غلط معلومات کی گندگی سے آلودہ صحافت:صحافت لفظ صحیفہ سے بنا ہے۔جس کا مطلب معلومات کی بنیاد پر خبر کی درست تحقیق کرکےعوام الناس کو آگاہی دینا ہے۔صحیفہ کا لفظ عموما الہامی کتاب کے لئے بولا جاتا ہے ، جبکہ صحافت کو ہم زمینی کتاب کہہ سکتے ہیں۔جیسےعالم امر سے وحی اور الہام کے لئے اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں یعنی انبیائے کرام کا انتخاب کیا تھا جسکا تعلق رشد و ہدایت اور علم سے ہے، ویسے ہی عالم خلق میں کلام کے لئے بھی اہل افراد کا صحافت کے میدان میں اترنا لازم ہے جس کا تعلق معلومات سے ہے۔ذاتی مفادات پر مبنی تجزئے صحافت کے لئے زہر ہلاہل ہیں۔ شہرت اور مقبولیت کے لئے , یا پھر اپنے یوٹیوب اور الیکٹرانک چینلز کی ریٹنگ اور پروموشن کے لئے اپنی پسند کی خبریں لگانا اور سنسنی پھیلانا تعفن زدہ بدبودار صحافت ہے۔عوام کو شعور اور آگاہی دینے کی بجائے انہیں اپنی ہی دھرتی ماں ریاست کے مقابلے کے لئے ابھارنا صحافت جیسے عظیم پیشے سے خیانت کرنا ہے۔افسوس۔۔۔! آج صحافت ڈس انفارمیشن کی گندگی سے لت پت ہو چکی ہے۔ ڈس انفارمیشن کا بانی دراصل شیطان ہے۔کہ جب اس نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر حضرت آدم اور حضرت حوا کے سامنے ایک شجرِ ممنوعہ کے متعلق غلط رپورٹنگ کی تھی۔صحافت میں بھی ذاتی اور مالی مفادات کے لئے غلط رپورٹنگ کرنا, عوام الناس کو گمراہ کرنا اور جھوٹی خبروں کو بنیاد بنا کر پراپیگنڈہ کرنا یقینا شیطانی قول و فعل ہے۔پاکستان کے صحافی , صحافت کو صحیفہ سمجھ کر ادا کرتے تو انبیاء کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ان کی ہر خبر عبادت ہوتی مگر انہوں نے عبادت کی بجائے امارت کی راہ اختیار کی۔شیطان کو گرو مان کر ڈس انفارمیشن پھیلا کر اپنے ہی ہم وطنوں کو اپنے ہی وطن کے خلاف اکسایا اور مسلسل اکسا رہے ہیں۔ایسی تعفن زدہ بدبودار صحافت ملک و ملت کے لئے ہولناک نتائج بلکہ کسی حادثے سے دوچار کرنے کے مترادف ہے،جو ڈس انفارمیشن اور سنسنی سے بھرپور ہو، جو صرف عوام کو مشتعل کرنے کے کام آ رہی ہو۔جب کوئی بھی صحافی اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی اور مالی مفادات کے لئے کام کرتا ہے تو یقینا وہ اپنے پیشے سے ہی نہیں بلکہ ملک و ملت سے عین غداری کرتا ہے۔یہ امر مسلمہ ہے کہ سچ کو جتنا بھی ڈس انفارمیشن کے پردوں میں چھپایا جائے وہ بہر صورت ظاہر ہو کر ہی رہتا ہے اور ڈس انفارمیشن پھیلانے والے بالآخر ناکام ہی رہ جاتے ہیں۔آزادی اظہار رائے کی حد کہاں تک ہے؟؟جہاں آپ کی زبان میری ناک کو چھونے لگے وہاں تک..چین میں 72 برس سے اور روس میں 104 سال سے اسی نقطہ نظر پر ریاستیں سختی سے کاربند ہیں اور یہی انکی ترقی کا راز ہےاس وقت دنیا میں سب سے زیادہ صحافی چین کی جیلوں میں ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو ریاست کے خلاف کام کرنے اور خبریں گھڑنے کے الزامات کا سامنا ہے۔پاکستان آج انتشار کا شکار ہے تو وجہ یہی نام نہاد آزاد ی صحافت ہے یہ ہمارے ناک تک محدود رہنے کی بجائے نتھنوں میں گھس چکی ہے۔پاکستان میں صحافی کے پاس صحافت کا لائسنس ہو یا نا ہو بدمعاشی کا ضرور ہوتا ہے۔ملٹری قیادت ہو، عدلیہ ہو یا کوئی بھی معزز ادارہ یہ دھڑلے سے ان پر جھوٹ لکھتے ہیں اور یہ جھوٹ عالمی منظر نامے پر جگہ بناتا ہے۔آج تک مملکت خداداد پاکستان میں کوئی بھی حکومت میں فیک نیوز پر قوانین نہیں بنا سکی جس پر عمل درآمد کرایا جا سکا۔عمران ریاض اور اسد طور کی گرفتاری سے یہ اعلان تو ہو چکا کہ اب بس.. بدمعاشی کے دن گئے..مزید نہیں..یہی وجہ ہے کہ حامد میر اور مطیع اللہ جان کو اپنے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے چیخیں بتا رہی ہیں کہ فیک نیوز کا شکنجہ ان کی طرف بڑھ رہا اور انھیں اپنا انجام صاف نظر آ رہا۔حکومت کو بھی چاہئے کہ اب من گھڑت اور فیک نیوز پر سخت ترین قوانین متعارف کروائے بھارت، چائنا، روس اور ترکی کی طرز پر تیز ترین ٹرائل ہوں بھاری جرمانے، سزائیں اور ایسے مقدمات کے فیصلے تین ہفتوں میں ہوں تب ہی اس بدمعاشی کے جن کو بوتل میں بند کیا جا سکتا ہے۔صحافی جھوٹ بولیں اور غلط الزام لگائیں اور ان سے کچھ نہ پوچھا جائے کیوں کے وہ صحافی ہیں ؟ اور آپ الزام لگانے والے کو ڈیفنڈ کریں کہ وہ صحافی ہے؟ آپ کے ہاتھ میں قلم آ گیا تو جو مرضی کرو نہیں ایس اب ہرگز ا نہیں ہو گا صحافی سے بھی پوچھا جائے گا۔قومی مطالبہ ہے کہ اب بس۔۔۔!سب جھوٹ بولنے والے صحافیوں گرفتار کر لیا جائے۔۔۔ سنی ہوئی بات آگے پھیلانا جھوٹ میں داخل ہے کسی بھی شخص کے بارے میں کوئی بات بغیر تحقیق کے کہہ دینا یہ اتنی بڑی بیماری ہے جس سے پورے معاشرے میں بگاڑ اور فساد پھیلتا ہے، دشمنیاں جنم لیتی ہیں ، عداوتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ اس لئے قرآن کریم یہ کہہ رہا ہے کہ جب بھی تمہیں کوئی خبر ملے تو پہلے اس خبر کی تحقیق کرلو، ایک حدیث شریف میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : انسان کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ جو بات سنے اس کو آگے بیان کرنا شروع کردے ۔ لہٰذا جو آدمی ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بیان کرنے لگے تووہ بھی جھوٹا ہے، اس کو جھوٹ بولنے کا گناہ ہوگا ۔ سوجب تک تحقیق نہ کرلو، بات کو آگے بیان نہ کرو۔افسوس یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ اس قبیح گناہ کے اندر بری طرح ڈوبا ہوا ہے، ایک شخص کی بات آگے نقل کرنے میں کوئی احتیاط نہیں ، بلکہ اپنی طرف سے اس میں نمک مرچ لگا کے اضافہ کرکے اس کو آگے بڑھا دیا جو ایک عام سی بات بن گئی ہے ۔ دوسرے شخص نے جب اس بات کو سنا تو اس نے اپنی طرف سے اور اضافہ کرکے آگے چلتا کردیا، بات ذرا سی تھی ، مگر وہ پھیلتے پھیلتے کہاں سے کہاں پہنچ گئی، اس کے نتیجے میں دشمنیاں ، عداوتیں ، لڑائیاں ، قتل و غارت گری اور نفرتیں پھیل رہی ہیں ۔ بہر حال ! قرآن کریم اللہﷻ ہمیں یہ سبق دے رہا ہے کہ یہ زبان جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں دی ہے، یہ اس لئے نہیں دی کہ اس کے ذریعہ تم جھوٹی افواہیں پھیلاؤ اس لئے نہیں دی کہ اس کے ذریعہ تم لوگوں پر الزام اور بہتان عائد کیا کرو، بلکہ تمہارا فرض ہے کہ جب تک کسی بات کی مکمل تحقیق نہ ہوجائے، اس کو زبان سے نہ نکالو۔ افسوس ہے کہ آج ہم لوگ باری تعالیٰ کے اس حکم کو فراموش کئے ہوئے ہیں ، اور اس کے نتیجے میں ہم طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہورہے ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ہمیں اس برائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین