تحریر: رشید احمد گبارو: 29 مارچ 2020: اولی الامر اور کورونا وائرس کی وبا: کورونا وائرس کا زمانہ ہے۔ سائنسدانوں نے اسکو کوڈ 19 کا نام دیا ہے۔ یہ وائرس چین کے صوبہ ووہان سے پھیلا۔ زیر نظر مضمون جب لکھا جارہا ہے اسوقت چین نے اس پر کافی حد تک قابو پایا ہے۔ ساری دنیا میں یہ نظر نہ آنیوالا قاتل وائرس پھیل چکا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں ملک اٹلی میں ہوچکیں ہیں جہاں روزانہ ایک ہزار کیسز سامنے آرہے ہیں اور اب تک کی ہلاکتوں کی تعداد دس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ ملک امریکہ ہے جہاں کیسز باقی ممالک کے نسبت زیادہ ہیں۔ دنیا میں ہلاکتوں کی شرح تقریبا ڈھائی ہزار انسانوں کا ضیاع ہونا روزانہ ہے۔ اس وبا کے دوران پاکستان کے سارے صوبے بشمول راقم کا پاکستانی انتظامی صوبہ گلگت بلتستان بھی لاک ڈاون کے عمل سے گزر رہا ہے جہاں پر اس وبا سے متاثرہ لوگ ایران سے براستہ بلوچستان ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ یہاں گلگت پہنچ گئے ہیں۔ ۔ مسلمانوں کے مقدس مقامات خانہ کعبہ ، مسجد نبوی ، بیت المقدس ، کربلا، اور نجف اشرف بھی حکومت کے حکم پر بند ہیں۔ پاکستان کے سارے مساجد ، خانقاہیں، اور امام بارگاہیں بھی بند ہیں۔ ساری دنیا اس وقت ایک نفسیاتی کیفیت سے گزر ر رہی ہے۔ کوئی ذی شعور انسان گھر سے باہر نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سماجھی دوری اور گھر میں پڑے کام سے فراغت میں وہم بڑھتا جارہا ہے۔ کورونا وائرس کے خوف سے نکلنے کے لئے حکمران وقت ، بڑے بڑے سائنسدان ، ڈاکٹرز اور علما اقدامات کے بارے سوچ و بیچار میں مصروف عمل ہیں۔ ہر طرف خوف اور ڈر کا سما ہے۔ حکمران فیصلے لینے میں بھی نفسیاتی کیفیت کے شکار ہیں۔ فوج کے دستے انتظامیہ کی مدد کے لئے کوشاں ہیں۔ مختلف شہروں میں قرنطینہ کے مراکز قائم کئے گئے ہیں۔ مشتبہ کورونا کیسز کی چھان بین جاری ہے۔ جس کو بھی مشتبہ کورونا مریض قرار دیا جاتا ہے اس کو قرنطینہ میں لے جایا جاتا ہے ، اسکا ٹیسٹ کیا جاتا ہے، اگر رپورٹ مثبت ہو تو اس کو قرنطینہ میں لے جاکر انتہائی نگہداشت میں رکھا جاتا ہے جبکہ منفی رپورٹ کی صورت میں گھر بیجھدیا جاتا ہے۔ فوج اور انتظامیہ داخلی اور خارجی راستوں کی کڑی نگرانی میں ہیں۔ عجیب اتفاق ہے لوگ دم اور تعویذ لینے سے اجتناب کررہے ہیں، گویا سارے پیروں اور عاملوں کی چھٹی ہوچکی ہے۔ لوگ سماجھی فاصلوں کو بڑھا رہے ہیں ایک دوسرے کو چھونا تو دور قریب بھی جانے سے اجتناب کررہے ہیں۔ حکمران اور قائدین کے سیاست کے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے مخیر حضرات خیرات دینے سے بھی اجتناب کررہے ہیں۔ عوامی اور حکومتی حلقوں نے ڈاکٹروں اور طبی عملے کو مسیحاؤں اور قومی ہیروز کے درجے پر فائز کیا ہوا ہے۔ ہمارے صوبے میں اس وبا سے پہلا جا بحق ہونے والا مریض بھی چلاس دیامر کا ایک نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض ہے۔ حکومت نے کورنا کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض کو قومی ہیرو قرار دیا ہے اور اعلی ملکی تمغہ کے لئے نامزد کیا ہے۔ فلائٹ آپریشن برائے اندرون اور بیرون ملک بھی بند ہے۔ عوام کو اپنے گھروں میں محدود رہنے کی تلقین جاری ہے۔ لاوڈ اسپیکر کے ذریعے لوگوں کو گھروں سے نہ نکلنے کے اعلانات جاری ہیں۔ حکمران حالات کے کنٹرول ہونے کے دعوے فرمارہے ہیں۔ پولیس ، فوجی ، اور عوام ڈاکٹروں کو جگہ جگہ سلام پیش کرتے ہوئے ٹی وی اور سوشل میڈیا کے زریعے نظر آتے ہیں ۔لاک ڈاون کے باعث دوسرے ییماریوں سے متاثر مریض پریشان حال ہیں۔ حکومت شہریوں سے گھروں میں رہنے کے لئے تعاون کی درخواست کر رہی ہے۔ اب تک ملک میں تقریباً دو سو قرنطینہ کے مراکز قائم ہوچکے ہیں۔ حتی کہ بلوچستان میں تین سو لوگوں کے لئے ایک کنٹینر کو قرنطینہ میں تبدیل کیا چکا ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق قرنطینہ میں رکھے گئے زیادہ تر لوگوں کی تعداد ایران سے واپس پاکستان آنے والے زائرین کی ہے۔ جبکہ اس سے پیشتر حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ چین میں پھنسے پاکستانی واپس نہیں آسکتے یہ بہر حال ایک اچھا فیصلہ تھا جبکہ اس فیصلے پر کافی ردعمل بھی آیا تھا۔ بتا یا جاتا ہے کہ تقریباً دس لاکھ کم و بیش لوگ بیرون ممالک سے پاکستان آچُکے ہیں۔ ایران کے علاوہ دوسرے ممالک سے آنے والے پاکستانی میں سے کتنے لوگ اس وبا سے متاثرہ تھے یہ ایک معمہ ہے ، اور ان سے ملنے والے کتنے مزید لوگ متاثر ہیں یہ بھی پتہ نہیں۔ اب تک کی سرکاری رپورٹ کے مطابق مملکت خداداد پاکستان میں اس وبا سے متاثرہ لوگوں کی تعداد پندرہ سو سے زیادہ ہے جس میں سے ایک درجن سے زائد ہلاکتیں رپورٹ ہیں۔ حکومت کا دعوٰی ہے کہ اس وبا کے تشخیص کے لئے درجنوں لیبارٹریوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ آئندہ ہفتے کی اعداد شمار کے بارے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ حکومت بس یہی کہتی ہے کہ کورونا کا علاج ۔۔ احتیاط ۔ احتیاط اور بس احتیاط۔۔۔۔ہے ۔۔ اب تک لیبارٹری ٹیسٹنگ کی صلاحیت بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کی برابر ہے۔ پنجاب میں بروقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے اس وبا سے متاثر مریضوں کی تعداد باقی صوبوں کی نسبت زیادہ ہے۔ بلکہ یہ تاثر ہے کہ لاہور اس وقت اس وبا کا مرکز بنا ہوا ہےجہاں پر ابھی تک مکمل لاک ڈاؤن نہیں ہے۔ وفاقی حکومت یہ بیانیہ دے رہی ہے کہ ہمیں غریبوں کی فکر ہے۔ حالانکہ لوکل ٹرانسمٹ کے بھی خاطر خواہ مثبت کیسز آرہے ہیں۔ سندھ میں بروقت لاک ڈاون کی وجہ سے تعداد کی شرح میں کمی واقع ہورہی ہے ۔ لیکن ابھی تک کے اطلاعات کے مطابق سندھ میں صرف پانچ ہزار ٹیسٹ ہوچکے ہیں۔ یہ اطلاع اطمینان بخش اس لئے نہیں ہے کہ چین میں روزانہ دس ہزار جبکہ کوریا میں روزانہ بیس ہزار ٹیسٹ ہورہی ہیں جس کے وجہ سے ان ممالک نے اس بے رحم وبا سے تقریباً نجات پائی ہے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ چین پاکستان کو اس وبا میں طبی امداد بشمول ڈاکٹرز اور ٹیسٹنگ کٹ کے پہنچا دیا ہے۔ پوری دنیا میں متاثرہ افراد کی تعداد اب تک چھ لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ جس میں سے تقریباً تیس ہزار ہلاکتیں رپورٹ ہیں۔ اور ہلاکتیں ایک خاص شرح سے روز بہ روز بڑھ رہی ہیں۔ دنیا کے امیر و غریب ، شہزادے اور حکمران بھی اس وبا کے لپیٹ میں آچُکے ہیں۔ ہر سطح پر حکومتی اقدامات اور انتظام کا جائزہ لیا جارہا ہے ایک عام آدمی کو اعداد و شمار کا اندازہ لگانے کے لئے قارئین کے نذر تاریخ کے اوراق سے ایک واقعہ پیش خدمت ہے جس سے خود اندازہ لگائیں کہ حساب کتاب کیسے لگائے جا سکتے ہیں:۔
“ برصغیر میں تقریباً سترہ سو سال قبل گپتا مہاراجوں کی حکومت قائم تھی اور اس دور میں ’’سیسا‘‘ نامی ایک شخص نے شطرنج کا کھیل ایجاد کیا۔ سیسا شطرنج کا کھیل لے کر بادشاہ کے پاس حاضر ہوا تو بادشاہ بہت خوش ہوا اور اسی خوشی کے بدلے میں سیسا سے پوچھا کہ’’مانگو کیا مانگتے ہو‘‘سیسا نے بادشاہ سے عرض کیا کہ ’’حضور چاول کے چند دانے وہ بھی اس طرح کہ بساط کے 64 خانے بھر دیں لیکن میرے فارمولے کے مطابق‘‘بادشاہ نے پوچھا ’’یہ فارمولا کیا ہے‘‘سیسا بولا ’’آپ پہلے دن پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھ کر مجھے دے دیجئے،دوسرے دن دوسرے خانے میں پہلے خانے کے مقابلے میں دگنے چاول یعنی چاول کے دو دانے رکھ دیجئے، تیسرے دن تیسرے خانے میں دوسرے خانے کے مقابلے میں پھر دگنے چاول یعنی چار دانے رکھ دیں اور اسی طرح آپ ہر خانے میں چاولوں کی مقدار کو ڈبل کرتے چلے جائیں حتی کہ چونسٹھ خانے پورے ہو جائیں‘‘۔ بادشاہ نے سیسا کے مطالبے پر قہقہہ لگایااور یہ شرط قبول کرلی ۔ یہ بظاہر تو آسان سا حساب و شمار تھا لیکن حقیقت میں یہ دنیا کا مشکل ترین معمہ تھا۔بادشاہ نے پہلے دن شطرنج کے بساط کے پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھا اور اسے اٹھا کر سیسا کو دے دیا، سیسا چلا گیا، دوسرے دن دوسرے خانے میں چاول کے دو دانے رکھ دئیے گئے، تیسرے دن تیسرے خانے میں چاولوں کی تعداد چار ہو گئی، چوتھے روز آٹھ چاول ہو گئے، پانچویں دن ان کی تعداد 16ہو گئی، چھٹے دن یہ 32ہو گئے، ساتویں دن یہ 64ہو گئے، آٹھویں دن یعنی شطرنج کے بورڈ کی پہلی قطار کے آخری خانے میں 128چاول ہو گئے، نویں دن ان کی تعداد 256ہو گئی ، دسویں دن یہ 512ہو گئے، گیارہوں دن ان کی تعداد 1024ہو گئی، بارہویں دن یہ 2048ہو گئے،تیرہویں دن ان کی تعداد 4096، چودہویں دن یہ 8192ہو گئے، پندرہویں دن یہ 16384ہو گئے۔ سولہویں دن یہ 32768 چاول کے دانے ہو گئے اور یہاں پہنچ کر شطرنج کی دو قطاریں مکمل ہو گئیں اور بادشاہ کو تھوڑا تھوڑاسا اندازہ ہونے لگا کہ وہ مشکل میں پھنس چکا ہے کیونکہ وہ خود اور اس کے سارے وزیر اور عمال سلطنت سارا دن بیٹھ کر چاول گنتے رہتے تھے۔شطرنج کی تیسری قطار کے آخری خانے تک پہنچ کر چاولوں کی تعداد 80لاکھ تک پہنچ گئی اور بادشاہ کو چاولوں کو میدان تک لانے اور سیسا کو یہ چاول اـٹھانے کیلئے درجنوں لوگوں کی ضرورت پڑ گئی۔قصہ مختصرجب شطرنج کی چوتھی قطار یعنی 33واں خانہ شروع ہوا توپورے ملک سے چاول ختم ہو گئے، بادشاہ حیران رہ گیا ، چنانچہ سلطنت کے سارے ریاضی دا ن اور مہندسین بلوائے اور ان سے پوچھا کہ شطرنج کے 64خانوں کیلئے کتنے چاول درکار ہونگےاور ان کیلئے کتنے دن چاہئیں۔ بادشاہ کے سارے ماہرین ہندسیہ اور ریاضی دان کئی دنوں تک بیٹھے رہے لیکن وقت اور چاولوں کی تعداد کا اندازہ نہیں لگا سکے۔ یہ اندازہ تقریبا سترہ سو سال بعد بل گیٹس نے لگایا تھا۔بل گیٹس کا خیال ہے کہ اگر ہم ایک کے ساتھ انیس19زیرو لگائیں تو شطرنج کے 64خانوں میں اتنے چاول آئیں گے۔بل گیٹس کا کہنا ہے کہ اگر ہم ایک بوری میں ایک ارب چاول بھریں تو ہمیں چاول پورے کرنے کیلئے 18ارب بوریاں درکار ہوں گی۔ آپ بھی یہ حساب و شمار کر کے دیکھ لیں ، آپ بھی حیران رہ جائیں گے۔مگر یہ یاد رکھئیے کہ یہ حساب عام کلکولیٹر کے ذریعے نہیں لگایا جا سکے گا، یہ صرف کمپیوـٹر کے ذریعے ہی کلکولیٹ کیا جا سکتا ہے۔اس حساب و شمار کو مینجمنٹ کی زبان میں چیس بورڈ رائس یاسیکنڈ ہاف آف دی چیس بورڈ کہا جاتا ہے۔شطرنج بنانے والے اور گپتا بادشاہ کو اس خوفناک مسئلے میں پھنسانے والے سیسا کو بادشاہ نے شطرنج کی چوتھی قطار پر پہنچ کر بہر حال گرفتار کروا دیا تھا کیونکہ بادشاہ کو شطرنج کے بساط کے وسط میں پہنچ کر چاول پورے کرنے کیلئے ساڑھے پانچ دن لگ گئے تھے۔وہ اگلے خانوں کی طرف بڑھا تو ملک سے چاول ختم ہو گئے، جس سے بادشاہ جھلا اٹھا اور انتہائی غصے میں شطرنج بنانے والے کا سر قلم کروا دیا اور یوں شطرنج کا موجد قتل کیا گیا لیکن شطرنج کی سر دردی آج تک قائم ہے۔
اگر ہم شطرنج کی بساط والا واقعہ سمجھ لینے کے بعد بھی احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کریں اور سماجھی دوری اختیار نہ کریں تو یہ وبا دوسروں میں ایک کے بعد دو اور چار کی صورت میں پھیلے گی اور مسلسل پھیلتا جائے گا حتی کہ زمیں میں سب ہلاک ہو جائیں۔ حکمران کے رعایا پر بڑے موثر اثرات ہوتے ہیں ، اگر حکمران ہر دلعزیز ہو تو رعایا جلدی بات مان جاتی ہے ۔ اگر حکمران لوگوں میں ناپسندیدہ ہو تو وہ اس کی بات قطعا نہیں مانتی ، لہذا ایسی صورت میں احتیاطی تدابیر اپنانے کے لئے حکمرانوں کو رعایا پر سختی کرنی پڑتی ہے جس کا واحد حل کرفیو یا لاک ڈاون ہوتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی قرآن میں حکم دیتے ہیں کہ جو بات تمھارے فائدے میں ہو اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے مخالف نہ ہو تو اولی الامر کی اطاعت فرض عین ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ھوتا ھے:-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا○ (النساء:۵۹)
ترجمہ؛”اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور والیانِ امر کی جو تم میں سے ہوں. پھر اگر باہم جھگڑ پڑو کسی چیز میں تو اس کو لوٹا دو اللہ اور رسولؐ کی طرف اگر یقین رکھتے ہو اللہ پر اور آخرت کے دن پر یہ اچھا ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی یہی بہتر ہے۔۔”۔۔۔ یہ آیت مبارکہ اس اعتبار سے قرآن حکیم کی اہم ترین آیات میں شمار ہوتی ہے کہ اسلامی ریاست کے اندر جو کچھ بھی دستوری اور قانونی نظام قائم کیا جائے گا اس کے لئے راہنمائی کا یہ گویا سب سے بڑا سر چشمہ ہے. اللہ کی اطاعت اور رسولؐ کی اطاعت کے بارے میں تو کوئی بحث نہیں اور نہ شک ہے ‘ مگر اولی الامر کی اطاعت کے معاملے کو تھوڑا سا تجزیہ کر کے سمجھ لینا ضروری ہے۔ اطاعت کی دو لازمی شرائط (۱) ؛ آیت مبارکہ میں “اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ” کے الفاظ آئے ہیں‘ یعنی اولی الامر جو خود تم میں سے ہوں. اولی ٔامر اگر غیر مسلم ہو تو اس کا اطلاق مجبوری کے تحت مشکل ترین اور معروضی حالات میں ہو گا اور ایسے حکمران کی اطاعت اگر بطور خوشآمد کی جائے گی تو اس سے اسلام کی نفی ہو جائے گی. غیر مسلم حکمران کی اطاعت مجبوراً تو کی جاسکتی ہے‘ برضا و رغبت نہیں! مثال کے طور پر اگر کسی غیر مسلم حکمران نے مسلمانوں کا کوئی علاقہ بزورِ شمشیر فتح کر لیا ہو یا کسی نے کسی مسلمان کو جبراً گرفتار کر کے غلام بنا لیا ہو‘ جیسے افریقہ سے ہزاروں مسلمانوں کو جبری طور پر غلام بنا کر لوہے کی زنجیروں میں جکڑ کر امریکہ لے جایا گیا‘ تو ایسی صورت میں ایک مسلمان ایک غیرمسلم اولی الامر کی اطاعت پر مجبور ہے۔ اولی الامر کے بارے میں اسلامی مفسرین کے درمیان بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ھے: بعض مفسرین کہتے ہیں ؛ (الف):-کہ “اولوا الامر ” سے مراد ہر زمان و مقام کے حکام وقت اور بادشاہ ہیں اور اس میں کسی طرح کا کو ئی استثنا نہیں ہے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کی پیروی کریں۔ ( ب) :- کہ اولوا الامر سے مراد عوام الناس کے نمائندے، حکام وقت، علمااور صاحبان منصب ہیں ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان کا حکم اسلامی قوانین کے برخلاف نہ ہو۔ (۲) ؛ اللہ جل سبحانہٗ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت مستقل بالذات ہے‘ لیکن اولی الامر کی اطاعت اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کے تابع اور اس سے مشروط ہے. یہ اطاعت کبھی بھی غیر مشروط نہیں ہو سکتی‘ بلکہ ہمیشہ سے مشروط رہی ہے اور ہمیشہ مشروط ہی رہے گی. یعنی اولی الامر میں اتباع رسولﷺ کا ہو نا لازمی ہے ’’اولی الامر‘‘ کون ہیں؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اولی الامر کون ہیں؟ ہم اس کا بھی تجزیہ کرتے ہیں. اولی الامر معاشرتی نظام میں بھی ہیں اور سیاسی نظام میں بھی. چنانچہ گھر کا سربراہ اپنے گھر کے لئے اولی الٔامر ہے. اسی طرح معاشرتی نظام میں ہر جگہ درجہ بدرجہ ہر شخص کی جو بھی حیثیت ہے‘ اس کے اعتبار سے وہ اپنے دائرے اور حلقہ احباب کے اندر صاحب ِ امر ہے. لہذا اطاعت کا سلسلہ صرف حاکم ِ اعلیٰ تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے. بیوی کے لیے شوہر والی ٔامر ہے‘ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا: ۔
فَالصّٰلِحٰتُ قٰـنِتٰت ○ (النساء:۳۴)
ترجمہ: ” کہ نیک بیویاں وہی ہیں جو اپنے شوہروں کی فرمانبردار ہیں”۔۔۔۔۔۔ بیوی کے لیے شوہر کے ہر حکم کی اطاعت لازم ہے‘ اِلا یہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت سے متصادم ہو. ایسی صورت میں لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ کا ابدی اصول مدنظر رکھا جائے گا. مزید برآں‘ ماتحت امراء کا شمار بھی اولی الامر میں ہوتا ہے. ایسے امراء رسول اللہﷺ کے زمانے میں بھی ہوتے تھے‘ جیسے کہیں کوئی لشکر بھیجا جاتا تو اس کا کسی کو سپہ سالار مقرر کیا جاتا‘ کہیں کوئی چھوٹا دستہ بھیجا جاتا تھااور کسی کو امیر بنایا جاتا. مذید تفصیل کے لئے حضورﷺ کی حیاتِ طبیہ کے دو واقعات قارئین کے نذر ہیں : کہ غزوۂ اُحد میں ۳۵ حضرات کی طرف سے اپنے امیر حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی حکم عدولی کا واقعہ بہت مشہور ہے. انہیں رسول اللہﷺ نے پچاس تیر اندازوں کا امیر مقرر کر کے ایک درّے پر متعین کیا تھا اور ان حضرات کو حکم دیا تھا کہ آپ لوگ اس درّے کو مت چھوڑیں خواہ ہمیں شکست ہو جائے‘ ہم سب قتل ہو جائیں اور آپ لو گ دیکھیں کہ پرندے ہمارا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں. ان حضرات نے جب اپنے لشکر کو فتح سے ہمکنار ہوتے اور دشمن کو راہِ فرار اختیار کرتے دیکھا تو درّے کو چھوڑ کر جانے لگے‘ کیونکہ ان کے خیال میں حضورﷺ نے درّے کو نہ چھوڑنے کاجو حکم دیا تھا وہ شکست کی صورت میں تھا. لوکل کمانڈر حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ انہیں روکتے رہے‘ لیکن ان پچاس میں سے ۳۵ صحابہ کرامؓ درّے کو چھوڑ گئے. ماتحت امیر کے حکم کی خلاف ورزی کی ، جس کی سزا اللہ تعالیٰ کی طرف سے فوری طو ر پر یہ دی گئی کہ جیتی ہوئی جنگ کا پانسہ پلٹ دیا گیا. سورۂ آل عمران میں اس کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے:-
وَ لَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَ تَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ عَصَیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰىکُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ○ ؕ (آیت ۱۵۲)
ترجمہ: “اور اللہ نے تو تمہیں اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تھا جب تم انہیں اس کے حکم سے گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے تھے. یہاں تک کہ تم ڈھیلے پڑے اور تم نے نظم کو توڑا اور تم نے نافرمانی کی‘ بعد اس کے کہ میں تم کو وہ چیز دکھا چکا جو تمہیں بہت محبوب ہے۔ یعنی فتح”۔۔۔۔؛ یہاں نافرمانی سے مراد رسول اللہﷺ کی نافرمانی نہیں‘ بلکہ ماتحت کمانڈر کی نافرمانی ہے‘ کیونکہ رسول اللہﷺ کے حکم کی تو انہوں نے تاویل کر لی تھی. اسی طرح ایک بار رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایک دستہ کہیں بھیجا اور ان میں سے ایک صاحب کو اس کا امیر مقرر کیا.یہ صاحب ذرا جلالی مزاج کے مالک تھے‘ کسی بات پر اپنے ساتھیوں سے ناراض ہو گئے اور یہ ناراضگی اس حد تک پہنچی کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کو ایک بہت بڑا گڑھا کھودنے کا حکم دیا. جب انہوں نے گڑھا کھود دیا تو ان سے کہا کہ اس کے اندر لکڑیاں جمع کرو. لکڑیاں جمع کر دی گئیں تو انہیں آگ لگانے کا حکم دیا. جب آگ بھڑک اٹھی تو ساتھیوں سے فرمایا کہ اب اس آگ کے اندر کود جاؤ! اس پر ساتھیوں نے کہا کہ اس آگ سے بچنے کے لیے تو ہم نے محمد(ﷺ ) کا دامن تھاما ہے‘ ہم اس میں داخل ہونے کو تو تیار نہیں ہیں. جب واپس آ کر یہ معاملہ رسول اللہﷺ کے سامنے پیش کیا گیا تو حضورؐ نے ان کی تصویب کی اور فرمایا کہ اگر یہ لوگ اپنے اس امیر کا حکم مان کر آگ میں کود پڑتے تو ہمیشہ آگ ہی میں رہتے. اس لیے کہ یہ خود کشی ہوتی جس کی سزا خلود فی النار ہے. چنانچہ ماتحت امراء کی اطاعت رسول اللہﷺ کے زمانے میں بھی اللہ اور رسول کے حکم کے تابع تھی‘ اس دائرے سے خارج نہ تھی اور آپؐ کے بعد بھی یہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کے ساتھ تا قیامت مشروط رہے گی. ان شا اللہ۔ مندرجہ بالا بحث سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ رعایا حکمران کی بات مان لیں اور کورنا وائرس کے پھیلنے کے پیش نظر احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ اس جان لیوا مرض سے نبرد آزما ہونے کے لئے سماجھی فاصلہ رکھیں اور ڈاکٹروں کے ہدایات کے مطابق عمل کریں ۔ گھروں سے مت نکلیں اور نہ ہی گھر کسی کوآنے کی اجازت دیں اور اجتماعات سے گریز کریں۔ حکمرانوں کو چاہئے کہ عوام کو گھر میں رہنے پر مجبور کریں اور گھر پر ہی کورونا وائرس کے ٹیسٹنگ کرنے کے لئے فوری اقدامات کریں۔ اسلام انسانیت پر احسان کرنے والا مذہب ہے اور ہمارے آقا رسول کریم محمد مصطفی احمد مجتبٰی ﷺ محسن انسانیت ہیں اور آپ ﷺ کی زندگی ہمارے لئے حکمرانی ، اخلاق ، رہن سہن اور عبادت خداوندی کا بہترین نمونہ ہے۔ارباب اختیار کو چاہئے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اللہ کا حکم اور نبی کی سنت اور تعلیمات کو مد نظر رکھیں ۔۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:-
وأمرھم شوریٰ بینھم (شوریٰ : ۳۶) وشاورھم فی الأمر (آل عمران : ۱۵۹
رسول اللہ کو حکم فرمایا گیا کہ آپ اہم مسائل میں اپنے رفقاء سے مشورہ کیا کیجئے
حالاںکہ رسول اللہ کو وحی جیسا ذریعہ علم حاصل تھا اور آپ کو بظاہر مشورہ کی ضرورت نہیں تھی ؛ لیکن پھر بھی آپ کو مشورہ کی تلقین فرمائی گئی ؛ تاکہ اُمت اس کو اپنے لئے اُسوہ بنائے ۔