مفہوم حدیث
مذکورہ حدیث میں چند ایسی برائیوں کا ذکر ہے جو باہم مسلمانوں میں نفرت اور عداوت کا باعث بنتی ہیں۔ اور یہ ایسی معاشرتی برائیاں ہیں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں، اس حدیث پاک میں چند اخلاقی امور کی تلقین کی جا رہی ہے جو اصلاح معاشرہ کے لئے بے حد ضروری ہیں۔
پہلا امر : بدگمانی سے بچنا
بدگمانی، دوسرے کے متعلق جھوٹا وہم ہے، اور جو جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے
پس بدگمانی کی اکثر باتیں جھوٹی ہوتی ہیں ۔ امام بغوى رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ، برے گمان سے بچو، ایسا گمان جس میں دوسرے شخص کے ہر کام میں بدنیتی نظر آتی ہے، جس کے نتیجے میں دو افراد کے درمیان برادرانہ تعلقات خراب ہو جاتے ہیں۔ وہ گمان مراد نہیں جن کا انسان مالک ہی نہیں، دل میں خودبخود پیدا ہو جاتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں، اے ایمان والو! بہت ساری بدگمانی کی باتوں سے پرہیز کرو، بے شک بعض بدگمانی گناه ہیں۔سورہ الحجرات آیت12
مذکورہ آیت میں مطلق گمان کو گناہ نہیں گردانا گیا بلکہ بعض گمان کو گناہ کہا گیا ہے، اور وہ برا گمان ہے۔ اور وہ گمان جو گناہ نہیں وہ کسی کے متعلق حسن ظن رکھنا ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، یقیناً اچھا گمان بہترین عبادت ہے ،مسند احمد،رقم7943،سنن ابوداؤد، رقم4993
سفیان ثوری رحمة الله عليه کا کہنا ہے کہ گمان دو طرح کا ہے
انسان کسی کے متعلق برا گمان رکھے، اور اس کو آگے بیان بھی کرے، تو ایسے گمان پر گناہ ہے۔دوسرے سے مراد وہ گمان ہے جس کو انسان آگے بیان نہ کرے، ایسے گمان پر گناہ نہیں ہے۔
زجاج رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ بدکرداروں اور فاسقوں کے ظاہری اعمال سے جو کچھ ظاہر ہوتا ہے، ان کے بارے میں ویسا ہی (برا گمان) رکھنے میں کوئی حرج نہیں، اور جس مسلمان کا ظاہر اچھا ہے، اس کے بارے میں بدگمانی جائز نہیں۔ اور جس کا ظاہر خراب ہو، اس کے بارے میں بدگمانی رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوسرا امر: کسی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ بڑھانا
مراد یہ ہے کہ ایک چیز کا خریدنا منظور نہ ہو، لیکن دوسرے کو دھوکا دینے کے لئے جھوٹ سے اس چیز کی قیمت بڑھائے، اسی طرح کوئی شخص کسی شے کا بھاؤ کر رہا ہو تو تم اس میں دخل اندازی مت کرو۔ دھوکا دینے کے لئے جھوٹ سے بھاؤ بڑھانے والا گنہگار ہے۔
تیسرا امر : حسد نہ کرنا
حسد انسانی فطرت کا جزو لا ینفك ہے، حسد کے معنی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے پاس کوئی چیز یا نعمت دیکھے اور تمنا کرے کہ یہ چیز میرے پاس ہو، اور اس شخص (جس کے پاس وہ نعمت ہے) سے زائل اور ختم ہو جائے، جبکہ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ نعمت ہمیں اگرچہ حاصل نہ ہو لیکن وہ شخص بھی اس نعمت سے محروم ہو جائے۔ اس قسم کا حسد کرنے والے زیادہ خبیث اور بدکردار ہوتے ہیں۔ یاد رہے! اس حدیث میں حسد سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ حسد حرام ہے۔
الله تعالیٰ نے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو بالعموم تمام مخلوقات کے شر سے پناہ مانگنے کی تعلیم دی ہے، اور کچھ برائیوں سے بالخصوص پناہ مانگنے کی نصیحت فرمائی ہے، ان میں سے حسد بھی ہے۔ جیسا کہ سورة الفلق میں ہے، وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ … اے نبی! کہہ دیجئے: کہ میں حاسد کے حسد سے تیری پناہ چاہتا ہوں، جب وہ اپنا حسد ظاہر کرتا ہے۔
تاکہ محسود کو نقصان نہ پہنچائے، بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حاسد کے مفہوم میں وہ آدمی بھی داخل ہے جس کی نظر لگ جاتی ہے، اس لئے کہ جو آدمی حاسد، بدطینت اور خبیث النفس ہوتا ہے اسی کی نظر بری ہوتی ہے۔
عمر بن عبد العزیز رحمة الله عليه فرماتے ہیں ، میں نے حاسد سے زیادہ کسی ظالم کو مظلوم کے مشابہ نہیں دیکھا، حسد کے سبب ظالم ہوتا ہے، لیکن نعمت سے محرومی کے سبب مظلوم معلوم ہوتا ہے۔
حسد کے حرام ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ الله نے جسے کچھ بھی دیا ہے بغیر حکمت کے نہیں دیا، وہ خواہ اس کا فضل و کرم سہی، خواہ اس آدمی کی محنت کا صلہ ہو، دینے والا تو بہرحال الله خالق کل اور مختار کل ہے، تو نعمت پر اعتراض دراصل الله کے فضل و کرم پر اعتراض ہے، جبکہ مخلوق کو یہ حق حاصل نہیں کہ اپنے خالق پر اعتراض کرے وہ ہر چیز پر قادر ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ جب انسان کسی سے حسد کرتا ہے تو اپنے بھائی کے نقصان کے در پے ہوتا ہے، پھر غیبت، جھوٹ وغیرہ جیسی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ جس کا وہ مرتکب ہوتا رہتا ہے۔
چوتھا امر: رشک کرنا
لیکن رشک کرنا جائز و درست ہے، رشک یعنی دوسرے کو جو نعمت الله نے دی ہے، اس کی آرزو کرنا یہ درست ہے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، رشک تو دو ہی آدمیوں پر ہو سکتا ہے، ایک تو اس پر جسے الله نے قرآن مجید کا علم دیا اور وہ جس نے اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں کھڑا ہو کر نماز پڑھتا رہا۔ اور دوسرا آدمی وہ جسے الله تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اسے محتاجوں پر رات دن خیرات کرتا رہا ، [صحيح بخاري، رقم: 5025]
پانچواں امر:نفسانیت سے ایک دوسرے سے آگے نہیں بڑھنا
طبرانی رحمة الله عليه اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں”تم ایک دوسرے کی رِیس کرتے ہوئے، ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر دنیا کا مال و دولت حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو۔ بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر نیکی کے کام کرنے کی کوشش کرو۔“ فرمان باری تعالیٰ ہے ، انہی (نیکی کے) کاموں میں رغبت کرنے والوں کو رغبت کرنی چاہئے ۔المطففون:26
چھٹا امر : ایک دوسرے سے دشمنی پیدا نہ کرنا، بغض نہ رکھنا۔
بغض محبت کی ضد ہے، لہذا ایک دوسرے سے بغض رکھنے کے بجائے ایک دوسرے سے محبت رکھنی چاہئے، کیونکہ سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ سورہ الحجرات آیت 10 میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے
”بےشک مومنین آپس میں بھائی ہیں۔“
نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں بھی اسلامی اخوت کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، عبدالله بن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے رسوا کرے صحيح بخاری، رقم 2442
اور سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک مومن مومن کے لئے عمارت کی مانند ہے، جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو طاقت پہنچاتا ہے۔ اور آپ نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔صحیح بخاری رقم،481
اور اگر یہ بغض دین کی خاطر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ قرآن مجید میں کفار سے بغض رکھنے کا حکم ہے، اور ان سے دوستی اور محبت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہےکہ
اہل ایمان، مومنون کو چھوڑ کر کافروں کو ہرگز دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گا تو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں الایہ کہ تم ان کافروں کے شر سے بچنا چاہو اور اللہ تمہیں اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔سورہ آل عمران،آیت 28
ساتواں امر: ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرنا
اس حدیث میں ایک دوسرے سے قطع تعلقی کرنے، پشت پھیر لینے، منہ موڑ لینے اور بے رخی اختیار کرنے سے بھی منع کر دیا گیا ہے۔ ایک صحیح مسلم کی روایت میں «لَا تَقَاطَعُوْا» کے الفاظ بھی ہیں کہ ایک دوسرے سے تعلق نہ توڑو، غصہ انسانی فطرت کا حصہ ہے، اگر کسی دوست پر غصہ آ ہی جائے تو اسلام نے انسانی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے تین دن تک اسے جائز رکھا ہے، تین دنوں سے زیادہ روٹھے رہنا اور ایک دوسرے سے گفتگو نہ کرنا، یہ نفرت و حقارت کا سبب بن سکتا ہے اس صورتحال سے بچنے کے لئے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ، کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی کرے (بائیکاٹ کرے) دونوں آپس میں ملتے ہیں، ایک اس طرف منہ پھیر لیتا ہے اور دوسرا دوسری طرف رخ پھیر لیتا ہے۔ ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔ صحیح بخاری رقم6077
آٹھواں امر : الله کے بندوں کو آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنا
اس حدیث کے آخر میں بھائی بھائی بن کر رہنے کا حکم فرمایا ہے، تاکہ مسلمان آپس میں اکھٹے اور مضبوط رہیں۔ کیونکہ تم سب مسلمان ایک ہی برادری کے افراد ہو، مسلمان جہاں کہیں بھی ہو دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر کچھ حقوق ہیں جو اخوت اسلامی کے تقاضے بھی ہیں کہ دوسرے پر ظلم نہ کرے، ضرورت کے وقت اس کا ساتھ نہ چھوڑے، اس کو نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھے اور اس سے دروغ گوئی نہ کرے ۔