سنت تواترہ۔۔۔ نماز تراویح رمضان کے مہینے میں عشاء کی فرض اور دو رکعت سنت مؤکدہ نماز کے بعد اور وتر واجب سے پہلے باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ جو بیس رکعت پر مشتمل ہوتی ہے اور دو، دو ، رکعت کرکے پڑھی جاتی ہے۔ ہر چار رکعت کے بعد وقفہ ہوتا ہے۔ جس میں تسبیح و تحلیل ہوتی ہے اور اسی کی وجہ سے اس کا نام تروایح ہوا۔ حضور ﷺ نے رمضان شریف میں رات کی عبادت کو بڑی فضیلت دی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلی تروایح کے باجماعت اور اول رات میں پڑھنے کا اہتمام فرمایا اور اُس وقت سے اب تک یہ اسی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی امامت بالعموم حافظ قرآن کرتے ہیں اور رمضان کے پورے مہینے میں ایک بار سنت ہے اور زیادہ مرتبہ قرآن شریف پورا ختم کیا جا سکتا ہے اہل السنہ والجماعہ بیس رکعت پڑھتے ہیں اور اہل حدیث/سلفی حضرات کے ہاں آٹھ رکعت تروایح کے بعد 3وتر بھی باجماعت پڑھے جاتے ہیں ۔یعنی سلفی 11رکعات پڑھتے ہیں۔صحیح بخاری شریف کی مشہور و معروف شرح لکھنے والے حافظ ابن حجر عسقلانی نے تحریر کیا ہے کہ تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔ رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے چار فرض اور دو رکعت سنت مؤکدہ کےبعد بیس رکعت سنت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابہٴ کرام کا اتفاق اس امر پر ہو گیا کہ ہر دو کعت کے بعد سلام پھیرنا کے بعد (یعنی چار رکعت ) کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے۔(تخریج از : فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح)امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہر رات بیس یعنی پانچ ترویحہ وتر کے علاوہ پڑھنا سنت ہے۔(تخریج از :فتاوی قاضی خان ج1ص112)علامہ علاء الدین کاسانی حنفی رح لکھتے ہیں کہ جمہور علما کا صحیح قول یہ ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نےحضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی امامت میں صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انھوں نے بیس رکعت تراویح پڑھائی اور صحابہ کرام کی طرف سے اجماع تھا۔(تخریج از : بدائع الصنائع)امام سیدنا مالکبن انس رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کے مشہور قول کے مطابق تراویح کی 36 رکعت ہیں؛جبکہ ان کے ایک قول کے مطابق بیس رکعت سنت ہیں۔ علامہ ابن رشدقرطبی مالکی رح فرماتے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک قول میں بیس رکعت تراویح کو پسند فرمایا ہے۔(تخریج از : بدایہ المجتہد ج1 ص 214)مکہ المکرمہ مسجد حرام میں تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد ترویحہ کے طور پر مکہ المکرمہ کے لوگ ایک طواف کر لیا کرتے تھے، جس پر مدینہ منورہ والوں نے ہر ترویحہ پر چار چار رکعت نفل پڑھنی شروع کر دیں تو اس طرح امام مالک کی ایک رائے میں 36رکعت (20 رکعت تراویح اور 16 رکعت نفل) ہوگئیں۔امام سیدنا محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے بیس رکعت تراویح پسند ہیں، مکہ مکرمہ میں بیس رکعت ہی پڑھتے ہیں۔( تخریج از : قیام اللیل ص 159)ایک دوسرے مقام پر امام شافعی رحمہ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھتے پایا ہے(تخریج از : ترمذی ج 1 ص 166 المجموع )علامہ نووی شافعی رح لکھتے ہیں کہ تراویح کی رکعت کے متعلق ہمارا (شوافع) مسلک وتر کے علاوہ دس سلاموں کے ساتھ بیس رکعت کا ہے اور بیس رکعت پانچ ترویحہ ہیں اور ایک ترویحہ چار رکعت کا دوسلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ اور ان کے اصحاب اور امام سیدنا احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی علیہ اور امام داوٴد ظاہری رح کا مسلک ہے اور علامہ قاضی عیاض رح نے بیس رکعت تراویح کو جمہور علما سے نقل کیا ہے۔(تخریج از : المجموع)فقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان علامہ ابن قدامہ رح لکھتے ہیں : امام ابو عبد اللہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کا پسندیدہ قول بیس رکعت کا ہے اور علامہ سفیان ثوری رحمہ اللہ تعالٰی علیہ بھی یہی فرماتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہٴ کرام کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے، نیز امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کا استدلال روایات سے بقول علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کے بمنزلہ اجماع کے ہے۔ نیز فرماتے ہیں جس چیز پر رسولﷺ کے صحابہ عمل پیرا رہے ہوں، وہی اتباع کے لائق ہے۔(تخریج از : المغنی لابن قدامہ ج2 ص139، صلاة التراویح) شریعت کی اصطلاح میں تراویح وہ نماز ہے جو سنت مؤکدہ ہےاور رمضان المبارک کی راتوں میں عشاء کی نماز کے بعد سے صبح صادق کے درمیان جماعت کے ساتھ یا اکیلے پڑھی جاتی ہے،عام رواج اور معمول عشاء کے بعد متصل پڑھنے کا ہے۔( تخریج از : اوجز المسالک، 2/514 ، باب ما جاء فی قیام رمضان) ”صحیح بخاری ” میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک میں ایک الگ جگہ بنائی ، وہ چٹائی کا ایک چھپر تھا، آپ ﷺ نے وہاں کئی راتیں نماز پڑھی، آپ ﷺ کے صحابہ نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھی۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے مسجد میں نماز پڑھائی اور آپﷺ کی اقتدا میں لوگوں نے بھی نماز پڑھنا شروع کردی، اگلے دن لوگ زیادہ ہوگئے، تیسرے دن لوگ جمع ہوئے، لیکن نبی کریمﷺ باہر نہ نکلے ، جب صبح ہوئی آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے وہ دیکھا جو تم لوگوں نے کیا، مجھے تم لوگوں کے پاس آنے سے صرف یہ بات رکاوٹ تھی کہ یہ نماز تم پر فرض کر دی جائے گی، یہ رمضان کا واقعہ تھا۔مصنف ابن ابی شیبہ ، معجم طبرانی اور بیہقی میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سےروایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رمضان میں وتر کے علاوہ بیس رکعات پڑھتے تھے۔ان روایات سے معلوم ہوا کہ باجماعت تراویح کا ثبوت نبی کریم ﷺ ثابت ہے، فرضیت کے اندیشہ سے آپ ﷺ نے عمداً مداومت نہیں فرمائی۔عہدِ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین میں جب یہ اندیشہ نہ رہا تو سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سب کو ایک امام پر اکھٹا کرکے باجماعت تراویح کا فیصلہ کیا، چناں چہ ”موطا امام مالک” میں ہے کہ حضرت الرحمن بن عبد القاری رح فرماتے ہیں کہ میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مسجد کی جانب نکلا، دیکھا کہ لوگ مختلف جماعتوں میں بٹے ہوئے ہیں، کچھ اکیلے نماز پڑھ رہے ہیں ، کچھ کے ساتھ ایک چھوٹی جماعت شریک ہے، یہ دیکھ کر امیرالمومنین سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا میری رائے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ ایک قاری کے پیچھے جمع ہو کر نماز پڑھیں تو زیادہ مناسب ہوگا، پھر آپ نے اس کا پختہ ارادہ فرمایا اور سب کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اقتداء پر جمع فرمایا ، جب اگلی رات مسجد کی جانب نکلے تو لوگ اپنے قاری یعنی سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے تو سیدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ یہ نیا کام بہت ہی اچھا ہے۔ اور وہ نماز جس کے وقت تم سوتے ہو وہ اس سے بہتر جو تم قائم کرتے ہو، یعنی رات کے آخری پہر کی نماز، اور لوگ اس وقت رات کے ابتدائی حصے میں یہ قیام کیا کرتے تھے۔”موطا امام مالک” میں حضرت یزید بن رومان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں رمضان میں وتر کے ساتھ تئیس رکعات پڑھا کرتے تھے۔(تخریج از : موطا امام مالک، ج:1، ص:109، ط:مؤ سسہ الرسالہ ، ج:2، ص:159، ط:مو سسہ زاید بن سلطان۔تخریج از: صحیح بخاری ج:9، ص:95، ط:السلطانیہ۔تخریج از : نصب الرایۃ ج:2، ص:152، ط:مؤسسہ الریان) بیس رکعات تراویح کی دلیل آپ ﷺ کا عمل ہےکہ آپ ﷺ نے بیس رکعات تراویح کی نماز پڑھی ہے، آپ ﷺ کا یہ عمل اُس حدیث شریف میں منقول ہے جو سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے؛ چناں چہ سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ : “رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں بیس رکعات (تراویح) اور وتر پڑھا کرتے تھے”،یہ حدیث شریف حدیث کی کتابوں مصنف ابن ابی شیبہ، معجم کبیر طبرانی وغیرہ میں مذکور ہے، اور یہ ایک صحیح اور قوی حدیث ہے؛ کیوں کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے اس حدیث کے مطابق تراویح کی نماز پڑھی ہے، بلکہ اس حدیث کی صحت پر صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین کے دور میں اجماع ہو چکا ہے۔دوسری بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ جس سنت پر رسول اللہ ﷺ یا آپ ﷺکے خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے مداومت نہیں کی ،بلکہ اس کو کبھی کبھی انجام دیا ہو اس کو سنت غیر مؤکدہ کہتے ہیں، اور جس کام کو نبی کریم ﷺ یا آپﷺ کے خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے ہمیشہ کیا اور اس پر مواظبت اور مداومت فرمائی ہے اس کو سنتِ مؤکدہ کہتے ہیں ؛ چوں کہ بیس رکعت تراویح خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالٰی عنہم کی قائم کردہ ہیں، اور اس پر انہوں نے ہر رمضان میں پابندی کے ساتھ مواظبت بھی کی ہے، کبھی ترک نہیں کیا، اس لیے بیس رکعت تراویح کی نماز پڑھنا سنتِ مؤکدہ ہے، لہٰذا بیس رکعت کا ثبوت تو آپ ﷺ کا عمل ہے اور اس کا سنتِ مؤکدہ ہونا یہ خلفائے راشدین کے عمل سے ثابت ہے جن کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ: “میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو”۔(تخریج از : مصنف ابن ابی شیبہ،کتاب الصلاة، 225/5 ط: إدارة القرآن والعلوم الاسلامیہ ۔تخریج از:موطا امام مالک، كتاب الصلاة فی رمضان، باب الترغيب فی الصلاة فی رمضان، 502/2-503، كتاب الصلاة فی رمضان، باب ما جاء فی قیام رمضان، 524/2،: مرکز السشیخ أبی الحسن الندوی الہند۔تخریج از :معارف السنن، أبواب الصیام، باب قیام شہررمضان، بیان أمر الفاروق بعشر ین ر کعہ وتلقیہ الأمہ بالقبول، 550/5، ط: دار التصنیف جامعہ العلوم الاسلامیہ ۔تخریج از : فتاوی شامی، كتاب الصلاة، باب الوتر والنفل، 43/2-45 تخریج از : فتاوی تاتار خانیہ، كتاب الصلاة، الفصل الثالث عشر فی التراویح، 475/1، ط: قدیمی) رسول اللہ ﷺے ارشاد فرمایا:’’جوشخص تم میں سے میرے بعدجیتارہا، وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا، پس میری سنت کو اور خلفائے راشدین مہدیین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوطی سے تھام لواوردانتوں سے مضبوط پکڑلو۔ نئی نئی باتوں سے احتراز کرو، کیونکہ ہرنئی بات بدعت ہے اورہر بدعت گمراہی ہے۔”اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ خلفاء راشدینؓ (یعنی سیدنا ابوبکرصدیق، سیدنا عمر فاروق ، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہم ) کی پیروی رسول اللہ ﷺ کی وصیت ہے،اور ان کی تابعداری دین کا حصہ ہے،اوراس سے اعراض ومخالفت بدعت وگمراہی ہے،لہذا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے جو 20 رکعت تراویح کا اہتمام فرما دیا یہ عینِ دین ہے،دین میں نئی بات یا بدعت ہر گزنہیں ہے۔قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: میں نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تراویح اور سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے طرز عمل کے بارے میں سوال کیا تو آپؒ نے فرمایا: تراویح سنتِ مؤکدہ ہے، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی طرف سے 20رکعات مقرر نہیں کیں، اورنہ وہ کسی بدعت کے ایجاد کرنے والے تھے، آپ نے جو 20 رکعات کا اہتمام فرمادیاہے، اس کی آپ کے پاس ضرور کوئی اصل تھی اور ضرور رسول اللہ ﷺ کا کوئی حکم تھا۔ امیرالمومنین سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ سنت جاری کی اور لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی امامت پر جمع کیا، پس انہوں نے تراویح کی جماعت کروائی، اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم کثیر تعداد میں موجود تھے۔ سیدنا عثمانؓ،سیدنا علیؓ، سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ، سیدنا عباسؓ ابن عبدالمطلب، سیدنا عبداللہ ابن عباسؓ، سیدنا طلحہؓ بن عبیداللہ، سیدنا زبیرؓ ابن العوام ،سیدنا معاذؓ ابن جبل ،سیدنا اُبیؓ ابن کعب اوردیگر کبار مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سب موجود تھے، مگر کسی نے بھی اس کو رد نہیں کیا، بلکہ سب نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے موافقت کی اور اس کا حکم دیا۔( تخریج از: مشکواہ المصابیح ،كتاب الایمان،باب الاعتصام بالکتاب والسنہ،ج:1 ،ص: 58،ط:المکتب الاسلامیتخریج از: اختلافِ اُمت اور صراطِ مستقیم، ص:۲۹۲، بحوالہ الاختیارلتعلیل المختار، ج:۱،ص:۶۸)سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے:کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔”(تخریج از :مصنف ابن ابی شیبہج : 2 ص : 164 ط : دارالتاج ،لبنان) لہذا ماہ رمضان المبارکمیں بھی رات کو تہجد کے وقت| آٹھ |رکعات نماز پڑھیںاور پھر سال بھر ان کو پڑھنے کی عادت بنائیں۔ یہی سنت رسولﷺ“نوافل نماز تہجد “ہیں۔ رمضان المبارک میں عشاء کی |چار | رکعت فرض اور| دو| رکعت سنت مؤکدہ کے بعد | بیس (٢٠) |رکعات [پانچ ترو یحہ کے ساتھ یعنی ہر دوسلاموںیعنی چار رکعت کے بعد کچھ دیرآرام فرمانا اورتسبیح کرنا] اور آخر میں تین رکعات وتر واجب پڑھیں اورپھر رمضان ختم ہونے پر رک جائیں۔ یہی سنت رسولﷺ“نماز تراویح”ہیں۔
احکامِ_تراویح:
تروایح ہر عاقل و بالغ مرد اور عورت کے لئے سنتِ مؤکدہ ہے۔ اس کا ترک جائز نہیں۔
(درمختار، ج 2، ص 493)
تراویح کی بیس رکعت ہیں سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس رکعتیں ہی پڑھی جاتی تھیں۔
(السنن الکبرٰی للبیہقی، ج 2، ص 299، رقم 4617)
تراویح کی جماعت سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔
(ھدایہ، ج 1، ص 70)
تراویح کا وقت عشاء کے فرض پڑھنے کے بعد سے صبحِ صادق تک ہے، عشاء کے فرض ادا کرنے سے پہلے ادا کر لی تو نہ ہو گی۔
(عالمگیری، ج 1، ص 115)
عشاء کے فرض و وتر کے بعد بھی تراویح ادا کی جا سکتی ہے۔
(در مختار، ج 2، ص 494)
جیسا کہ بعض اوقات 29 شعبان المعظم کو رویتِ ہلال کی شہادت ملنے میں تاخیر کے سبب ایسا ہو جاتا ہے۔
مُستحبّ یہ ہے کہ تراویح میں تہائی رات تک تاخیر کی جائے اگر آدھی رات کے بعد بھی پڑھیں تب بھی کراہت نہیں۔
(درمختار، ج 2، ص 495)
تراویح اگر فوت ہوئی تو اس کی قضا نہیں۔
(درمختار ،ج 2، ص 494)
بہتر یہ ہے کی تراویح کی بیس رکعتیں دو دو کرکے دس سلام کے ساتھ ادا کرے۔
(درمختار، ج 2، ص 495)
تراویح کی ہر دو رکعت پر الگ الگ نیت کرے۔ (درمختار، ج 2، ص 494)
بِلاعذر بیٹھ کر تراویح ادا کرنا مکروہ ہے، بلکہ بعض فقہاء کرام کے نزدیک ہوتی ہی نہیں۔
(درمختار، ج 2، ص 499)
تراویح مسجد میں باجماعت ادا کرنا افضل ہے، اگر گھر میں باجماعت ادا کی تو ہو جائے گی ، مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں ادا کرنے کا تھا۔
(عالمگیری، ج 1، ص 116)
تراویح میں ختمِ قرآن سنت مؤکدہ کفایہ ہے، یعنی اہلِ علاقہ میں سے کسی نے تراویح میں ختمِ قرآن کر لیا تو سب کی طرف سے سنت ادا ہو گئی، لہٰذا گھر میں تراویح میں ختمِ قرآن نہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں۔
اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ہو جائے تو جتنا قرآنِ پاک اُن رکعتوں میں پڑھا تھا اُن کا اعادہ کیا جائے ،تاکہ ختمِ قرآن میں نقصان نہ رہے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
امام غلطی سے کوئی آیت یا سورت چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو مُستحب یہ ہے کہ اُسے پڑھ کر آگے بڑھے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
الگ الگ مسجد میں تراویح ادا کر سکتا ہے جبکہ ختمِ قرآن میں نقصان نہ ہو۔
تراویح کی دو رکعت پر بیٹھنا بھول گیا تو جب تک تیسر ی کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جائے آخر میں سجدۂ سہو کرلے اور اگر تیسری کا سجدہ کر لیا تو چار پوری کرلے مگر یہ دو شمار ہوں گی ،ہاں اگر دو پر قعدہ کیا تھا تو چار ہوئیں۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیرا اگر دوسری پر بیٹھا نہیں تھا تو نہ ہوئیں، ان کے بدلے کی دو رکعتیں دوبارہ ادا کرے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ہے دو ہوئیں کوئی کہتا ہے تین، تو امام کو جو یاد ہے اسکا اعتبار ہے، اگر امام خود بھی تذبذب کا شکار ہے تو جس پر اعتماد ہو اس کی بات مان لے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 117)
اگر لوگوں کو شک ہو کہ بیس ہوئیں یا اٹھارہ؟ تو دو رکعت ہر بندہ تنہا تنہا ادا کرے۔
(عالمگیری، ج 2، ص 117)
افضل یہ ہے کہ ہر دو رکعت میں قِراءت برابر ہو، اگر ایسا نہ کیا جب بھی حرج نہیں۔
(ج 1، ص 117)
امام و مقتدی ہر دو رکعت کی ابتداء میں ثناء پڑھیں امام تعوذ و تسمیہ بھی پڑھے اور التحیات کے بعد درودِ ابراھیم اور دعا بھی۔
(در مختار، ج 2، ص 498)
اگر 27 ویں کو یا اس سے قبل قرآنِ پاک ختم ہو گیا تب بھی آخر رمضان تک تراویح پڑھتے رہیں کہ سنتِ مؤکدہ ہے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 118)
بعض مقتدی بیٹھے رہتے ہیں جب امام رکوع کرنے والا ہوتا ہے تب کھڑے ہوتے ہیں یہ مُنافقین کی علامت ہے۔
بہارِ شریعت، حصہ 4، ص 36)
رمضان المبارک میں وتر جماعت سے ادا کرنا افضل ہے، جس نے عشاء کے فرض بغیر جماعت کے ادا کیے وہ بھی وتر جماعت کے ساتھ ادا کر سکتا ہے۔
(فتاوی نوریہ جلد: 1، 559)
ایک امام کے پیچھے عشاء کے فرض دوسرے کے پیچھے تراویح اور تیسرے کے پیچھے وتر پڑھے اِس میں حرج نہیں۔
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرض و وتر کی جماعت خود کرواتے اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تراویح پڑھاتے۔
(عالمگیری، ج 1، ص 116)
……………………………