خلاصہ تفسیر سورہ الشمس آیت 1 تا 10 : قسم ہے سورج کی اور اس کی روشنی کی اور چاند کی جب سورج (کے غروب) سے پیچھے آوے ( یعنی طلوع ہو مراد اس سے وسط ماہ کی بعض شبوں کا چاند ہے کہ سورج کے چھپنے کے بعد طلوع ہوتا ہے اور یہ قید شاید اس لئے ہو کہ وہ وقت کمال نور کا ہوتا ہے جیسا کہ ضحاہا کا اشارہ ہے کہ کمال نور آفتاب کی طرف اور یا اس وقت دو آیة قدرت علی سبیل التعاقب والاتصال ظاہر ہوتی ہیں غروب شمس وطلوع قمر) اور (قسم ہے) دن کی جب وہ اس (سورج) کی خوب روشن کردے اور (قسم ہے) رات کی جب وہ اس (سورج) کو (اور اس کے آثار وانوار کو ) چھپالے (یعنی خوب رات ہوجاوے کہ دن کی روشنی کا کچھ اثر نہ رہے اور چاروں چیزیں جن کی قسم کھائی گئی ہے ان میں جو قیدیں لگائی گئی ہیں وہ ان کے کمال کے اعتبار سے ہیں، یعنی ہر ایک کی قسم ان کی حالت کمال کے اعتبار سے ہے) اور (قسم ہے) آسمان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو بنایا (مراد اللہ تعالیٰ ہے اس طرح ماطحاہا اور ماسواہا میں بھی اور مخلوق کی قسم کو خالق کی قسم پر مقدم فرمانا اس لئے ہوسکتا ہے کہ اس میں ذہن کو دلیل سے مدلول کی طرف منتقل کرنا ہے کیونکو مصنوع دلیل ہے صانع پر، تو اس میں استدلال علی التوحید کی طرف بھی اشارہ ہوگیا) اور (قسم ہے) زمین کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو بچھایا اور (قسم ہے انسان کی جان کی اور اس (ذات) کی جس نے اس کو (ہر طرح صورت وشکل اعضا سے) درست بنایا پھر اس کی بدکرداری اور پرہیزگاری (دونوں باتوں کا اس کو القا کیا) یہ اسناد باعتبار تخلیق کے ہے یعنی قلب میں جو نیکی کا رجحان ہوتا ہے یا جو بدی کی طرف میلان ہوتا ہے دونوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، گو القاء اول میں فرشتہ واسطہ ہوتا ہے اور ثانی میں شیطان پھر وہ رجحان ومیلان کبھی مرتبہ غرم تک پہنچ جاتا ہے جو کہ انسان کے قصد و اختیار سے صادر ہوتا ہے اسی قصد و اختیار پر عذاب وثواب مرتب ہوتا ہے جس کے بعد صدور فعل تخلیق حق ہوتا ہے اور کبھی عزم تک نہیں پہنچتا وہ معاف ہے۔ آگے مضمون کی تکمیل کے لئے اہل فجور و اہل تقویٰ کا مال بتلاتے ہیں کہ یقینا وہ مراد کو پہنچا جس نے اس (جان) کو پاک کرلیا (یعنی نفس کو فجور سے روکا اور تقویٰ اختیار کرلیا) اور نامراد ہوا جس نے اس کو (فجور میں) دبا دیا اور فجور سے مغلوب کردیا۔(تخریج از معارف القرآن۔مفتی اعظم محمد شفیع)
پہلی آیت سے لے کر آٹھویں آیت تک تمام قسموں کا جواب قسم یہ ہے کہ ” جس شخص نے اپنے نفس کو پاک کر لیاوہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے مٹی میں دبا دیا وہ ناکام ہوا۔ “ ان قسموں اور جواب قسم کی مناسبت یہ ہے (واللہ اعلم) کو یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے کے لئے پیدا فرمایا، جیسا کہ فرمایا :(ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعاً (البقرۃ : ٢٩)” وہ ذات کہ زمین میں جو کچھ ہے اس نے سب تمہارے لئے پیدا فرمایا۔ “ حتیٰ کہ آسمان کی چھت ، زمین کا فرش، سورج اور اس کی دھوپ ، اس کے بعد چاند اور اس کی چاندنی اور دن کو آفتاب کا اجالا، پھر رات کا اس کو ڈھانپ لینا اسی کے فائدے کے لئے ہے، فرمایا :(وسخر لکم الشمس والقمر دآئبین ، وسخر لکم الیل والنھار) (ابراہیم : ٣٣)” اور اس نے تمہارے لئے سورج اور چاند کو مسخر کردیا جو مسلسل چلنے والے ہیں اور تمہارے لئے رات اور دن کو مسخر کردیا۔ “ پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور نفس انسانی کو بہترین شکل و صورت میں بنا کر اسے نیکی اور بدی کی پہچان بھی کرادی۔ ہر آدمی ان سب چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتا اور شعور سے محسوس کرتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص ان عظیم الشان مخلوقات کو اور ان کے خالق کے احسانات کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر اپنے آپ کو کفر و شرکت اور ظلم و زیادتی سے پاک کرلیتا ہے یقیناً وہ اپنا مقصد تخلیق پورا کردینے کی وجہ سے کامیاب ہے اور جو شخص ان سب چیزوں سے آنکھیں بند کر کے اپنے نفس کو شہوت، غضب اور شرک و کفر کے کیچڑ میں دبا دیتا ہے وہ ناکام ہے۔(تخریج از تفسیر القرآن۔عبدالسلام بھاٹوی)
سورت میں اصل مضمون یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر اِنسان کے دِل میں نیکی اور بدی دونوں قسم کے تقاضے پیدا فرمائے ہیں، اب اِنسان کا کام یہ ہے کہ وہ نیکی کے تقاضوں پر عمل کرے، اور بُرائی سے اپنے آپ کو روکے۔ یہ بات کہنے کے لئے ﷲ تعالیٰ نے سورج، چاند ۔ دن اور رات کی قسمیں کھائی ہیں۔ اس میں شاید اشارہ ہے کہ جس طرح ﷲ تعالیٰ نے سورج کی اور دن کی روشنی بھی پیدا کی ہے، اور رات کا اندھیرا بھی، اسی طرح اِنسان کو نیکی کے کاموں کی بھی صلاحیت دی ہے، اور بدی کے کاموں کی بھی۔(تخریج از آسان ترجمہ القرآن۔مفتی اعظم محمد تقی عثمانی )