اس سورہ کی پہلی آیت میں علوم و معارف کے سمندر اتار دیئے اور لوازم نبوت اور فرائض رسالت برداشت کرنے کو بڑا وسیع حوصلہ دیا کہ بے شمار دشمنوں کی عداوت اور مخالفوں کی مزاحمت سے گھبرانے نہ پائیں (تنبیہ) احادیث و سیر سے بیان ہے کہ ظاہری طور پر بھی فرشتوں نے متعدد مرتبہ آپﷺ کا سینہ چاک کیا۔ لیکن مدلول آیت کا بظاہر وہ معلوم نہیں ہوتا۔ دراصل اور فی الحقیقت اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کی ذات پر بے انتہا نعمتوں کا نزول فرمایا جن میں سر فہرست تین نعمتیں ہیں، جن کا ذکر اس سورہ مبارکہ میں کیا گیا ہے۔ وحی حفظ و ضبط کرنے، اسے سمجھنے، پھر اسے بیان کرنے کے لئے رسول اللہ ﷺ کا سینہ کھول دیا گیا۔ پیغام نبوت کو من وعن لوگوں تک پہچانے کا عظیم بوجھ رسول اللہ ﷺ کے لئے بہت آسان کردیا۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے کام اور نام کو ہمیشہ کے لئے سربلند فرما دیا۔انسان کے لئے ضروری ہے کہ ہر عمل صالح کرنے سے پہلے اس کے لئے اسے شرح صدر حاصل ہو، ایک داعی پر اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہوتا ہے کہ دعوت دینے اور نیک اعمال کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دے۔ داعی کا سینہ دعوت کے لئے کھول دیا جائے تو اس میں کچھ کر گزرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ جب پورے جذبہ کے ساتھ نیک کام کے لئے محنت کی جائے تو اس کے لئے مشکل آسان کردی جاتی ہے۔شرح صدر ایسی نعمت ہے جس کے لئے اللہ تعالٰی کے اولوالعزم رسول سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلوۃ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی۔قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْلِیْٓ اَمْرِیْ۔ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَہُوْا قَوْلِیْ (طٰہٰ: 25تا28) موسیٰ نے اپنے رب سے دعا کی کہ میرا سینہ کھول دے اور میرے کام کو میرے لئے آسان فرما دے۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ سورہ طہ کی مذکورہ آیات کی سمجھ سور الم نشرح میں تفہیم و تدبر کرنے سے انسان پر شرح صدر،بوجھ اٹھانا اور اللہ کا تسبیح و حمد و ذکر کثیر کرنا آشکارا ہوتا ہے۔سورہ طہ کی مذکورہ آیات سیدنا موسی کلیم اللہ علیہ السلام کی دعا ہے۔۔ یہاں اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان محمد مصطفٰی ،احمد مجتبٰی ﷺ پر انتہائی مہربانی فرماتے ہوئے آپ کے لئے آپ کا سینہ کھول دیا۔ اس سے پہلے آپ کی حالت یہ تھی کہ نبوت سے پہلے آپ اپنی قوم کے حالات دیکھ کر رنجیدہ خاطر رہتے تھے، جونہی آپ کی عمر چالیس سال کے قریب پہنچی تو انسانیت کے بارے میں آپ ﷺ کی فکر مندی میں اس قدر اضافہ ہوا کہ آپ کئی کئی دن تک غار حرا میں خلوت نشین ہو کر اس بات پر غور وفکر کرتے کہ لوگوں کو کس طرح راہ راست پر لایا جائے۔ اسی سوچ میں متفکر تھے کہ ایک دن غار حرا میں جبریل امین علیہ السلام آئے اور محسن انسانیت، سرور کونین ﷺ پر سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات نازل فرمائیں۔ عقیدہ توحید کی بنیاد پر قوم کی اصلاح کرنا اتنا مشکل کام ہے کہ جس سے بڑھ کر کوئی کام مشکل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے توحید کی دعوت دینے کے لئے جتنے انبیاء اور رسل مبعوث فرمائے وہ ظاہری ، جوہری اور روحانی صلاحیتوں کے حوالے سے اپنے اپنے دور کے عظیم اور منفرد ہستیاں تھیں ۔ ان خوبیوں میں خاتم الانبیاء و رسل جناب رسالت مآب ﷺ تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے زیادہ باصلاحیت اور ارفع و اولی تھے مگر انسانیت کی اصلاح اور توحید کی دعوت اس قدر مشکل کام تھا اور ہے کہ نبی آخر الزمان، ہادئ اعظم، رسالت مآب، محمد رسول اللہ ﷺ بھی اس کام کو بے پناہ وزنی محسوس کرتے تھے۔نبی اکرم ﷺ پر جونہی نبوت کی ذمہ داری عائد ہوئی تو آپ نے اس قدر جانفشانی کے ساتھ محنت اور جہاد فرمایا کہ بسا اوقات آپ اس قدر نڈھال ہوجاتے کہ قریب تھا کہ آپ کو کوئی تکلیف لاحق ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے فکر و تشویش کو ہلکان کرنے کے لئے کئی بار ارشاد فرمایا کہ آپ ایک حد سے زیادہ فکر مند نہ ہوں کیونکہ ہم نے آپ کو لوگوں کے لئے مبلغ بنایا ہے نگران نہیں بنایا(فذكر إنما أنت مذكر۔ سورة الغاشية)۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور آپ کی محنت کے نتیجہ میں ایک وقت ایسا آیا کہ آپ کو اس قدر جانثار اصحاب ملے کہ جس سے آپ کا بوجھ ہلکا ہوگیا جس کے بارے میں ارشاد ہوا کہ ہم نے آپ کا بوجھ ہلکا کردیا جو بوجھ آپ کی کمر توڑے جارہا تھا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول مکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ خیر خواہی کرنا چاہتے ہیں اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ (رواہ البخاری : کتاب العلم)ایک اور روایت ہے کہ (عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ شَقِیقٍ (رض) قَالَ قُلْتُ لِعَائِشَۃَ (رض) ہَلْ کَان النَّبِیُّ (ﷺ) یُصَلِّی وَہُوَ قَاعِدٌ قَالَتْ نَعَمْ بَعْدَ مَا حَطَمَہُ النّاسُ) (رواہ مسلم : باب جواز النافلۃ قائما وقاعدا)ترجمہ، حضرت عبداللہ بن شقیق بیان کرتے ہیں میں نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے پوچھا کیا نبی اکرم ﷺ بیٹھ کر بھی نماز پڑھا کرتے تھے؟ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے فرمایا : ہاں لوگوں نے آپ کو بوڑھا کردیا تھا۔ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ، شاید آپ اپنے آپ کو ہلاک کرلیں گے کہ وہ اس بات پر ایمان نہ لائے۔ (الکہف :6) قرآن میں ذکر ہے،لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْن (الشعراء :3) اے نبی شاید آپ اس غم میں اپنی جان کھودیں گے اس لئے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ قرآن مجید میں مزید ذکر ہے کہ ، اگر اللہ چاہتا تو وہ شرک نہ کرتے اور ہم نے آپ کو ان پر نگران نہیں بنایا اور نہ آپ ان کے وکیل ہیں۔ (الانعام :107) ایک اور آیت کریمہ میں ارشاد ہے کہ، اے نبی، نصیحت کئے جاؤ آپ نصیحت ہی کرنے والے ہیں۔ ان پر جبر کرنے والے نہیں۔ (الغاشیہ : 21، 22)۔۔۔ ان سارے حالات کے پیش نظر اور پس منظر میں سورہ الانشراح میں چنانچہ ذکر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کے کام کے لئے آپ ﷺ کا سینہ کھول دیا۔ آپ ﷺ کا بوجھ ہلکا کردیا ۔ جبکہ آپ ﷺ کا ذکر تا قیامت بلند ہوا اور تا قیامت ہوتا رہے گا۔ یہ سورۃ الم نشرح مکی ہے اور ابتدائی عہد نبوی کی قرآنی سورتوں کے نزول سے ہے جسکا مقصد دراصل نبی کریمﷺ کو تسلی دینا تھا نیزآپ کو بتایا گیا کہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشقت دکھاناضروری ہے۔ تو اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جائیں اور عبادت میں ہمہ تن مشغول ہو جائیں۔علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ دینی کاموں میں مشغول لوگوں کے لئے جس طرح یہ اہم ہے کہ وہ دین کی تعلیم، دعوت اور تبلیغ کا کام کریں، لوگوں کی راہِ حق کی طرف رہنمائی کریں اور ان کو اعمالِ صالحہ کی ترغیب دیں، اسی طرح ان کے لئے یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ وہ عبادات الٰہیہ، تعلق مع اللہ، اصلاحِ نفس اور اللہ تعالیٰ کے ذکر و اذکار میں خوب مجاہدہ کریں۔دانش مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنی ترقّی کی فکر کرے اور امّت کی ترقّی کی بھی فکر کرے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہماری محنت اور جدوجہد یک طرفہ نہ ہوں کہ ہم صرف اپنی فکر کریں اور امّت کو فراموش کر دیں یا یہ کہ صرف امّت کی فکر کریں اور اپنے آپ کو فراموش کر دیں۔ اس سورہ مبارکہ میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دونوں میں توازن (برابری) قائم رکھیں۔ یعنی اپنی فکر کریں اور امّت کی بھی فکر رکھیں۔اس سورہ مبارکہ میں اللہ جلّ شانہ نے رسول اللہﷺ کی ثناء خوانی کی اور اپنی بے پناہ محبّت و الفت کا تذکرہ کیا ہے اور اس بلند ترین مقام و مرتبہ کو بیان کیا ہے، جس سے نبی کریم ﷺ سرفراز کئے گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ شرف عظیم حاصل ہےکہ جب بھی اللہ تعالیٰ کا مبارک نام لیا جاتا ہے، تو اس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا مبارک نام بھی لیا جاتا ہے۔ چناں نچہ اسلام میں داخل ہونے کے لئے جو کلمہ پڑھا جاتا ہے، اس میں اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا مبارک نام بھی لیا جاتا ہے۔ اسی طرح اذان، اقامت، خطبہ اور تشہد میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کا مبارک نام لیا جاتا ہے، یہاں تک کہ اگر نماز میں رسول اللہ ﷺ کا نام نہ لیا جائے اور آپ پر درود نہ پڑھا جائے، تو نماز ناقص رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں رسول اللہ ﷺ کی قدر و منزلت اتنی زیادہ ہے کہ قرآنِ مجید میں بار بار انتہائی تعظیم و تکریم اور محبّت کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کا تذکرہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ورَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ کہ ہم نے آپ کا مقام و مرتبہ اور شہرہ بلند کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ یہ دنیا مصائب و مشکلات کا گھر ہے۔ چناں چہ انسان اپنی زندگی میں مختلف قسم کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے دوچار ہوتا ہے۔ کبھی صحت،مال و دولت اور اولاد کی وجہ سے مصیبتوں کا سامنا کرتا ہے، تو کبھی زمین و جائیداد کو لے کر پریشانیاں جھیلتا ہے۔ انسان خواہ جتنا بڑے عہدہ پر فائز ہو اس کی زندگی میں کچھ نہ کچھ پریشانیاں ضرور آتی ہیں، چاہے وہ ذہنی اور فکری پریشانیاں ہوں یا جسمانی اور جذباتی پریشانیاں ہوں۔اس سورہ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ ہمیں آگاہ کر رہے ہیں کہ ہم غمگین اور اداس نہ ہوں؛ کیونکہ ہرمصیبت کے بعد آسانی آتی ہے۔ لہذا اگر کوئی اللہ تعالیٰ کے دین پر ایمان رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل بھروسہ رکھتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے کلام اور رسول کریم ﷺ کی باتوں پر مکمل یقین رکھتا ہے تو وہ مصیبت کے بعد آسانی ضرور دیکھےگا اور اس کی زندگی میں تنگی کے بعد خوش حالی ضرور آئےگی۔اس مبارک سورہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہﷺ کو خطاب کیا جارہا ہے کہ جب آپ دین کی دعوت و تبلیغ اور دین کے مختلف شعبوں میں امّت مسلمہ کی ہدایت و رہنمائی کے فریضہ سے فارغ ہو جایا کریں، تو اپنے رب کی طرف(راغب) متوجہ ہو جائیں اور عبادت میں ہمہ تن مشغول ہو جائیں۔ کیونکہ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ، جب آپ دنیوی کاموں سے فراغت پائیں تو ہماری عبادتوں کی طرف راغب ہو جائیں، یعنی اپنی نیت خالص کر لے اپنی پوری رغبت کے ساتھ ہماری بارگاہ میں کھڑے ہو جائیں ۔علمائے کرام بیان کرتے ہیں کہ دینی کاموں میں مشغول لوگوں کے لئے جس طرح یہ اہم ہے کہ وہ دین کی تعلیم و تبلیغ کا کام کریں، لوگوں کی راہِ حق کی طرف رہنمائی کریں اور ان کو اعمالِ صالحہ کی ترغیب دیں، اسی طرح ان کے لئے یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ وہ عبادات الٰہیہ، تعلق مع اللہ، اصلاحِ نفس اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں خوب مجاہدہ کریں۔ مجاہد رحمہ اللہ اس سورہ کے آخری آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جب امر دنیا سے فارغ ہو کر نماز کے لئے کھڑے ہو تو محنت کے ساتھ عبادت کرو اور اخلاص کے ساتھ رب کی طرف توجہ کرو۔ اسی معنی کی وہ حدیث ہے جس کی صحت پر اتفاق ہے جس میں ہے کہ کھانا سامنے موجود ہونے کے وقت نماز نہیں اور اس حالت میں بھی کہ انسان کو پاخانہ پیشاب کی حاجت ہو ۔ [صحیح مسلم:560] ، ایک اور حدیث میں ہے کہ جب نماز کھڑی کی جائے اور شام کا کھانا سامنے موجود ہو تو پہلے کھانے سے فراغت حاصل کر لو ۔ [صحیح بخاری:5463] سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب فرض نماز سے فارغ ہو تو تہجد کی نماز میں کھڑا ہو۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہو کر بیٹھے ہوئے اپنے رب کی طرف توجہ کر۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، یعنی دعا کر، زید بن اسلم رحمہ اللہ اور ضحاک رحمہ اللہ فرماتے ہیں، جہاد سے فارغ ہو کر اللہ کی عبادت میں لگ جا۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اپنی نیت اور اپنی رغبت اللہ ہی کی طرف رکھ۔دانش مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان اپنی ترقّی کی فکر کرے اور امّت کی ترقّی کی بھی فکر کرے۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہئے کہ ہماری محنتیں اور کوششیں یک طرفہ نہ ہوں کہ ہم صرف اپنی فکر کریں اور امّت کو فراموش کر دیں یا یہ کہ صرف امّت کی فکر کریں اور اپنے آپ کو فراموش کر دیں۔ اس سورہ مبارکہ کی آخری آیات میں ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ دونوں میں توازن (برابری) قائم رکھیں۔ یعنی اپنی فکر کریں اور امّت کی بھی فکر رکھیں۔صلوا عليه وآله وصحبه أجمعين. آمين يارب العالمين