قطع رحمی کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ اس کا ارتکاب کرنے والے کو لعنت و تباہی اور ہلاکت کی وعید سنائی گئی ہے چنانچہ قران مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ، اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تمہیں حکومت و اقتدار حاصل ہو جاۓ تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناطے توڑ ڈالو ، یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی پھٹکار ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھن لی ہے ۔ (سورة محمد 22 ۔ 23 )
نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے ، صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں برابری کر لے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتہ دار اس سے قطع تعلقی کریں اور وہ ان سے اپنا رشتہ جوڑ رکھے ۔ ( صحیح بخاری ) ۔
نبی اکرم ﷺکاارشاد گرامی ہے ، حرص و لالچ سے بچیں ، اس نے پہلے لوگوں کو ہلاک کرکے رکھ دیا تھا ۔ اسی حرص و لالچ کے جذبے نے انھیں بخل کا حکم دیا تو وہ بخل کرنے لگے ، اس نے انھیں ظلم و زیادتی کا حکم دیا تو یہ ظلم و ستم ڈھانے لگے ۔ اس نے انہیں قطع رحمی کا حکم دیا تو وہ قطع رحمی کرنے لگے ۔ ( متفق علیہ )
قرابت داروں سے تعلقات جوڑنا اور صلہ رحمی کرنا ایمان کی نشانی ہے ۔نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے ، جو شخص اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے ۔ ( متفق علیہ )اللہ تعالی نے قطع رحمی پر قریش کی مذمت فرمائی ہے ۔چنانچہ ارشاد الہی ہے ، یہ تو کسی مسلمان کے حق میں کسی رشتہ داری یا عہد کا مطلق لحاظ نہیں کرتے ۔ ( التوبہ : 10)
صلہ رحمی قائم کرنے کے لۓ سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی و حسن سلوک کریں اگرچہ وہ وفات ہی کیوں پا چکے ہوں۔ایک آدمی نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا ، اے اللہ کے رسول ﷺ والدین کے فوت ہو جانے کے بعد بھی میرے لیے کوئی ایسا کام ہے کہ میں ان کے ساتھ حسن سلوک کر سکوں ؟ نبی اکرم ﷺنے فرمایا ، ہاں ، ان کے لئے رحمت کی دعائیں مانگو ،ان کے لئے اللہ سے مغفرت و بخشش کی دعا کرو اور ان کے بعد ان کے عہد و پیمان کو پورا کرو ، اور اپنے ان قرابت داروں سے رشتہ قائم رکھو جن کا تعلق تم سے صرف والدین کی طرف سے ہی ہے ۔ ( ابوداؤد )
ایک آدمی نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا ، میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتا ہوں مگر وہ مجھ سے قطع تعلقی کا رویہ اپناتے ہیں ، میں ان پر نیکی و احسان کرنے کی راہ اپناتا ہوں ، مگر وہ میرے ساتھ برا سلوک کرتے ہیں ۔ میں حلم و بردباری سے کام لیتا ہوں مگر وہ مجھ پر زیادتی کرتے ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ، اگر تو ایسے ہی ہے جیسے تو بتا رہا ہے تو انھیں انگاروں پر لوٹا رہا ہے اور جب تک تم اپنی اسی روش پر قائم رہو گے ۔ اللہ کی طرف سے تمھارے لۓ ایک مدد گار مقرر رہے گا ۔ ( صحیح مسلم ) ۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ، اللہ تعالی نے رحم سے کہا تھا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ جو تیرے ساتھ تعلق قائم رکھےگا میں بھی اس سے تعلق بحال رکھوں گا اور جو تیرے ساتھ قطع رحمی کرے گا میں بھی اس سے قطع تعلقی کر لوں گا ۔ اس پر رحم نے کہا تھا ، ہاں میں اس پر راضی ہو ں ۔ اللہ تعالی نے فرمایا تھا ، کہ میں تجھے یہ عہد دیتا ہوں کہ رحم عرش الہی کے ساتھ لٹک رہا ہے اور کہتا ہے ، جس نے مجھے جوڑا میں اس سے رشتہ قائم رکھوں گا اور جس نے مجھے توڑا میں اس سے ناطہ توڑ لوں گا ( متفق علیہ )
یتیموں مسکینوں پر خرچ کرنے سے بھی رشتہ داروں کا حق زیادہ ہے اور وہ ان پر مقدم ہیں چنانچہ ارشاد الہی ہے ، لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں ۔ آپ( ان سے ) کہہ دیں کہ بھلائی ( مال ) سے جو بھی تم خرچ کرو وہ اپنے والدین ، رشتہ داروں ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لۓ ہے ۔( البقرہ : 215)
صدقہ سب سے پہلے جسے دیا جائیگا وہ ایسے قرابت دار ہیں جو مسکین بھی ہوں ، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا باغ صدقہ کیا تو نبیﷺ نے فرمایا ، میں سمجھتا ہوں کہ اس باغ کو تم اپنے قرابت داروں پر صدقہ کردو ۔ تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے وہ باغ اپنے رشتہ داروں اور چچا زادوں پر صدقہ کر دیا ۔ ( متفق علیہ )
امام شعبی رح فرماتے ہیں ، میرے قرابت داروں میں سے جو بھی فوت ہو اور اس پر کسی کا کوئی قرض ہو ، اس کا قرض میں ادا کروں گا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں ، میں اپنے بھائیوں میں سے کسی بھائی کے ساتھ صلہ رحمی کروں ، یہ چیز مجھے بیس درھم صدقہ کرنے سے بھی زیادہ محبوب ہے ۔قرابت داروں پر خرچ کرنے والا شخص سخی اور صاحب جود و کرم ہے ۔
حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ جو سلوک کیا تھا وہ معروف ہے لیکن جب انھوں نے معذرت کی تو انہوں نے ان کی معذرت کو قبول فرمایا اور انھیں معاف فرما دیا ، انہیں کوئی ڈانٹ نہیں پلائی بلکہ ان کے لۓ دعاء فرمائی اور اللہ سے ان کے لۓ مغفرت و بخشش طلب فرمائی جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ ( سیدنا یوسف علیہ السلام نے) جواب دیا : آج تم پر کوئی ملامت نہیں ، اللہ تمھیں بخشے وہ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے ۔ ( یوسف : 92)
ہرقل نے ابو سفیان سے پوچھا تھا کہ وہ نبی اکرمﷺ تمہیں کس بات کا حکم دیتا ہے ؟ ابوسفیان نے (عہد کفر میں ہونے کے باوجود ) گواہی دی تھی کہ وہ کہتے ہیں کہ، صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ،اور وہ ہمیں نماز پڑھنے ، سچ کہنے ، عفت و پاکدامنی اختیار کرنے اور صلہ رحمی کرنے کا حکم دیتے ہیں ۔ ( متفق علیہ)
پڑوسی کو بھی قرابت دار شمار کیا گیا ہے اور وہ دوسروں سے بھی زیادہ اہتمام و نگرانی کا مستحق ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے ،
اور قرابت دار ہمسائے اور اجنبی ہمسائے سے اور پہلو کے ساتھ ( ہمنشین) سے بھی حسن سلوک کرو ۔ ( النساء 36)
رشتہ داروں کی عزت و تکریم کا حکم دیا گیا ہے مگر شرط یہ ہے کہ انہیں مقدم کرنے میں کسی کی حق تلفی یا کسی کے اصل حق میں کمی بیشی نہ ہونے پاۓ ۔ ارشاد الہی ہے ، جب بات کرو تو عدل و انصاف کرو ، اگر چہ وہ شخص قرابت دار ہی کیوں نہ ہو ” ۔(الانعام : 162)
نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے ، صلہ رحمی اہل و عیال اور اہل خاندان میں باہمی محبت ، مال میں فروانی اور عمر میں درازی کا باعث ہوتی ہے ۔ ( مسنداحمد ) ، جسے یہ بات خوشگوار لگے کہ اس کے رزق میں اضافہ ہو اور اس کی عمر دراز ہو ، اسے صلہ رحمی کرنی چاہئے ۔ ( بخاری و مسلم ) در حقیقت صلہ رحمی اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے اوراس کی نافرمانی سے بچنے کی اور توفیق پانے کا سبب بنتی ہے اور اس آدمی کے مرنے کے بعد بھی اس کا ذکر خیر لوگوں کی زبانوں پر جاری رہتا ہے ۔ گویا کہ وہ آدمی ابھی مرا ہی نہیں ۔
نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے ، کوئی گناہ ایسا نہیں کہ جس کی اخروی سزا کے ساتھ ساتھ اللہ اسے اس دنیا میں بھی فوری سزا نہ دے دے سواۓ بغاوت و سرکشی اور قطع رحمی کے ۔ (ترمذی )
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نماز فجر کے بعد اگر کسی حلقہ درس میں بیٹھے ہوتے تو فرماتے ، کہ میں قطع رحمی کرنے والے کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ وہ ہم سے اٹھ کر چلا جاۓ کیونکہ اب ہم اپنے رب سے دعا مانگنے لگے ہیں اور قطع رحمی کرنے والے پر آسمان و رحمت کے دروازے بند کۓ جا چکے ہیں