو سے تر ہوتا، کبھی تہجد کو سفر میں بھی نہ چھوڑتے. تین چار کپڑے کے سفید سوٹ اور ویسٹ کوٹ اور انکی بھی حالت کہ دھلوا دھلوا کر رنگت تک اتر گئی ہوتی. ہم پاکستانی نہ جانے کب اپنے پاس رہتے ہوئے ان نگینوں کو سمجھ سکیں گے۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔مجیب الرحمٰن شامی کے کالم اقتباس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مزید پڑھئے ۔۔۔۔شاہ صاحب کی مختصر سوانح عمری:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر تھے۔ وہ اگست 1944 ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ تعلق تقسیم برصغیر سے پہلے کے شرفائے دہلی کے سید گھرانے سے ہے۔ آزادی کے بعد ان کے خاندان نے پاکستان کو اپنے مسکن کے طور پر چنا اور کراچی منتقل ہو گئے۔ انہوں نے 1963 ء میں جامعہ کراچی سے سوشیالوجی میں ایم اے کیا۔ پھر1966 ء میں یہیں سے اسلامیات میں ایم اے کیا۔ زمانہ طالب علمی میں ہی منور حسن اپنی برجستگی اور شستہ تقریر میں معروف ہو گئے۔ کالج میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے۔ علاوہ ازیں بیڈ منٹن کے ایک اچھے کھلاڑی بھی رہےاس کے بعد طلبہ کی بائیں بازوکی تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن(NSF)میں شامل ہوئے،اور1959 ء میں اس تنظیم کے صدر بن گئے۔ زندگی میں حقیقی تبدیلی اس وقت برپا ہوئی جب آپ نے اسلامی جمیعت طلباء پاکستان کے کارکنان کی سرگرمیوں کو قریب سے دیکھااور مولانا سید ابولاعلی مودودی رح کی تحریروں کا مطالعہ کیا۔ نتیجتاً آپ 1960 ء میں اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہو گئے اورجلد ہی اپنی پارسائی کی وجہ سے جامعہ کراچی یونٹ کے صدر اور مرکزی شورٰی کے رکن منتخب گئے۔ بعد ازاں 1964 ء میں آپ اس کے مرکزی صدر (ناظم اعلیٰ) بنے اور مسلسل تین ٹرم کے لئے اس عہدے پرکام کرتے رہے۔ ان کی عرصئہ نظامت میں جمعیت نے طلبہ مسائل، نظام تعلیم اور تعلیم نسواں کو درپیش مسائل کے سلسلے میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کی خاطر کئی مہمات چلائیں۔۔۔1963 ء میں اسلامی ریسرچ اکیڈمی کراچی میں اسسٹنٹ کی حیثیت سے شامل ہوئے اور اس کے سیکرٹری جنرل کے عہدے تک ترقی کی۔ ان کی زیِر قیادت اس اکیڈمی نے ستر (70) علمی کتابیں شائع کیں۔ سید منورحسن 1967 ء میں جماعت اسلامی میں شامل ہوئے۔ جماعت اسلامی کراچی کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، نائب امیراور پھر امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سر انجام دیں۔ اپنے تقوی کی بنیاد پر جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شورٰی اور مجلس عاملہ کے بھی رکن منتخب ہوئے۔ کئی فورمز پر جماعت اسلامی کی نمائندگی کی جیسے یونائیٹد ڈیموکریٹک فورم اور پاکستان نیشنل الائنس (پاکستان قومی اتحاد) وغیرہ۔ 1977 ء میں کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1992 ء میں انہیں جماعت اسلامی پاکستان کا مرکزی اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور پھر 1993ء میں مرکزی سیکرٹری جنرل بنادیا گیا۔شاہ صاحب نے ریاست ہائے متحدہ امریکا،کینیڈا،مشرق وسطٰی ،جنوب مشرق اور جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک کے دورے بھی کئے اور اسلامی تشخص کو بھرپور طریقے سے ان علاقوں میں اجاگر کیا۔مارچ 2009 میں سید منور حسن جماعت اسلامی پاکستان کے چوتھے امیر منتخب ہوئے۔ ان سے قبل جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی رح، میاں طفیل محمد صاحب رح اورقاضی حسین احمد صاحب رح نےجماعت اسلامی کی امارت کی ذمہ داری نبھائیں ۔ آپ جماعت کے چوتھے امیر منتخب ہوئے ہیں۔ مدت 2009ء تا 2014ء ہے۔پاکستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر سید منور حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل امریکا کا اس خطے سے چلے جانا ہے، جب تک امریکا اس خطے میں رہے گا دہشگردی میں اضافہ ہوتا رہے گا، اس لئے ضروی ہے کہ تمام سطحی کاموں کو چھوڑ کر پوری قوم “گو امریکا گو” مہم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے۔کورنا وبا سے متاثر ہوکر 26 جون 2020 کو سید منور حسن صاحب اس دار فانی سے بطور شہید رخصت ہوئے۔إنا لله وإنا إليه راجعون ○ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔االلہ تعالی شاہ صاحب کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور روز آخرت انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے ۔۔۔آمین
- فداك امى و أبي يا رسول الله صلى الله عليه واله وسلم
سیدنا محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبارک روضہ انور کے بارے میں مکمل ۔۔۔۔۔تشریح وتوضیح:-گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔وہ حجرہ شریف جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دو اصحاب سیدنا ابوبکرصدیق اور سیدنا عمر فاروق رضوان اللہ تعالی علیھم کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں،لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔روضہ رسولؐ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔روضہ رسولؐ پر سلام عرض کرنے والے زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت۔یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔میں نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔علامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی کتاب (وفاءالوفاء) میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔یہ سب معلومات معروف کتاب ”وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے مؤلف نور الدین ابو الحسن السمہودی نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں
- فداك امى و أبي يارسول الله
سیدنا محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قبر انور مبارک کے بارے میں تشریح وتوضیح:-
گزشتہ ساڑھے پانچ صدیوں میں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک تک نہیں جا سکا ہے۔
وہ حجرہ شریف جس میں آپ اور آپ کے دو اصحاب کی قبریں ہیں، اس کے گرد ایک چار دیواری ہے، اس چار دیواری سے متصل ایک اور دیوار ہے جو پانچ دیواروں پر مشتمل ہے۔
یہ پانچ کونوں والی دیوار حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بنوائی تھی۔ اور اس کے پانچ کونے رکھنے کا مقصد اسے خانہ کعبہ کی مشابہت سے بچانا تھا۔
اس پنج دیواری کے گرد ایک اور پانچ دیواروں والی فصیل ہے۔ اس پانچ کونوں والی فصیل پر ایک بڑا سا پردہ یا غلاف ڈالا گیا ہے۔ یہ سب دیواریں بغیر دروازے کے ہیں،
لہذا کسی کے ان دیواروں کے اندر جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
روضہ رسولؐ کی اندر سے زیارت کرنے والے بھی اس پانچ کونوں والی دیوار پر پڑے پردے تک ہی جا پاتے ہیں۔
روضہ رسولؐ پر سلام عرض کرنے والے عام زائرین جب سنہری جالیوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو جالیوں کے سوراخوں سے انہیں بس وہ پردہ ہی نظر آ سکتا ہے، جو حجرہ شریف کی پنج دیواری پر پڑا ہوا ہے۔
اس طرح سلام پیش کرنے والے زائرین اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اطہر کے درمیان گو کہ چند گز کا فاصلہ ہوتا ہے لیکن درمیان میں کل چار دیواریں حائل ہوتی ہیں۔
ایک سنہری جالیوں والی دیوار، دوسری پانچ کونوں والی دیوار، تیسری ایک اور پنج دیواری، اور چوتھی وہ چار دیواری جو کہ اصل حجرے کی دیوار تھی۔
گزشتہ تیرہ سو سال سے اس پنج دیواری حجرے کے اندر کوئی نہیں جا سکا ہے سوائے دو مواقع کے۔
ایک بار 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کے دور میں ان کا غلام
اور دوسری بار 881 ہجری میں معروف مورخ علامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی کے بیان کے مطابق وہ خود۔
مسجد نبوی میں قبلہ کا رخ جنوب کی جانب ہے۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک ایک بڑے ہال کمرے میں ہے۔
بڑے ہال کمرے کے اندر جانے کا دروازہ مشرقی جانب ہے یعنی جنت البقیع کی سمت۔
یہ دروازہ صرف خاص شخصیات کے لیے کھولا جاتا ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہوں تو بائیں جانب حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ تعالی عنہا کی محراب ہے۔ اس کے پیچھے ان کی چارپائی (سریر) ہے۔
العربیہ ویب سائٹ نے محقق محی الدین الہاشمی کے حوالے سے بتایا کہ ہال کمرے میں روضہ مبارک کی طرف جائیں تو سبز غلاف سے ڈھکی ہوئی ایک دیوار نظر آتی ہے۔
1406 ہجری میں شاہ فہد کے دور میں اس غلاف کو تبدیل کیا گیا۔
اس سے قبل ڈھانپا جانے والا پردہ 1370 ہجری میں شاہ عبد العزیز آل سعود کے زمانے میں تیار کیا گیا تھا۔
مذکورہ دیوار 881 ہجری میں اُس دیوار کے اطراف تعمیر کی گئی جو 91 ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تعمیر کی تھی۔ اس بند دیوار میں کوئی دروازہ نہیں ہے۔ قبلے کی سمت اس کی لمبائی 8 میٹر، مشرق اور مغرب کی سمت 6.5 میٹر اور شمال کی جانب دونوں دیواروں کی لمبائی ملا کر 14 میٹر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 91 ہجری سے لے کر 881 ہجری تک تقریباً آٹھ صدیاں کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو نہیں دیکھ پایا۔
اس کے بعد 881 ہجری میں حجرہ مبارک کی دیواروں کے بوسیدہ ہو جانے کے باعث ان کی تعمیر نو کرنا پڑی۔ اس وقت نامور مورخ اور فقیہ علّامہ نور الدین ابو الحسن السمہودی مدینہ منورہ میں موجود تھے، جنہیں ان دیواروں کی تعمیر نو کے کام میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔
وہ لکھتے ہیں 14 شعبان 881 ھ کو پانچ دیواری مکمل طور پر ڈھا دی گئی۔ دیکھا تو اندرونی چار دیواری میں بھی دراڑیں پڑی ہوئی تھیں، چنانچہ وہ بھی ڈھا دی گئی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے اب مقدس حجرہ تھا۔ مجھے داخلے کی سعادت ملی۔ میں شمالی سمت سے داخل ہوا۔ خوشبو کی ایسی لپٹ آئی جو زندگی میں کبھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
میں نے رسول اللہ اور آپ کے دونوں خلفاء کی خدمت میں ادب سے سلام پیش کیا۔ مقدس حجرہ مربع شکل کا تھا۔ اس کی چار دیواری سیاہ رنگ کے پتھروں سے بنی تھی، جیسے خانہ کعبہ کی دیواروں میں استعمال ہوئے ہیں۔ چار دیواری میں کوئی دروازہ نہ تھا۔
میری پوری توجہ تین قبروں پر مرکوز تھی۔ تینوں سطح زمین کے تقریباً برابر تھیں۔ صرف ایک جگہ ذرا سا ابھار تھا۔ یہ شاید حضرت عمر کی قبر تھی۔ قبروں پر عام سی مٹی پڑی تھی۔ اس بات کو پانچ صدیاں بیت چکی ہیں، جن کے دوران کوئی انسان ان مہر بند اور مستحکم دیواروں کے اندر داخل نہیں ہوا۔
علامہ نور الدین ابو الحسن سمہودی نے اپنی کتاب (وفاءالوفاء) میں حجرہ نبوی کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ ”اس کا فرش سرخ رنگ کی ریت پر مبنی ہے۔
حجرہ نبوی کا فرش مسجد نبوی کے فرش سے تقریبا 60 سینٹی میٹر نیچے ہے۔
اس دوران حجرے پر موجود چھت کو ختم کر کے اس کی جگہ ٹیک کی لکڑی کی چھت نصب کی گئی جو دیکھنے میں حجرے پر لگی مربع جالیوں کی طرح ہے۔ اس لکڑی کے اوپر ایک چھوٹا سا گنبد تعمیر کیا گیا جس کی اونچائی 8 میٹر ہے اور یہ گنبد خضراء کے عین نیچے واقع ہے“۔
یہ سب معلومات معروف کتاب ”وفاء الوفاء با اخبار دار المصطفی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے مؤلف نور الدین ابو الحسن السمہودی نے اپنی مشہور تصنیف میں درج کی ہیں - اولی الامر اور کورونا وائرس کی وبا
تحریر: رشید احمد گبارو: 29 مارچ 2020: اولی الامر اور کورونا وائرس کی وبا: کورونا وائرس کا زمانہ ہے۔ سائنسدانوں نے اسکو کوڈ 19 کا نام دیا ہے۔ یہ وائرس چین کے صوبہ ووہان سے پھیلا۔ زیر نظر مضمون جب لکھا جارہا ہے اسوقت چین نے اس پر کافی حد تک قابو پایا ہے۔ ساری دنیا میں یہ نظر نہ آنیوالا قاتل وائرس پھیل چکا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں ملک اٹلی میں ہوچکیں ہیں جہاں روزانہ ایک ہزار کیسز سامنے آرہے ہیں اور اب تک کی ہلاکتوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکہ ہے جہاں کیسز باقی ممالک کے نسبت زیادہ ہیں۔ دنیا میں ہلاکتوں کی شرح تقریبا ڈھائی ہزار انسانوں کا ضیاع ہونا روزانہ ہے۔ اس وبا کے دوران پاکستان کے سارے صوبے بشمول راقم کا پاکستانی انتظامی صوبہ گلگت بلتستان بھی لاک ڈاون کے عمل سے گزر رہا ہے جہاں پر اس وبا سے متاثرہ لوگ ایران سے براستہ بلوچستان ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ یہاں گلگت پہنچ گئے ہیں۔ ۔ مسلمانوں کے مقدس مقامات خانہ کعبہ ، مسجد نبوی ، بیت المقدس ، کربلا، اور نجف اشرف بھی حکومت کے حکم پر بند ہیں۔ پاکستان کے سارے مساجد ، خانقاہیں، اور امام بارگاہیں بھی بند ہیں۔ ساری دنیا اس وقت ایک نفسیاتی کیفیت سے گزر ر رہی ہے۔ کوئی ذی شعور انسان گھر سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سماجھی دوری اور گھر میں پڑے کام سے فراغت میں وہم بڑھتا جارہا ہے۔ کورونا وائرس کے خوف سے نکلنے کے لئے حکمران وقت ، بڑے بڑے سائنسدان ، ڈاکٹرز اور علما اقدامات کے بارے سوچ و بیچار میں مصروف عمل ہیں۔ ہر طرف خوف اور ڈر کا سما ہے۔ حکمران فیصلے لینے میں بھی نفسیاتی کیفیت کے شکار ہیں۔ فوج کے دستے انتظامیہ کی مدد کے لئے کوشاں ہیں۔ مختلف شہروں میں قرنطینہ کے مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ مشتبہ کورونا کیسز کی چھان بین جاری ہے۔ جس کو بھی مشتبہ کورونا مریض قرار دیا جاتا ہے اس کو قرنطینہ میں لے جایا جاتا ہے ، اسکا ٹیسٹ کیا جاتا ہے، اگر رپورٹ مثبت ہو تو اس کو قرنطینہ میں لے جاکر انتہائی نگہداشت میں رکھا جاتا ہے جبکہ منفی رپورٹ کی صورت میں گھر بیجھدیا جاتا ہے۔ فوج اور انتظامیہ داخلی اور خارجی راستوں کی کڑی نگرانی میں ہیں۔ عجیب اتفاق ہے لوگ دم اور تعویذ لینے سے اجتناب کررہے ہیں، گویا سارے پیروں اور عاملوں کی چھٹی ہوچکی ہے۔ لوگ سماجھی فاصلوں کو بڑھا رہے ہیں ایک دوسرے کو چھونا تو دور قریب بھی جانے سے اجتناب کررہے ہیں۔ حکمران اور قائدین کے سیاست کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے مخیر حضرات خیرات دینے سے بھی اجتناب کررہے ہیں۔ عوامی اور حکومتی حلقوں نے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو مسیحاؤں اور قومی ہیروز کے درجے پر فائز کیا ہوا ہے۔ ہمارے صوبے میں اس وبا سے پہلا جا بحق ہونے والا مریض بھی چلاس دیامر کا ایک نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض ہے۔ حکومت نے کورنا کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض کو قومی ہیرو قرار دیا ہے اور اعلی ملکی تمغہ کے لئے نامزد کیا ہے۔ فلائٹ آپریشن برائے اندرون اور بیرون ملک بھی بند ہے۔ عوام کو اپنے گھروں میں محدود رہنے کی تلقین جاری ہے۔ لاوڈ اسپیکر کے ذریعے لوگوں کو گھروں سے نہ نکلنے کے اعلانات جاری ہیں۔ حکمران حالات کے کنٹرول ہونے کے دعوے فرمارہے ہیں۔ پولیس ، فوجی ، اور عوام ڈاکٹروں کو جگہ جگہ سلام پیش کرتے ہوئے ٹی وی اور سوشل میڈیا کے زریعے نظر آتے ہیں ۔لاک ڈاون کے باعث دوسرے ییماریوں سے متاثر مریض پریشان حال ہیں۔ حکومت شہریوں سے گھروں میں رہنے کے لئے تعاون کی درخواست کر رہی ہے۔ اب تک ملک میں تقریباً دو سو قرنطینہ کے مراکز قائم ہوچکے ہیں۔ حتی کہ بلوچستان میں تین سو لوگوں کے لئے ایک کنٹینر کو قرنطینہ میں تبدیل کیا چکا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق قرنطینہ میں رکھے گئے زیادہ تر لوگوں کی تعداد ایران سے واپس پاکستان آنے والے زائرین کی ہے۔ جبکہ اس سے پیشتر حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ چین میں پھنسے پاکستانی واپس نہیں آسکتے یہ بہر حال ایک اچھا فیصلہ تھا جبکہ اس فیصلے پر کافی ردعمل بھی آیا تھا۔ بتا یا جاتا ہے کہ تقریباً دس لاکھ کم و بیش لوگ بیرون ممالک سے پاکستان آچُکے ہیں۔ ایران کے علاوہ دوسرے ممالک سے آنے والے پاکستانی میں سے کتنے لوگ اس وبا سے متاثرہ تھے یہ ایک معمہ ہے ، اور ان سے ملنے والے کتنے مزید لوگ متاثر ہیں یہ بھی پتہ نہیں۔ اب تک کی سرکاری رپورٹ کے مطابق مملکت خداداد پاکستان میں اس وبا سے متاثرہ لوگوں کی تعداد پندرہ سو سے زیادہ ہے جس میں سے ایک درجن سے زائد ہلاکتیں رپورٹ ہیں۔ حکومت کا دعوٰی ہے کہ اس وبا کے تشخیص کے لئے درجنوں لیبارٹریوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ آئندہ ہفتے کی اعداد شمار کے بارے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ حکومت بس یہی کہتی ہے کہ کورونا کا علاج ۔۔ احتیاط ۔ احتیاط اور بس احتیاط۔۔۔۔ہے ۔۔ اب تک لیبارٹری ٹیسٹنگ کی صلاحیت بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کی برابر ہے۔ پنجاب میں بروقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اس وبا سے متاثر مریضوں کی تعداد باقی صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ بلکہ یہ تاثر ہے کہ لاہور اس وقت اس وبا کا مرکز بنا ہوا ہےجہاں پر ابھی تک مکمل لاک ڈاؤن نہیں ہے۔ وفاقی حکومت یہ بیانیہ دے رہی ہے کہ ہمیں غریبوں کی فکر ہے۔ حالانکہ لوکل ٹرانسمٹ کے بھی خاطر خواہ مثبت کیسز آرہے ہیں۔ سندھ میں بروقت لاک ڈاون کی وجہ سے تعداد کی شرح میں کمی واقع ہورہی ہے ۔ لیکن ابھی تک کے اطلاعات کے مطابق سندھ میں صرف پانچ ہزار ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔ یہ اطلاع اطمینان بخش اس لئے نہیں ہے کہ چین میں روزانہ دس ہزار جبکہ کوریا میں روزانہ بیس ہزار ٹیسٹ ہورہی ہیں جس کے وجہ سے ان ممالک نے اس بے رحم وبا سے تقریباً نجات پائی ہے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ چین پاکستان کو اس وبا میں طبی امداد بشمول ڈاکٹرز اور ٹیسٹنگ کٹ کے پہنچا دیا ہے۔ پوری دنیا میں متاثرہ افراد کی تعداد اب تک چھ لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ جس میں سے تقریباً تیس ہزار ہلاکتیں رپورٹ ہیں۔ اور ہلاکتیں ایک خاص شرح سے روز بہ روز بڑھ رہی ہیں۔ دنیا کے امیر و غریب ، شہزادے اور حکمران بھی اس وبا کے لپیٹ میں آچُکے ہیں۔ ہر سطح پر حکومتی اقدامات اور انتظام کا جائزہ لیا جارہا ہے ایک عام آدمی کو اعداد و شمار کا اندازہ لگانے کے لئے قارئین کے نذر تاریخ کے اوراق سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے جس سے خود اندازہ لگائیں کہ حساب کتاب کیسے لگائے جا سکتے ہیں:۔
“ برصغیر میں تقریباً سترہ سو سال قبل گپتا مہاراجوں کی حکومت قائم تھی اور اس دور میں ’’سیسا‘‘ نامی ایک شخص نے شطرنج کا کھیل ایجاد کیا۔ سیسا شطرنج کا کھیل لے کر بادشاہ کے پاس حاضر ہوا تو بادشاہ بہت خوش ہوا اور اسی خوشی کے بدلے میں سیسا سے پوچھا کہ’’مانگو کیا مانگتے ہو‘‘سیسا نے بادشاہ سے عرض کیا کہ ’’حضور چاول کے چند دانے وہ بھی اس طرح کہ بساط کے 64 خانے بھر دیں لیکن میرے فارمولے کے مطابق‘‘بادشاہ نے پوچھا ’’یہ فارمولا کیا ہے‘‘سیسا بولا ’’آپ پہلے دن پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھ کر مجھے دے دیجئے،دوسرے دن دوسرے خانے میں پہلے خانے کے مقابلے میں دگنے چاول یعنی چاول کے دو دانے رکھ دیجئے، تیسرے دن تیسرے خانے میں دوسرے خانے کے مقابلے میں پھر دگنے چاول یعنی چار دانے رکھ دیں اور اسی طرح آپ ہر خانے میں چاولوں کی مقدار کو ڈبل کرتے چلے جائیں حتی کہ چونسٹھ خانے پورے ہو جائیں‘‘۔ بادشاہ نے سیسا کے مطالبے پر قہقہہ لگایااور یہ شرط قبول کرلی ۔ یہ بظاہر تو آسان سا حساب و شمار تھا لیکن حقیقت میں یہ دنیا کا مشکل ترین معمہ تھا۔بادشاہ نے پہلے دن شطرنج کے بساط کے پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھا اور اسے اٹھا کر سیسا کو دے دیا، سیسا چلا گیا، دوسرے دن دوسرے خانے میں چاول کے دو دانے رکھ دئیے گئے، تیسرے دن تیسرے خانے میں چاولوں کی تعداد چار ہو گئی، چوتھے روز آٹھ چاول ہو گئے، پانچویں دن ان کی تعداد 16ہو گئی، چھٹے دن یہ 32ہو گئے، ساتویں دن یہ 64ہو گئے، آٹھویں دن یعنی شطرنج کے بورڈ کی پہلی قطار کے آخری خانے میں 128چاول ہو گئے، نویں دن ان کی تعداد 256ہو گئی ، دسویں دن یہ 512ہو گئے، گیارہوں دن ان کی تعداد 1024ہو گئی، بارہویں دن یہ 2048ہو گئے،تیرہویں دن ان کی تعداد 4096، چودہویں دن یہ 8192ہو گئے، پندرہویں دن یہ 16384ہو گئے۔ سولہویں دن یہ 32768 چاول کے دانے ہو گئے اور یہاں پہنچ کر شطرنج کی دو قطاریں مکمل ہو گئیں اور بادشاہ کو تھوڑا تھوڑاسا اندازہ ہونے لگا کہ وہ مشکل میں پھنس چکا ہے کیونکہ وہ خود اور اس کے سارے وزیر اور عمال سلطنت سارا دن بیٹھ کر چاول گنتے رہتے تھے۔شطرنج کی تیسری قطار کے آخری خانے تک پہنچ کر چاولوں کی تعداد 80لاکھ تک پہنچ گئی اور بادشاہ کو چاولوں کو میدان تک لانے اور سیسا کو یہ چاول اـٹھانے کیلئے درجنوں لوگوں کی ضرورت پڑ گئی۔قصہ مختصرجب شطرنج کی چوتھی قطار یعنی 33واں خانہ شروع ہوا توپورے ملک سے چاول ختم ہو گئے، بادشاہ حیران رہ گیا ، چنانچہ سلطنت کے سارے ریاضی دا ن اور مہندسین بلوائے اور ان سے پوچھا کہ شطرنج کے 64خانوں کیلئے کتنے چاول درکار ہونگےاور ان کیلئے کتنے دن چاہئیں۔ بادشاہ کے سارے ماہرین ہندسیہ اور ریاضی دان کئی دنوں تک بیٹھے رہے لیکن وقت اور چاولوں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگا سکے۔ یہ اندازہ تقریبا سترہ سو سال بعد بل گیٹس نے لگایا تھا۔بل گیٹس کا خیال ہے کہ اگر ہم ایک کے ساتھ انیس19زیرو لگائیں تو شطرنج کے 64خانوں میں اتنے چاول آئیں گے۔بل گیٹس کا کہنا ہے کہ اگر ہم ایک بوری میں ایک ارب چاول بھریں تو ہمیں چاول پورے کرنے کیلئے 18ارب بوریاں درکار ہوں گی۔ آپ بھی یہ حساب و شمار کر کے دیکھ لیں ، آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔مگر یہ یاد رکھئیے کہ یہ حساب عام کلکولیٹر کے ذریعے نہیں لگایا جا سکے گا، یہ صرف کمپیوـٹر کے ذریعے ہی کلکولیٹ کیا جا سکتا ہے۔اس حساب و شمار کو مینجمنٹ کی زبان میں چیس بورڈ رائس یاسیکنڈ ہاف آف دی چیس بورڈ کہا جاتا ہے۔شطرنج بنانے والے اور گپتا بادشاہ کو اس خوفناک مسئلے میں پھنسانے والے سیسا کو بادشاہ نے شطرنج کی چوتھی قطار پر پہنچ کر بہر حال گرفتار کروا دیا تھا کیونکہ بادشاہ کو شطرنج کے بساط کے وسط میں پہنچ کر چاول پورے کرنے کیلئے ساڑھے پانچ دن لگ گئے تھے۔وہ اگلے خانوں کی طرف بڑھا تو ملک سے چاول ختم ہو گئے، جس سے بادشاہ جھلا اٹھا اور انتہائی غصے میں شطرنج بنانے والے کا سر قلم کروا دیا اور یوں شطرنج کا موجد قتل کیا گیا لیکن شطرنج کی سر دردی آج تک قائم ہے۔
اگر ہم شطرنج کی بساط والا واقعہ سمجھ لینے کے بعد بھی احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کریں اور سماجھی دوری اختیار نہ کریں تو یہ وبا دوسروں میں ایک کے بعد دو اور چار کی صورت میں پھیلے گی اور مسلسل پھیلتا جائے گا حتی کہ زمیں میں سب ہلاک ہو جائیں۔ حکمران کے رعایا پر بڑے موثر اثرات ہوتے ہیں ، اگر حکمران ہر دلعزیز ہو تو رعایا جلدی بات مان جاتی ہے ۔ اگر حکمران لوگوں میں ناپسندیدہ ہو تو وہ اس کی بات قطعا نہیں مانتی ، لہذا ایسی صورت میں احتیاطی تدابیر اپنانے کے لئے حکمرانوں کو رعایا پر سختی کرنی پڑتی ہے جس کا واحد حل کرفیو یا لاک ڈاون ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی قرآن میں حکم دیتے ہیں کہ جو بات تمھارے فائدے میں ہو اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مخالف نہ ہو تو اولی الامر کی اطاعت فرض عین ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا○ (النساء:۵۹)
ترجمہ؛”اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور والیانِ امر کی جو تم میں سے ہوں. پھر اگر باہم جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹا دو اللہ اور رسولؐ کی طرف اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور آخرت کے دن پر یہ اچھا ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی بہتر ہے۔۔”۔۔۔ یہ آیت مبارکہ اس اعتبار سے قرآن حکیم کی اہم ترین آیات میں شمار ہوتی ہے کہ اسلامی ریاست کے اندر جو کچھ بھی دستوری اور قانونی نظام قائم کیا جائے گا اس کے لئے راہنمائی کا یہ گویا سب سے بڑا سر چشمہ ہے. اللہ کی اطاعت اور رسولؐ کی اطاعت کے بارے میں تو کوئی بحث نہیں اور نہ شک ہے ‘ مگر اولی الامر کی اطاعت کے معاملے کو تھوڑا سا تجزیہ کر کے سمجھ لینا ضروری ہے۔ اطاعت کی دو لازمی شرائط (۱) ؛ آیت مبارکہ میں “اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ” کے الفاظ آئے ہیں‘ یعنی اولی الامر جو خود تم میں سے ہوں. اولی ٔامر اگر غیر مسلم ہو تو اس کا اطلاق مجبوری کے تحت مشکل ترین اور معروضی حالات میں ہو گا اور ایسے حکمران کی اطاعت اگر بطور خوشآمد کی جائے گی تو اس سے اسلام کی نفی ہو جائے گی. غیر مسلم حکمران کی اطاعت مجبوراً تو کی جاسکتی ہے‘ برضا و رغبت نہیں! مثال کے طور پر اگر کسی غیر مسلم حکمران نے مسلمانوں کا کوئی علاقہ بزورِ شمشیر فتح کر لیا ہو یا کسی نے کسی مسلمان کو جبراً گرفتار کر کے غلام بنا لیا ہو‘ جیسے افریقہ سے ہزاروں مسلمانوں کو جبری طور پر غلام بنا کر لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر امریکہ لے جایا گیا‘ تو ایسی صورت میں ایک مسلمان ایک غیرمسلم اولی الامر کی اطاعت پر مجبور ہے۔ اولی الامر کے بارے میں اسلامی مفسرین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ھے: بعض مفسرین کہتے ہیں ؛ (الف):-کہ “اولوا الامر ” سے مراد ہر زمان و مقام کے حکام وقت اور بادشاہ ہیں اور اس میں کسی طرح کا کو ئی استثنا نہیں ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کی پیروی کریں۔ ( ب) :- کہ اولوا الامر سے مراد عوام الناس کے نمائندے، حکام وقت، علمااور صاحبان منصب ہیں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا حکم اسلامی قوانین کے برخلاف نہ ہو۔ (۲) ؛ اللہ جل سبحانہٗ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت مستقل بالذات ہے‘ لیکن اولی الامر کی اطاعت اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے تابع اور اس سے مشروط ہے. یہ اطاعت کبھی بھی غیر مشروط نہیں ہو سکتی‘ بلکہ ہمیشہ سے مشروط رہی ہے اور ہمیشہ مشروط ہی رہے گی. یعنی اولی الامر میں اتباع رسولﷺ کا ہو نا لازمی ہے ’’اولی الامر‘‘ کون ہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اولی الامر کون ہیں؟ ہم اس کا بھی تجزیہ کرتے ہیں. اولی الامر معاشرتی نظام میں بھی ہیں اور سیاسی نظام میں بھی. چنانچہ گھر کا سربراہ اپنے گھر کے لئے اولی الٔامر ہے. اسی طرح معاشرتی نظام میں ہر جگہ درجہ بدرجہ ہر شخص کی جو بھی حیثیت ہے‘ اس کے اعتبار سے وہ اپنے دائرے اور حلقہ احباب کے اندر صاحب ِ امر ہے. لہذا اطاعت کا سلسلہ صرف حاکم ِ اعلیٰ تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے. بیوی کے لیے شوہر والی ٔامر ہے‘ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا: ۔
فَالصّٰلِحٰتُ قٰـنِتٰت ○ (النساء:۳۴)
ترجمہ: ” کہ نیک بیویاں وہی ہیں جو اپنے شوہروں کی فرمانبردار ہیں”۔۔۔۔۔۔ بیوی کے لیے شوہر کے ہر حکم کی اطاعت لازم ہے‘ اِلا یہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت سے متصادم ہو. ایسی صورت میں لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ کا ابدی اصول مدنظر رکھا جائے گا. مزید برآں‘ ماتحت امراء کا شمار بھی اولی الامر میں ہوتا ہے. ایسے امراء رسول اللہﷺ کے زمانے میں بھی ہوتے تھے‘ جیسے کہیں کوئی لشکر بھیجا جاتا تو اس کا کسی کو سپہ سالار مقرر کیا جاتا‘ کہیں کوئی چھوٹا دستہ بھیجا جاتا تھااور کسی کو امیر بنایا جاتا. مذید تفصیل کے لئے حضورﷺ کی حیاتِ طبیہ کے دو واقعات قارئین کے نذر ہیں : کہ غزوۂ اُحد میں ۳۵ حضرات کی طرف سے اپنے امیر حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی حکم عدولی کا واقعہ بہت مشہور ہے. انہیں رسول اللہﷺ نے پچاس تیر اندازوں کا امیر مقرر کر کے ایک درّے پر متعین کیا تھا اور ان حضرات کو حکم دیا تھا کہ آپ لوگ اس درّے کو مت چھوڑیں خواہ ہمیں شکست ہو جائے‘ ہم سب قتل ہو جائیں اور آپ لو گ دیکھیں کہ پرندے ہمارا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں. ان حضرات نے جب اپنے لشکر کو فتح سے ہمکنار ہوتے اور دشمن کو راہِ فرار اختیار کرتے دیکھا تو درّے کو چھوڑ کر جانے لگے‘ کیونکہ ان کے خیال میں حضورﷺ نے درّے کو نہ چھوڑنے کاجو حکم دیا تھا وہ شکست کی صورت میں تھا. لوکل کمانڈر حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ انہیں روکتے رہے‘ لیکن ان پچاس میں سے ۳۵ صحابہ کرامؓ درّے کو چھوڑ گئے. ماتحت امیر کے حکم کی خلاف ورزی کی ، جس کی سزا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوری طو ر پر یہ دی گئی کہ جیتی ہوئی جنگ کا پانسہ پلٹ دیا گیا. سورۂ آل عمران میں اس کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے:-
وَ لَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَ تَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ عَصَیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰىکُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ○ ؕ (آیت ۱۵۲)
ترجمہ: “اور اللہ نے تو تمہیں اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تھا جب تم انہیں اس کے حکم سے گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے. یہاں تک کہ تم ڈھیلے پڑے اور تم نے نظم کو توڑا اور تم نے نافرمانی کی‘ بعد اس کے کہ میں تم کو وہ چیز دکھا چکا جو تمہیں بہت محبوب ہے۔ یعنی فتح”۔۔۔۔؛ یہاں نافرمانی سے مراد رسول اللہﷺ کی نافرمانی نہیں‘ بلکہ ماتحت کمانڈر کی نافرمانی ہے‘ کیونکہ رسول اللہﷺ کے حکم کی تو انہوں نے تاویل کر لی تھی. اسی طرح ایک بار رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایک دستہ کہیں بھیجا اور ان میں سے ایک صاحب کو اس کا امیر مقرر کیا.یہ صاحب ذرا جلالی مزاج کے مالک تھے‘ کسی بات پر اپنے ساتھیوں سے ناراض ہو گئے اور یہ ناراضگی اس حد تک پہنچی کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو ایک بہت بڑا گڑھا کھودنے کا حکم دیا. جب انہوں نے گڑھا کھود دیا تو ان سے کہا کہ اس کے اندر لکڑیاں جمع کرو. لکڑیاں جمع کر دی گئیں تو انہیں آگ لگانے کا حکم دیا. جب آگ بھڑک اٹھی تو ساتھیوں سے فرمایا کہ اب اس آگ کے اندر کود جاؤ! اس پر ساتھیوں نے کہا کہ اس آگ سے بچنے کے لیے تو ہم نے محمد(ﷺ ) کا دامن تھاما ہے‘ ہم اس میں داخل ہونے کو تو تیار نہیں ہیں. جب واپس آ کر یہ معاملہ رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو حضورؐ نے ان کی تصویب کی اور فرمایا کہ اگر یہ لوگ اپنے اس امیر کا حکم مان کر آگ میں کود پڑتے تو ہمیشہ آگ ہی میں رہتے. اس لیے کہ یہ خود کشی ہوتی جس کی سزا خلود فی النار ہے. چنانچہ ماتحت امراء کی اطاعت رسول اللہﷺ کے زمانے میں بھی اللہ اور رسول کے حکم کے تابع تھی‘ اس دائرے سے خارج نہ تھی اور آپؐ کے بعد بھی یہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ تا قیامت مشروط رہے گی. ان شا اللہ۔ مندرجہ بالا بحث سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ رعایا حکمران کی بات مان لیں اور کورنا وائرس کے پھیلنے کے پیش نظر احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ اس جان لیوا مرض سے نبرد آزما ہونے کے لئے سماجھی فاصلہ رکھیں اور ڈاکٹروں کے ہدایات کے مطابق عمل کریں ۔ گھروں سے مت نکلیں اور نہ ہی گھر کسی کوآنے کی اجازت دیں اور اجتماعات سے گریز کریں۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ عوام کو گھر میں رہنے پر مجبور کریں اور گھر پر ہی کورونا وائرس کے ٹیسٹنگ کرنے کے لئے فوری اقدامات کریں۔ اسلام انسانیت پر احسان کرنے والا مذہب ہے اور ہمارے آقا رسول کریم محمد مصطفی احمد مجتبٰی ﷺ محسن انسانیت ہیں اور آپ ﷺ کی زندگی ہمارے لئے حکمرانی ، اخلاق ، رہن سہن اور عبادت خداوندی کا بہترین نمونہ ہے۔ارباب اختیار کو چاہئے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اللہ کا حکم اور نبی کی سنت اور تعلیمات کو مد نظر رکھیں ۔۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:-
وأمرھم شوریٰ بینھم (شوریٰ : ۳۶) وشاورھم فی الأمر (آل عمران : ۱۵۹
رسول اللہ کو حکم فرمایا گیا کہ آپ اہم مسائل میں اپنے رفقاء سے مشورہ کیا کیجئے
حالاںکہ رسول اللہ کو وحی جیسا ذریعہ علم حاصل تھا اور آپ کو بظاہر مشورہ کی ضرورت نہیں تھی ؛ لیکن پھر بھی آپ کو مشورہ کی تلقین فرمائی گئی ؛ تاکہ اُمت اس کو اپنے لئے اُسوہ بنائے ۔
- قومی ہیرو شہید ڈاکٹر اسامہ ریاض کون تھے۔
نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض مریضوں کی سکریننگ کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے خود کورونا وائرس کا شکار ہونے کے باعث جاں بحق ہوگئے ہیں۔ تفصیلات کے ڈاکٹر اسامہ ریاض ضلع گلگت کے سب ڈویژن جگلوٹ سئی میں ایران اور عراق سبراستہ تافتان ے آنے والے زائرین کی سکریننگ کی ڈیوٹی پر تعینات تھے اور سب ڈویژن جگلوٹ سئی کے قصبہ سونیار میں واقع سکریننگ کیمپ میں خدمات سر انجام دیتے ہوئے کورونا وائرس کا شکار ہوئے ۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض میں کورونا وائرس کی تصدیق چند دن قبل ہوئی تھی۔ یہ گلگت بلتستان میں کورونا سے ہونے والی پہلی ہلاکت ہے۔گلگت بلتستان کے محکمہ اطلاعات نے مختلف خبررساں ایجنسیوں کو ان کے جان بحق ہونے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض جام شہادت نوش کرگئے ہیں۔ حکومت گلگت بلتستان نے اس شہید نوجوان ڈاکٹر کو قومی ہیرو کا درجہ دیا ہے۔ ڈاکٹر اسامہ ریاض کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے علاقے چلاس سے ہے۔ شہید قومی ہیرو ڈاکٹر اسامہ ریاض کے والد ریاض حسین ڈپٹی ڈائریکٹر لوکل گورنمنٹ اینڈ رورل ڈویلپمنٹ کے فرزند ہیں ۔ شہید ڈاکٹر اسامہ محض ڈیڑھ سال قبل گلگت بلتستان محکمہ صحت میں بطور ڈاکٹر تعینات ہوئے تھے۔وہ جمعے کی رات سے گلگت میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں انتہائی تشویش ناک حالت میں زیرعلاج تھے۔ ان کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر انہیں ونٹیلیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔
گلگت بلتستان کے وزیر قانون اور کورونا کے لیے فوکل پرسن محمد اورنگ زیب نے بی بی سی کو بتایا کہ جب تفتان سے متاثرین نے آنا شروع کیا تو اس وقت گلگت بلتستان حکومت نے کئی قرنطینہ مرکز قائم کیے تھے۔ جن میں سے ایک میں نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض بھی فرائض انجام دے رہے تھے۔
ڈاکٹر اسامہ ریاض، تفتان سے گلگت بلتستان آنے والے زائرین کے پڑی بنگلہ اور سونیا جگلوٹ سئی کے مقام پر قائم کردہ قرنطینہ مرکز میں اس وائرس سے متاثر ہونے سے قبل خدمات انجام دے رہے تھے۔
اس صورتحال میں ڈاکٹر اسامہ ریاض اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر مریضوں کو علاج معالجہ فراہم کرتے رہے تھے۔ ڈاکٹر اسامہ اصل ہیرؤ ہیں۔ یہ اس قابل ہیں کہ ان کی قدر دانی کی جائے۔ ہم ان کو سلام پیش کرتے ہیں۔‘
ڈاکٹر اسامہ اسکریننگ پہ معمور تھا جبکہ ان کے پاس حفاظتی کٹ تک نہیں تھی اس کی قیمت کے طور پہ ڈاکٹر اسامہ کو اپنی جان کی قربانی دینی پڑی۔ان کی خدمات اور قومی میڈیا ، نجی ٹی چینلز کی بے حسی رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیگی۔
مرحوم ڈاکٹر اسامہ کے عزیزوں کا کہنا تھا کہ وہ بحیثیت ڈاکٹر سکریننگ کی ڈیوٹی پر مامور تھے جس کے دوران وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔ جس کے بعد انہیں آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ تاہم کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے ڈاکٹر اسامہ کو پہلا پاکستانی ڈاکٹر قرار دیا جا رہا ہے جو کرونا کے خلاف بحیثیت ڈاکٹر جاں بحق ہوا ہے۔
دوسری جانب چیلاس کے ایک رہائشی کا خبر رساں ادارے سے گفتگو میں کہنا تھا کہ آج کے دن تک اسامہ کے اہل خانہ کو ان کے بیٹے کی زندگی اور موت کے حوالے سے کوئی خبر نہیں دی گئی تھی جبکہ سوشل میڈیا پر انکی موت کے خبریں گردش کر رہی تھیں۔ تاہم اسامہ کی موت کلینیکل لحاظ سے جمعہ کو ہی واقع ہو گئی تھی۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر اُنہیں زبردست خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے اور اُنہیں گلگت بلتستان کا قومی ہیرو قرار دینے کا مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے سوشل میڈیا صارفین اور مقتدر حلقوں کی جانب سے یہ بھی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ اُنہیں بغیر کسی میڈیکل کیٹ اور فقط ماسک پہنا کر ڈیوٹی پر مامور کرنے والے ذمے داران کے خلاف کاروائی کی جائے۔۔
خاندانی ذرائع کے مطابق تقریبا ایک ہفتہ قبل ڈاکٹراسامہ نے ایف سی پی ایس پارٹ ون کا امتحان بھی پاس کرلیا تھا۔ڈاکٹر اسامہ نے قائداعظم میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی تھی جبکہ اگست 2019 میں انہوں نے پی پی ایچ آئی گلگت میں بطور ڈاکٹر کام شروع کیا تھا۔ انہوں نے اسی سال فروری 2020 میں ایف سی پی ایس پارٹ ون کا امتحان بھی پاس کیا اور جولائی میں سپیشلائزیشن کیڈر میں انڈکشن کے منتظر تھے۔
ڈاکٹر اسامہ ریاض کون تھے؟
وہ بہت پر عزم تھے، اور اس مرض کے خلاف انتہائی حوصلے سے لڑ رہے تھے
قریبی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر اسامہ کہتے تھے ’میں نے تو اپنا فرض ہر صورت میں اد اکرنا ہے چاہے مجھے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔‘
لوگوں نے بتایا کہ ’ڈاکٹر اسامہ ریاض نے اپنی ایک ٹیم بنا لی تھی۔ ان کے پاس کوئی زیادہ حفاظتی سہولتیں بھی نہیں تھیں مگر پھر بھی دن رات کام کرتے تھے۔‘
’ان کی بیماری سے تین روز قبل جب ان کی حلقہ احباب سے بات ہوئی تھی تو اس وقت ڈاکٹر اسامہ ریاض بہت زیادہ پریشان تھے کہتے تھے کہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح ان زائرین کو بچا لیں یہ نہ ہو کہ یہ مرض پھیل جائے تو پھر بہت ہی زیادہ مشکلات ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر اسامہ ریاض کے قریبی دوست بتاتے ہیں کہ ’جب ایران سے زائرین کی آمد شروع ہوئی تو اس وقت ڈاکٹر اسامہ ریاض اپنے ایف ایس سی پارٹ ٹو کے داخلے کے سلسلے میں اسلام آباد میں تھے۔ جب انھیں پتا چلا کہ گلگت بلتستان میں کورونا وائرس کے متاثرہ افراد کے لیے قرنطینہ مرکز قائم کیے جا رہے ہیں تو انھوں نے فوراً واپس آ کر کیمپ کا چارج سنبھال لیا تھا۔
خاندان کے لوگوں نے بتایا کہ ’جب تفتان سے زائرین کی آمد شروع ہوئی تو اس کے بعد ایک دو مرتبہ ڈاکٹر اسامہ کو فون کر کے خیریت معلوم کرنے کی کوشش کی مگر انھوں نے اس پیغام کے ساتھ فون کاٹ دیا کہ میں مصروف ہوں فارغ ہو کر فون کرتا ہوں۔‘
خاندانی ذرائع کا کہنا تھا کہ ’ہمارے خاندان میں اور بھی ڈاکٹر موجود ہیں جب کورونا کی صورتحال پیدا ہوئی تو ہم نے ڈاکٹر اسامہ ریاض کو فون کیا اور کہا کہ صورتحال یہ ہے کہ اس وقت ینگ ڈاکٹرز کو فرنٹ لائن پر لڑنا پڑے گا آپ کے کیا ارادے ہیں تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ میں تو پوری طرح تیار ہوں اور اپنا فرض اچھے طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کروں گا۔‘
ڈاکٹر اسامہ اپنے لوگوں کو بچانا چاہتے تھے
گلگت بلتستان کے محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر اسامہ ریاض کو مکمل سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ ہر قسم کے ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ کوئی غفلت نہیں برتی گئی۔
جب گھر والوں نے ڈاکٹر اسامہ ریاض کو بے ہوشی کی حالت میں پایا تو سب سے پہلے ان کو سی ایم ایچ گلگت پہنچایا گیا۔ جہاں پر ان کو فی الفور وینٹیلیڑ پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد ان کو گلگت ہسپتال منتقل کیا گیا۔ مگر گلگت ہسپتال میں نیورو سرجن دستیاب نہیں تھے۔ وہاں پر سی ٹی سکین اور ایم آئی آر مشین دو ماہ سے خراب پڑی تھی۔ لوگوں نے بار بار گزارش کی، سب سے کہا کہ کسی بھی صورت میں ان کو اسلام آباد ایئر لفٹ کیا جائے۔ نیورو سرجن کو بلایا جائے، مگر افسوس کہ یہ ساری سہولتیں ان کو میسر نہیں تھیں۔‘
گلگت ہسپتال میں مناسب سہولتیں دستیاب نہیں
خاندان کے ایک فرد کے مطابق ’بیس فروری کو ڈاکٹر اسامہ ریاض نے پہلی ہی مرتبہ میں ایف ایس سی پی پارٹ ون کلیئر کر لیا تھا۔ وہ بہت ذھین تھا، اپنی پڑھائی اور پیشے سے انتہائی مخلص تھا۔‘ ’اس کا خیال تھا کہ وہ ایف ایس سی پی کرنے کے بعد امریکہ جائے گا جہاں پر کچھ کورسز کرنے کے بعد واپس گلگت بلتستان آکر اپنے ہی لوگوں کی خدمات انجام دے گا۔ ڈاکٹر اسامہ تقریباً ایک سال سے زائد عرصہ سے گلگت بلتستان میں خدمات انجام دے رہے تھے۔
ڈاکٹر اسامہ ریاض نے اپنی ابتدائی تعلیم چلاس ہی سے حاصل کی جبکہ اس کے بعد گلگت پبلک سکول ساینڈ کالج سے امتیازی نمبروں سے انٹرمیڈیٹ پاس کرنے کے بعد سال 2013/14 میں بہاولپور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ بہاولپور ہی سے ہاوس جاب مکمل کرنے بعد گلگت بلستان محکمہ صحت سے منسلک ہو گئے تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون اللہ .
- کرنل مجیب الرحمن شہید کون تھے
کرنل مجیب الرحمن شہید ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹانک کے قریب دہشتگردوں کے خلاف آپریشن میں شہید ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ○ پاک فوج کے اس افسر نے شہادت سے قبل دو انتہائی سفاک دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا جو کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشتگردی کی بڑی کاروائی کرکے کئی بے گناہوں کی جانیں لینے کی تیاری کررہے تھے۔ جس وقت کرنل مجیب الرحمن کو شدید زخمی حالت میں سی ایم ایچ راولپنڈی منتقل کیا گیا تو اُن کے بارہ سالہ بیٹے نے باپ سے لپٹ کر شکایت کی کہ یہ چیٹنگ ہے کیونکہ آپ نے کہا تھا کہ ہم دشمنوں کا مقابلہ کرینگے، اس منظر کو دیکھ کر وہاں موجود دیگر لوگ اپنے جذبات پر قابو نہ پاسکے اور ہر شخص کی آنکھ اشکبار ہوگئی۔ بعد ازاں جب کرنل مجیب الرحمن کے جسد خاکی کو تدفین کیلئے گلگت لے جایا جارہا تھا تو شہید کرنل کے بارہ سالہ جگر گوشے نے ایک بار پھر معصومانہ انداز میں کمانڈر کو درخواست کی کہ انکل میرے دوسرے بہن بھائیوں کو نہ بتائیں کہ پاپا کو کیا ہوا ہے جس پر وہاں موجود ہر شخص بلک بلک کر آبدیدہ ہوا ۔
کرنل مجیب الرحمن شہید کی نماز جنازہ منگل کے روز دس بجے آرمی ہیلی پیڈ گلگت میں ادا کی گئی۔نماز جنازہ شمالی علاقہ جات کے فورس کمانڈر میجر جنرل ڈاکٹر احسن محمود خان نے خود پڑھائی جس میں سابق کور کمانڈر لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ ہدایت الرحمن، وزیراعلی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان سمیت سول اور فوجی حکام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اسی روز بعد از نماز ظہر بوقت دو بجے کرنل مجیب الرحمن شہید کی نماز جنازہ انکے آبائی قصبہ بونجی میں پھر پڑھائی گئی جس میں ہزاروں کی تعداد میں فرزندان توحید نے شرکت کی۔ ان کو بونجی میں انکے آبائی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
شہید کرنل مجیب الرحمن ، گلگت بلتستان کی ہردلعزیز شخصیت ڈی آئی جی ریٹائرڈ میر افضل خان کے فرزند ارجمند ہیں جبکہ کرنل ریٹائرڈ حبیب الرحمن انکے بڑے بھائی ، معروف سیاسی اور کاروباری شخصیت عتیق الرحمن جڑواں بھائی اور ایکسئین مبشر حسن، معروف بینکار اشفاق حسن، میجر تہذیب الحسن چھوٹےبھائی ہیں۔
شہید کرنل مجیب الرحمن کےپسماندگان میں ایک بیوہ ، تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ سب سے بڑے بیٹے کی عمر بارہ سال کے قریب ہے۔کرنل مجیب الرحمٰن نے پی ایم اے 91 لانگ کورس میں کمیشن حاصل کیا۔ ان کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع استور کے علاقہ بونجی سے ہے۔ کرنل مجیب الرحمن وطن عزیز کی سلامتی کے لیے امر ہوئے۔۔۔۔۔سلام ہو قوم کے اس سپوت پر جس نے ہمارے کل کے لئے اپنا آج قربان کردیا
، ۔۔
- سیاست
تالیف و ترتیب : بوسکندر رشید احمد گبارو
لغت میں سیاست کے معنی ٰ: حکومت چلانا اور لوگوں کی امر و نہی کے ذریعہ اصلاح کرنا ہے۔
اصطلاح میں: فن حکومت اور لوگوں کو اصلاح سے قریب اور فساد سے دور رکھنے کو سیاست کہتے ہیں
۔ قرآن میں سیاست کے معنی ٰ: حاکم کا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنا، معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دینا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا سود ی کاروبار اور رشوت وغیرہ کو ممنوع قرار دینا ہے’ دین اسلام کو اپنی اصل روح میں بھر پور طریقے سے نافذ کرنا۔
کتب احادیث میں سیاست کے معنی: عدل و انصاف و فلاحی معاشرے کا قیام اور تعلیم و تربیت کے ہیں۔
فلسفہ کی نظر میں: فلسفہ کے نزدیک فن حکومت، اجتماعی زندگی کا سلیقہ، صحیح اخلاق کی ترویج وغیرہ سیاست ہے۔ چونکہ انسان خود بخود مندرجہ بالا امور سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا،لہٰذا کسی ایسے قانون کی ضرورت ہے جو انسانوں کو بہترین زندگی کا سلیقہ سکھائے، جس کو دین کہتے ہیں۔
اسلام میں سیاست اس فعل اور عمل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح کے قریب اور فساد سے دو ہوجائیں۔ اہل مغرب فنِ حکومت کو سیاست کہتے ہیں۔ امور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھنے والوں کو سیاستدان کہا جاتا ہے۔ اسلام دراصل ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور دین کا مفہوم تقریباً ہی سیاست کے بنتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں لفظ سیاست تو نہیں البتہ ایسی بہت سی آیتیں موجود ہیں جو سیاست کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں، بلکہ قرآن کا بیشتر حصّہ سیاست پر مشتمل ہے، مثلاً عدل و انصاف، امر بالمعروف و نہی عن المنکر،مظلوموں سے اظہارِ ہمدردی وحمایت،ظالم اور ظلم سے نفرت اور اس کے علاوہ انبیا ٴ آلمعصومین ‘ چوٹی کے آ صحاب الرسول’ اہل بیت العظام اور اولیأ کرام کا اندازِ سیاست بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ [ “اور پیغمبر نے ان سے (یہ بھی) کہا کہ اللہ نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔ وہ بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہوسکتا ہے بادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت ساری دولت بھی نہیں۔ پیغمبر نے کہا کہ اللہ تعالی نے اُس کو تم پر فضیلت دی ہے اور (بادشاہی کے لئے) منتخب فرمایا ہے اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور جسم (تن و توش)بھی (بڑا عطا کیا ہے) اور اللہ تعالی (کو اختیار ہے) جسے چاہے بادشاہی بخشے۔ وہ بڑا کشائش والا اور دانا ہے• (القرآن۔ سورہ البقرہ آیت: 247)”] [” وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت (کی کتاب) اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے• (القرآن۔ الفتح:28)] ان آیات سے ان لوگوں کے سیاسی فلسفہ کی نفی ہوتی ہے جو سیاست کے لئے مال کی فراوانی وغیرہ کو معیار قرار دیتے ہیں،سیاستدان کے لئے ذاتی طور پر ”دولت مند“ ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اسے عالم باعمل اور شجاع (دلیر) ہونا چاہئے۔ جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (حکیم الاُمّت’ مُصَّوِرِ پاکستان شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ ) مرادِ رسول الله ﷺ ‘خلیفۂ الراشد الثانی امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہٗ کا دورِ خلافت کرۂ ارض پر عالمِ انسانیت کے لئے ایک بہترین فلاحی اور اصلاحی حکومت کا نمونہ تھا جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سیاست کو اگر دینِ حق سے جُدا کر دیا جائے تو سیاست کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل دُنیائے سیاست کا ہے۔۔۔۔! ایک دفعہ خلیفۂ الرسول ‘ امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالٰی عنہٗ مسجد نبوی ﷺ میں منبرِ رسول اللہﷺ پر کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا! کہ ” اے عمر! ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہیں بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ دُگنا ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا تمہارے حصّے میں ملا تھا وہ اس سے آدھا تھا”۔ تو سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہٗ نے کہا کہ “کیا اس مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ ابنِ عمر موجود ہے؟ “۔ چنانچہ سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہٗ کھڑے ہوتے ہیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہٗ نے پوچھا کہ بیٹا بتاؤ! کہ ” تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے؟ ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میں قیامت تک اس مبارک منبر پر نہیں چڑھوں گا۔” سیدنا عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا! کہ “بابا کے حِصّے میں جو کپڑا ملا تھا وہ ناکافی تھا کہ حِصّہ بقدرِ جُثّہ آپ کا پورا جسم ڈھانپ سکے جبکہ آپ کے پاس پہلے سے پہنا ہوا جو لباس تھا وہ بھی بہت حد درجہ کا خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنے حِصّے کا کپڑا اپنے والد گرامی کو دے دیا تاکہ آپ پورا لباس زیب تن کر سکیں” ابن سعد اپنے طبقات میں یہ واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ” لوگ ایک دن امیرالمؤمنین سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز(باندی) کا گزر ہوا۔ اُن لوگوں میں سے بعض کہنے لگے یہ باندی امیرالمؤمنین کی ہے۔ آپ (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہٗ) نے سنتے ہی یہ فرمایا کہ “امیرالمؤمنین کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ اللہ جل جلالہٗ کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لئے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جھاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے”۔ اپنے دور خلافت میں جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہٗ کسی شخص کو بطورِ گورنر یا عاملِ حکومت تقرری کرکے کسی خطے میں بھیجتے تو یہ شرائط بتا دیتے کہ “1-ترکی گھوڑے پر کبھی سوار نہیں ہونا؛ 2۔ عمدہ کھانا کبھی نہ کھانا؛ 3۔ باریک یا ریشمی کپڑا کبھی نہ پہننا اور؛ 4۔ حاجت مندوں کی داد رسی کرتے رہنا۔ ” اگر کسی گورنر یا عمالِ حکومت کو ان شرائط کی پاسداری کرتے نہ پاتے تو احتساب کرتے اور سزائیں دیتے۔
- Message on 5th, February, on Kashmir solidarity day.
A message to the world on 5, February- Kashmir Day:
I strongly endorse that, KASHMIR RESOLUTION IS KEY TO PEACE, PROSPERITY AND STABILITY IN SOUTH ASIA;
“ Jammu and Kashmir is more a part of Pakistan than it can ever be with india, with all her eloquence and all her extravagance with words. jammu and Kashmir is part of Pakistan, in blood, in flesh, in Culture, in history, in geography, in every way and in every form”.~ Shaheed Zulifkar Ali BhuttoKashmir is India’s greatest moral and political failure. It is here that even the most civilised amongst us begin to make excuses for repression, brutality and violence. It is here that we subsume all that we otherwise celebrate under the demands of freedom, progress, liberalism, liberty and secular ideals. Since 1947, the Indian state has responded to the political aspirations and the social and the legal demands in Kashmir through militarisation, repression, and indiscriminate violence, including, at various times, the denial of democratic rights, the manipulation of elections, and the murder and imprisonment of its political leaders.
- Wedding ceremony of Dr. Mehmood Rehman
Glimpses of Wedding Ceremony of Dr Mehmood Rehman in Karachi.
- اظہار تشکر ۔۔۔
اظہار تشکر: ہم، ان تمام رشتہ دار، دوست اور احباب کے انتہائی ممنون اور مشکور ہیں جنہوں نے ہمارے مرحوم والد محترم محمد شریف اللہ کی وفات پر ہم سے تعزیت کی، ہمارا غم بانٹنے میں شرکت فرمائی اور دعا کیلئے آبائی گاوں بونجی تشریف لائے۔ اللہ آپ سب لوگوں کی دعاوں کو قبولیت بخشےاور آپ سب کو آجر دے۔ بغرض اطلاع عرض ہے کہ موسم کی بڑھتی شدت، سفر کی صعوبت میں تعزیت کیلئے آنے والوں کی ممکنہ مشکلات کے پیش نظر کل بروز بدھ مورخہ 22 جنوری سے تمام لواحقین گلگت شہر منتقل ہورہے ہیں۔ تعزیت اور فاتحہ کیلئے تشریف لانے والوں سے گزارش ہے کہ بغرض تعزیت گلگت شہر میں ذیل میں دئے گئے پتہ پر تشریف لائیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔ ” رہائش گاہ آصف اللہ خان، عقب گلگت بلتستان اسمبلی جوٹیال گلگت”۔ شکریہ۔ منجانب پسران محمد شریف اللہ حشمت اللہ مرکزی ڈپٹی سکریٹری جنرل پاکستان تحریک انصاف، حاجی نعمت اللہ خان سابق صوبائی وزیر، ڈاکٹر عنایت اللہ، پروفیسر احسان اللہ، شہید ڈی ایس پی عطاء اللہ خان و پروفیسر عرفان اللہ خان، عارف اللہ خان، آصف اللہ خان صوبائی سکریٹری سیاحت گلگت بلتستان، ایڈوکیٹ حامد اللہ خان و دختران ڈاکٹر عائشہ حبیب خان و محترمہ پروفیسر انیسہ تبسم و دیگر سوگواران
- Winter
Snowfall in Gilgit City.
دسمبر کی آخری دعا بھی تم تھے
جنوری کی پہلی دعا بھی تم ہو - Posts
- سیاست