بیت المقدس کے فضائل بہت زیادہ ہیں جس کے بارے میں قرآنی آیات و احادیث تواترہ بے شمار ہیں : اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں اسے مبارک سرزمین قرار دیا ہے ،فرمان باری تعالی ہے ،پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ، اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں ۔ الاسراء آیت1 القدس الشریف ہی وہ علاقہ اور شہر ہے جس کو اللہ تعالی نے سیدنا موسی علیہ السلام کی زبان سے مقدس کا وصف دیا ، فرمان باری تعالی ہے ،اے میری قوم اس مقدس سرزمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ تعالی نے تمہارے نام لکھ دی ہے۔ سورہ المائدۃ آیت21 بیت المقدس ایسی پاکیزہ سرزمین ہے جہاں پر کانا دجال بھی داخل نہیں ہوسکتا، جیسا کہ حدیث میں رسالت مآب ﷺ نے فرمایا، وہ دجال حرم کعبہ و حرم نبوی اور بیت المقدس کے علاوہ باقی ساری زمین میں گھومےگا۔ مسنداحمد حدیث رقم 19665 ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے 2 / 327 صحیح ابن حبان رقم 7 / 102 ۔سیدنا عیسی علیہ السلام دجال کو اسی علاقے کے قریب قتل کریں گے جیسا کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، بروایت سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ تعالی عنہ ہے کہ سیدنا عیسی بن مریم علیہ السلام دجال کو باب لد میں قتل کریں گے ۔ صحیح مسلم رقم2937 لد بیت المقدس کے قریب تل ابیب میں ایک جگہ کا نام ہے جہاں اسرائیل نے ائرپورٹ بنا رکھا ہے۔ مسجد الاقصی وہ جگہ ہے جہاں نبی کریم ﷺ کو معراج کے لئے مسجد حرام سے مسجد اقصی لے جایا گیا۔بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں ہے :سیدنا براء رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف نمازپڑھی ۔۔۔ صحیح بخاری رقم41، صحیح مسلم رقم525 ،معروف و معلوم ہےکہ بیت المقدس ، محبط وحی اورانبیاء کرام کا مسکن اور وطن ہے ۔بیت المقدس ان مساجد میں سے ہے جن کی طرف سفرکرنا جائزہے سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ،کہ تین مساجدکے علاوہ کسی اور کی طرف سفرنہیں کیا جاسکتا ، مسجد حرام ، مسجد نبوی ﷺ ، اورمسجد الاقصی ،صحیح بخاری رقم1132 اورامام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی یہی روایت کی ہے ۔ صحیح مسلم رقم827ایک طویل حدیث کا مفہوم ، جسے سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے راویت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اسی مسجد میں سارے انبیاء علیہم السلام کی ایک نماز میں امامت کرائی ، حدیث کے الفاظا کچھ اس طرح ہیں،فحانت الصلاۃ فاممتھم ۔نمازکا وقت آیا تومیں نے سارے انبیاء کرام کی امامت کرائی۔ صحیح مسلم رقم172، لہذا امت کا اجماع ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ زمین کے کسی بھی علاقہ کی طرف عبادت کی غرض سے سفرکرنا جائز نہیں ہے ۔فرمانِ باری تعالی ہے، اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنا دے گا۔ سورہ محمد آیت7 ،بیت المقدس کی فضیلت کو مد نظر رکھتے ہوئے سیدنا فاروق اعظم امیرالمومنین عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ان کے ہمراہ اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے مسجد اقصی کو تب آزاد کروایا تھا جب انہوں نے غلبہ اسلام کیلئے دل و جان سے عملی اقدامات کئے تھے۔درحقیقت تقوی کا تقاضا ہے کہ جس دن دلوں پر قرآن و سنت کا راج ہو گا، زندگی کے تمام شعبے عملی طور پر اس کی گواہی دیں گے تو مسلمان کبھی بھی کمزور اور ذلیل نہیں ہوں گے، انہیں کسی قسم کی پستی اور تنزلی کا سامنا نہیں ہو گا، کیونکہ اللہ تعالی نے سچا وعدہ بتلا دیا ہے القرآن سورہ آل عمران آیت139، اور نہ ہی کمزوری دکھاؤ اور غم بھی نہ کرو، اگر تم مؤمن ہو تو تم ہی غالب رہو گے، زمانہ قدیم میں جس علاقے کو’’شام‘‘ کہا جاتا تھا ، وہ لبنان ،فلسطین، اردن اور شام کی سرزمین پر مشتمل ہے ،احادیث مبارکہ میں جس مبارک علاقے کی فضیلت ذکر فرمائی گئی ہے، اس سرزمین کو یہ اعزازحاصل ہے کہ یہاں کثرت سے انبیاء و رسل کرام کو مبعوث فرمایا گیا،نیزدیگر کئی علاقوں سے انبیاء کرام نے ہجرت فرما کر اس علاقے کو اپنامسکن بنایا، جن میں سے چند اسمائے مبارک ، سیدناابراھیم خلیل اللہ، سیدنا لوط ،سیدنااسحاق ،سیدنایعقوب ،سیدنا موسیٰ کلیم اللہ نے تو اس سرزمین ،بیت المقدس پر اپنی موت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعافرمائی تھی۔صحیح بخاری رقم۱۳۳۹، سیدنا ہارون ، سیدنا یوشع ،سیدنا داؤد،سیدنا سلیمان، سیدنازکریا، ،سیدنا یحییٰ، سیدناعیسیٰ علیہم السلام اجمعین۔ جب یہودیوں نے سیدنا عیسیٰ کے قتل کی سازشیں کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھالیا،اور ان کا دوبارہ نزول اسی سرزمین پر ہوگا۔بیت المقدس کے گرد و نواح کا سارا علاقہ یعنی فلسطین انبیاء رسل علیھم السلام کا مسکن اور سر زمین رہی ہے۔ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے فلسطین ہی کی طرف ہجرت فرمائی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سیدنا لوط علیہ السلام کو اس عذاب سے نجات دی جو ان کی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا۔سیدنا داؤود خلیفہ اللہ علیہ السلام نے اسی بابرکت سر زمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا۔سیدنا سلیمان علیہ السلام اسی بابرکت ماحول میں بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔سیدنا زکریا علیہ السلام کا مبارک محراب بھی اسی شہر میں ہے۔اولوالعزم رسول سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے اسی ملک کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اس شہر کو مقدس اس شہر کے شرک سے پاک ہونے اور انبیاء و رسل علیھم السلام کا مسکن ہونے کی وجہ سے کہا تھا۔اس شہر میں کئی معجزات وقوع پذیر ہوئے جن میں بی بی سیدہ مریم علیہ السلام کے بطن سے رسول سیدنا عیسٰی روح اللہ علیہ السلام کی ولادت مبارکہ بھی ہے ۔سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو جب اُن کی قوم نے قتل کرنا چاہا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں اسی شہر سے آسمان پر اُٹھا لیا تھا۔قیامت کی علامات میں سے ایک سیدنا عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کا زمین پر واپس تشریف اسی شہر کے مقام سفید مینار کے پاس ہوگا۔اسی شہر سے ہی یاجوج و ماجوج کا زمین میں قتال اور فساد کا کام شروع ہوگا۔اس شہر میں وقوع پذیر ہونے والے قران میں بیان کردہ قصوں میں سے ایک قصہ طالوت اور جالوت کا بھی ہے۔فلسطین کو نماز کی فرضیت کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ہجرت کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام دوران نماز ہی حکم ربی نبی آخر الزمان سیدنا محمد رسول اللہﷺ کو مسجد اقصیٰ (فلسطین) سے بیت اللہ کعبہ مشرفہ (مکہ مکرمہ) کی طرف رخ کرا گئے تھے۔ مدینہ منورہ کے جس مسجد میں یہ واقعہ پیش آیا وہ مسجد آج بھی مسجد قبلتین کہلاتی ہے۔ ہجرت سے پہلے جناب نبی کریم محمد مصطفٰی، احمد مجتبٰی ﷺ معراج کی رات آسمان پر لے جانے سے پہلے مکہ مکرمہ سے یہاں بیت المقدس (فلسطین) لائے گئے۔سرور کونین محمد رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں تمام انبیاء و رسل علیھم السلام نے یہاں نماز ادا فرمائی۔ اس طرح فلسطین ایک بار پھر سارے انبیاء کا مسکن بن گیا۔وصال سرور کائنات نبی اکرمﷺ کے بعدخلیفہ رسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کو ارتداد کے فتنہ اور دیگر کئی مشکلات کے باوجود بھی ارض شام (فلسطین) کی طرف آپ ﷺ کا تیار کردہ لشکر بھیجنا بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے۔اسلام کے سنہرے دور فاروقی میں دنیا بھر کی فتوحات کو چھوڑ کر محض فلسطین کی فتح کیلئے خود امیر المومنین فاروق اعظم سیدنا عمر ابن الخطاب کا خو چل کر جانا اور یہاں پر جا کر نماز ادا کرنا اس شہر کی عظمت کو اجاگر کرتا ہے۔دوسری بار بعینہ معراج کی رات بروز جمعہ 27 رجب 583 ھجری کو سلطان صلاح الدین ایوبی رح کے ہاتھوں اس شہر کا دوبارہ فتح ہونا بھی عالم اسلام کے لئے ایک نشانی ہے۔ ہمارے پیارے نبی آخر الزمان سیدنا محمدرسول اللہ ﷺ کی پیدائش اور بعثت اگرچہ مکہ میں ہوئی لیکن معراج کے موقعہ پر آپﷺ کو اس مقدس سرزمین یعنی مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی سیر کرائی گئی جہاں آپﷺ نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی اور معراج کی ابتداء یہیں بیت المقدس مسجد الاقصیٰ سےہی ہوئی۔سیدنا ابوذررضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا یارسول اللہ! کرۂ ارض پر سب سے پہلی مسجد کونسی تعمیر کی گئی؟آپﷺ نے فرمایا، مسجدالحرام، پھرعرض کیا دوسری کونسی مسجد تعمیر ہوئی؟ آپﷺ نے فرمایا، مسجدالاقصیٰ ،انہوں نے سوال کیا ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟آپﷺ نے فرمایا:چالیس سال۔صحیح بخاری رقم۳۳۶۶،صحیح مسلم رقم ۵۲۰ایک اور حدیث میں ” نبی کریم ﷺ نے فرمایا،اعدد ستا بین یدی الساعۃ موتی ثم فتح بیت المقدس صحیح بخاری رقم۳۱۷۶، قیامت کی چھ نشانیاں شمار کرلو،ایک میری موت اور پھر بیت المقدس کی فتح، سر زمین انبیاء علیہم السلام بیت المقدس و مسجد الاقصی جس کے تقدس اور تبرک کا تذکرہ قرآن کریم میں بار بار آیا ہے ، جس کے مسلمانوں کے بطور وارث ہونے کا تذکرہ قرآن مجید نے کیا ہے ، یہ سرزمین مسلمانوں کے یہاں نہایت متبرک اور مقدس گردانی جاتی ہے؛ لیکن افسوس صد افسوس کہ اس مقدس اور پاک سرزمین پر ی ہ ودی اپنے قدم جمانے اور اس کو ملک اسرائیل کا دار الحکومت بنانے کے ناپاک عزائم بناچکے ہیں اور منصوبہ پر عمل در آمد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، ساری دنیا میں اس کے خلاف احتجاج جاری ہے ، جلسے جلوس ہورہے ہیں ، مسلمانوں کو اس کے تقدس کو سمجھنا اور اس بیت المقدس کی بازیابی کے لئے ہر طرح کی جدوجہد واجب عین ہے۔ تمام مسلمان چاہے ان کا تعلق کسی بھی ملک اور خطے سے ہو ، وہ کسی بھی جگہ کے رہائشی ہوں، سب مسلمان کسی بھی ایسے اقدام کو تسلیم نہیں کرتے جو مسئلہ قدس اور مسجد اقصی پر منفی اثرات مرتب کرے؛ کیونکہ یہ اسلامی مقدسات ہیں کسی صورت میں ان کی بے حرمتی کی گنجائش نہیں۔ بلکہ بیت المقدس کے متعلق منفی اقدامات مسلمانوں کو اپنے مسلّمہ حقوق مزید پر زور طریقے سے مانگنے پر ابھارتے ہیں، ان کے مطالبے اپنے حقوق لینے، ظالم کو روکنے اور مظلوم کی مدد کے مقررہ اصولوں کے عین مطابق ہیں، ان کے یہ مطالبے سابقہ تمام آسمانی شریعتوں اور عالمی دستور میں بھی موجود ہے۔آج پوری دنیا اس قسم کے کسی بھی اقدام کو ان تمام عالمی قرار دادوں کی خلاف ورزی شمار کرتی ہے جس میں واضح ہے کہ بیت المقدس اسلامی دار الحکومت ہے نیز یہ اسلام اور مسلمانوں کے مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔امت مسلمہ کے مسائل دھواں دھار تقریروں اور زرق برق نعروں کے ذریعے حل نہیں ہوں گے، مذمت، اظہارِ تشویش ، احتجاج اور مظاہروں سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ مسلمانوں نے یہ تمام کام پہلے کتنی بار کر لئے ہیں، ماضی میں تسلسل کے ساتھ ان پر عمل رہا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ ایسا رد عمل ہوتا ہے جو ظلم نہیں روک پاتا، ان سے نقصانات کا ازالہ نہیں ہوتا، ایسے اقدامات سے مسلح کاروائیوں اور جارحیت میں کمی نہیں آتی، اللہ تعالی کی جانب حقیقی رجوع کے بغیر کوئی چارہ نہیں، اللہ تعالی کی طرف اخلاص اور گڑگڑا کر رجوع لازمی ہے، اس کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے لیے بھر پور کوشش اور محنت بھی ہو۔امت مسلمہ کی مدد اور فتح دل و جان کے ساتھ دینِ الہی کی مدد سے ہو گی، دین الہی کو تسلیم کر کے اس پر عمل پیرا ہوں اور اسے عملی شکل دیں۔ چنانچہ جس دن بھی امت دین الہی پر عمل پیرا ہو جائے گی، اللہ تعالی کے احکامات اور شریعت کی پابند بن جائے گی، پوری امت اپنے تمام تر عملی اقدامات حقیقی دین سے حاصل کرے گی کہ جس دین کی بنیاد پر مسجد اقصی کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے تو تب امت مؤثر علاج اور مثبت نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی،تمام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے چاہے وہ کسی بھی منصب پر فائز ہیں کہ اقصی ، بیت المقدس، اور فلسطین جیسے بنیادی مسئلے کی حمایت میں صرف اسلام کی بنیاد پر کھڑے ہو جائیں، مؤثر انداز میں متحد ہوں، ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھیں کہ جن کی بدولت ثمرات سامنے آئیں اور اہداف پورے ہو سکیں۔سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ قیامت تک دین پر ثابت قدم اور دشمن پر غالب رہے گا، ان سے اختلاف کرنے والے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، سوائے اس کے کہ انہیں کچھ معاشی تنگدستی کا سامنا کرنا پڑے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آجائے گا اوروہ اسی حالت پر ہوں گے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ کہاں ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ بیت المقدس اور اس کے گرد و نواح میں ہوں گے، حدیث صحیح، تخریج از مسند احمد رقم 12494 ۔ طالب دعا اور اپنے رب سے معافی کا طلبگار۔بوسکندر