دینِ اسلام کا منبع اور سرچشمہ وحیِ الٰہی ہے، جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے سیدنا محمد مصطفٰیﷺ پر نازل کی گئی، خواہ وہ وحیِ الٰہی قرآن کریم کی صورت میں ہو یا سنتِ رسول اور احادیثِ نبوی ﷺ کی صورت میں ہو۔ جناب رسالت مآبﷺ سے اس وحیِ الٰہی اور دینِ اسلام کو لینے کے لئے اللہ تبارک وتعالیٰ ہی نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسی مقدس جماعت کو نبی کریمﷺ کی صحبت، تعلیم اور تلقین کے لیے منتخب فرمایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ترویج دین اسلام میں اہم ترین مقام حاصل ے۔ یہ ایک ایسی منتخب جماعت ہے جو رسول اللہ ﷺ اور عام اُمت کے درمیان رشد و ہدایت کا واحد ذریعہ رابطہ ہے۔ اس رابطہ کے بغیر نہ اُمت کو قرآن کریم ہاتھ آسکتا ہے، نہ قرآن کریم کے وہ مضامین جن کو قرآن نے رسول اللہﷺ کے بیان پر یہ کہہ کر چھوڑا ہے۔۔ ارشاد باری تعالٰی ہے (النحل:۴۴) ۔۔۔۔ ’’آپ بیان کریں لوگوں کے لئے وہ چیز جو آپ کی طرف نازل کی گئی۔‘‘ اور نہ ہی رسالت اور اس کی تعلیمات کا کسی کو اس واسطہ کے بغیر علم ہوسکتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین‘ نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کو دنیا کی ہر چیز حتیٰ کہ اپنی آل اولاد اور اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، آپ ﷺ کے پیغام کو اپنی جانیں قربان کرکے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلانے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم اجمعین ہی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے لئے ارشاد فرمایا، (الحجرات:۷)ترجمہ: ’’اور جان لو! تمہارے درمیان اللہ کے رسول (ﷺ) موجود ہیں اگر وہ بہت سے معاملات میں تمہارا کہنا مان لیں توضرور تم بڑی مشکل میں پڑجاؤ گے لیکن اللہ نےایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیااور اُسے تمہارے دلوں میں مزیّن فرما دیا اور تمہارے نزدیک کفر فسق اورنافرمانی کو قابل نفرت بنا دیا یہی لوگ راہِ راست پر ہیں ۔‘‘ (المجادلۃ:۲۲)ترجمہ:’’ان کے دلوں میں اللہ نے لکھ دیا ہے ایمان اور ان کی مدد کی ہے اپنے غیب کے فیض سے ۔ (التوبۃ آیت۱۰۰)ترجمہ:’’اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ، اللہ راضی ہوا اُن سے اور وہ راضی ہوئے اُس سے ۔‘‘ (البقرۃ:۱۳۷)ترجمہ: ’’سو اگر وہ بھی ایمان لاویں جس طرح تم ایمان لائے ہدایت پائی انہوں نے بھی۔‘‘ (آل عمران:۱۱۰) ترجمہ :’’تم ہو بہتر سب اُمتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں۔‘‘ (البقرۃ:۱۴۳)ترجمہ:’’اور اسی طرح کیا ہم نے تم کو اُمت معتدل۔‘‘ (الفتح:۲۹)ترجمہ:’’محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر، نرم دل ہیں آپس میں، تو دیکھے ان کو رکوع میں اور سجدہ میں ، ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشی ، نشانی (پہچان، شناخت) ان کی اُن کے چہرے پر ہے سجدہ کے اثر سے۔‘‘اس آیت میں ’’وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ‘‘ عام ہے، اس میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم شامل ہیں، اس میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کا تزکیہ اور ان کی مدح وثنا خود مالکِ کائنات کی طرف سے آئی ہے ’’(التحریم:۸)ترجمہ:’’جس دن کہ اللہ ذلیل نہ کرے گا نبی کو اور ان لوگوں کو جو یقین لائے ہیں اس کے ساتھ۔‘‘ (یوسف:۱۰۸)ترجمہ:’’کہہ دے یہ میری راہ ہے، بلاتا ہوں اللہ کی طرف سمجھ بوجھ کر میں اور جو میرے ساتھ ہے۔” (الحدید:۱۰)ترجمہ:’’اور سب سے وعدہ کیا ہے اللہ نے خوبی کا۔ ‘‘حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے(مسند احمد، رقم الحدیث:۳۴۶۸)’’اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد ﷺ کے قلب کو ان سب قلوب میں بہتر پایا، ان کو اپنی رسالت کے لیے مقرر کردیا، پھر قلب محمدﷺ کے بعد دوسرے قلوب پر نظر فرمائی تو اصحابِ محمدﷺ کے قلوب کو دوسرے سب بندوں کے قلوب سے بہتر پایا، ان کو اپنے نبی ﷺ کی صحبت اور دین کی نصرت کے لیے پسند کرلیا۔‘‘امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا (شرح السفارینی للدرۃ المنیفۃ، ج:۱،ص:۱۲۴)’’جو شخص اقتداء کرنا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ اصحابِ رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کرے، کیونکہ یہ حضرات ساری اُمت سے زیادہ اپنے قلوب کے اعتبار سے پاک، اور علم کے اعتبار سے گہرے اور تکلف وبناوٹ سے دور اور عادات کے اعتبار سے معتدل، اور حالات کے اعتبار سے بہتر ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اقامت کے لیے پسند فرمایا ہے۔ تو تم ان کی قدر پہچانو اور اُن کے آثار کا اتباع کرو، کیونکہ یہی لوگ صراط مستقیم پر ہیں۔‘‘حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ (ترمذی، ج:۲، ص:۲۲۵) ’’اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملے میں، میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع کا) نشانہ نہ بناؤ، کیونکہ جس شخص نے ان سے محبت کی تو میری محبت کے ساتھ ان سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھاتو میرے بغض کے ساتھ ان سے بغض رکھا، اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذاء پہنچائی، اور جس نے مجھے ایذاء دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی، اور جو اللہ کو ایذاء پہنچانا چاہتا ہے تو قریب ہے کہ اللہ اس کو عذاب میں پکڑلے گا۔‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، نبی کریمﷺ نے فرمایا(ترمذی، ج:۲، ص:۲۲۵) ’’ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہؓ کو برا کہتے ہیں تو تم ان سے کہو: خدا کی لعنت ہے اس پر جو تم دونوں (یعنی صحابہؓ اور تم) میں سے بدتر ہیں۔‘‘ ظاہرہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کے مقابلے میں بدتر وہی ہے جو اُن کو برا کہنے والا ہے۔ اس حدیث میں صحابیؓ کو برا کہنے والا مستحقِ لعنت قرار دیا گیا ہے۔ علامہ سفارینی رحمہ اللہ تعالٰی فرماتے ہیں۔’’اہل سنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ تمام صحابہؓ کو پاکیزہ سمجھے، ان کے لئے عدول ثابت کرے، ان پر اعتراضات کرنے سے بچے، اور ان کی مدح و توصیف کرے، اس لئے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے قرآن مجید کی متعدد آیات میں ان کی مدح وثنا کی ہے۔ اس کے علاوہ اگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے صحابہؓ کی فضیلت میں کوئی بات منقول نہ ہوتی تب بھی ان کی عدول پر یقین اور پاکیزگی کا اعتقاد رکھنا اور اس بات پر ایمان رکھنا ضروری ہوتا کہ وہ نبی ﷺ کے بعد ساری اُمت کے افضل ترین افراد ہیں، اس لئے ان کے تمام حالات اسی کے مقتضی تھے، انہوں نے ہجرت کی، جہاد کیا، دین کی نصرت میں اپنی جان ومال کو قربان کیا، اپنے باپ بیٹوں کی قربانی پیش کی، اور دین کے معاملے میں باہمی خیرخواہی اور ایمان ویقین کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا۔ (عقیدہ سفارینی ، ج:۲،ص:۳۳۸) امام ابوزرعہ عراقی رحمہ اللہ جو امام مسلم رحمہ اللہ کے استاذ تھے ، ان کا یہ قول نقل کیا ہے (ج:۲،ص:۳۸۹) ’’جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کی بھی تنقیص کررہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے، اس لئے کہ قرآن حق ہے، رسولﷺ حق ہے، جو تعلیمات آپﷺ لے کر آئے وہ حق ہیں، اور یہ سب چیزیں ہم تک پہنچانے والے صحابہؓ کے سوا کوئی نہیں، تو جو شخص ان کو مجروح کرتا ہے وہ کتاب وسنت کو باطل کرنا چاہتاہے، لہٰذا خود اس کو مجروح کرنا زیادہ مناسب ہے، اور اس پر گمراہی اور زندقہ کا حکم لگانا زیادہ قرینِ حق وانصاف ہے۔‘‘ان آیات اور احادیث میں صرف یہی نہیں کہ اصحابِ رسول کی مدح وثناء اور ان کی رضوانِ الٰہی اور جنت کی بشارت دی گئی ہے، بلکہ اُمت کو ان کے ادب واحترام اور ان کی اقتداء کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے کسی کو برا کہنے کی سخت وعید فرمائی ہے، ان کی محبت کو رسول اللہ ﷺکی محبت، ان سے بغض کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض قرار دیا گیا ہے۔