میرے خاندان کے افراد آزادی کی نعمت اور غلامی کی اذیت سے نابلد ہوتے اگر ہمارے درمیان میرے عم محترم مجاہد اول گلگت بلتستان جناب مولانا عبدالمنان حفظہ اللہ تعالی جن کی عمر ایک صدی سے زائد پر محیط ہے کی مسلسل پند و نصائح نہ ہوتی۔۔ الحمد للہ۔۔! مجاہد اول گلگت بلتستان محترم چچا جان ہی کی تحریک آزادی کے لئے جہاد فی سبیل اللہ نے ہمیں غلامی اور آزادی کی پہچان دی۔۔ آپ اکثر اس پیرانہ سال حال میں بھی مکرر فرماتے ہیں کہ
“آزادی ہی اس دنیاوی زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے جبکہ غلامی زندگی کی سب سے بڑی ذلت اور اذیت ہے ۔ آزادی کی اہمیت کا ادراک وہی فرد کر سکتا ہے جس نے غلامی کی ذلت اور رسوائی دیکھی ہو۔”
اسلامی تعلیمات ہمیشہ حریت اور آزادی کا درس دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ جنگ آزادی 1857ءکی ناکامی کے بعد مسلمانان ہند دوسرے اقوام کے غلام بن بیٹھے تو تب انہیں آزادی کی اہمیت کا احساس ہوا جس کی وجہ سے جداگانہ تحریک آزادی کا آغاز ہوا ۔ بالآخر لاکھوں قیمتی جانوں کی قربانی کے بعد 14اگست 1947کو موجودہ دنیا کا پہلا آزاد اسلامی ملک پاکستان معرض وجود میں آیا۔ تقسیم ہند سے پہلے گلگت بلتستان کے علاقوں میں ڈوگرہ اور انگریزوں کی حکومت تھی ۔ گلگت بلتستان کا موجودہ رقبہ لگ بھگ بہتر(72000)مربع کلومیٹر اور آبادی کم و بیش30لاکھ ہے جبکہ انتظامی طور پر تین ڈویژنز اور عبوری صوبائی اسمبلی کے 24حلقوں پر مشتمل ہیں ۔ پاکستان کے اس عبوری صوبہ گلگت بلتستان کی سرحدیں شمال کی جانب چین ، شمال مغرب میں افغانستان ، جنوب میں پاکستان کا صوبہ خیبر پختونخواہ، جنوب مشرق میں آزاد جموں کشمیر اور مشرق میں بھارتی مقبوضہ کشمیر سے ملتی ہے جو کہ اپنا محل وقوع کے لحاظ سے پاکستان کے دیگر صوبوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے مقابلے میں بالخصوص قدرے زیادہ اور دنیا کی چھت کے طور پر بالعموم پوری دنیا میں غیرمعمولی جغرافیائی اہمیت اور افادیت رکھتا ہے ۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے کامیاب منصوبے کی وجہ سے بام جہاں گلگت بلتستان پوری دنیا میں معاشی محور و گزرگاہ کا مقام حاصل کرچکا ہے۔
بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح رح نے ہمارے نزدیک دراصل گلگت بلتستان ہی کے لئے پاکستان کی شہ رگ کہا تھا جو تقسیم ہند کے موقع پر جزوی طور پر کشمیر سے ملحق ایک وسیع خطہ تھا۔ گلگت بلتستان کی وجہ سے نہ صرف پاکستان سیاحت اور پانی سے مالامال ہے بلکہ وطن عزیز کی سرحدیں چین اور وسطی ایشیاءتک پہنچ چکی ہیں اور یہی گلگت بلتستان ہے جو کہ پاک چین دوستی کی لازوال علامت ہے۔ مجھے یہ امر مانع نہیں ہے اگر یہ دعوی کروں کہ اس خطے کے عوام وطن عزیز مملکت خداداد پاکستان کی بہترین محافظ بھی ہیں۔ اگر یکم نومبر1947ء میں تحریک آزادی گلگت بلتستان کا یہ جذبہ منظر عام پر نہ آتا تو شاید پاکستان کی خارجی، داخلی اور معاشی حکمت عملی کی شکل کچھ اور ہی ہو جاتی۔ بہر کیف ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک آزادی گلگت بلتستان کو واقعی وہ مقام دیا جائے جو ان کا حق بنتا ہے تاکہ یہ جذبہ اور جنون ہمیشہ قائم و دائم رہے ۔ قومی میڈیا یکم نومبر کے اہم تقریبات کو منظر عام پر لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے تاکہ تحریک آزادی گلگت بلتستان اپنی اصل روح اور حقیقت کےساتھ سامنے آئے جو کہ ملکی ، علاقائی اور عوامی مفاد میں ہے۔گلگت بلتستان کے عوام کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ تحریک آزادی گلگت بلتستان کے تمام رہنما، ہیروز اور مجاہدین کو تحریک پاکستان کے راہنماؤں اور عمائدین کے برابر مقام دیا جائے۔
گلگت بلتستان کے ہر ایک فرد یاد رکھے کہ آج اگر وہ معاشرے کا ایک آزاد و خود مختار فرد ہے ،تو اس کی قسمت کی یہ روشن لکیر ہمارے آباء و اجداد کے لہو سے کندہ ہے ۔یہ آزادی بہت ہی بیش قیمت ہے۔اس لئے ہم سب ملکر اس کے تحفظ کے لئے یک جان ہو کر کوشش کریں ۔آزادی کی قدر و منزلت کا اندازہ ان قوموں کی تکالیف و اضطراب سے لگایا جاسکتا ہے،جنھیں یہ نعمت حاصل نہیں۔لہٰذا یہ قوم کے ہر اک فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے بزرگوں کی قربانی اور ایثار سے حاصل شدہ نعمت کی قدر کرے اور اس کی مضبوط دفاع و استحکام کے لئے اپنا فریضہ احسن طریقے سے نبھائے۔گلگت بلتستان کے لوگوں کو آج کے دن یہ عہد کرنا ہے کہ وہ اس خطے کی سلامتی اور خودمختاری کے لئے ہر صورت جہد مسلسل کرتے رہیں گے ۔وہ رواداری، مذہبی ہم آہنگی،پرامن بقائے باہم ، برداشت اور صلہ رحمی کو فروغ دیں اور ایسے افعال اور امور کو فروغ دینے سے اجتناب کریں ،جن سے علاقائی امن و سلامتی کو خطرات لاحق ہوں جو دشمنوں کے لئے ترنوالہ ثابت ہوسکے۔ فی الحقیقت من حيث القوم یہی یوم جشن آزادی کے موقع پر ہمارا پیغام برائے پختہ عہد اور عزم ہو۔
طالب دعاء : بوسکندر