#تقوی#مسلمان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا چاہئے۔ اللہ کا خوف مسلمان کے لئے حق و باطل کا معیار بن جاتا ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی تقویٰ اختیار کرنے والے کے گناہ معاف کردیتا ہے۔اللہ تعالیٰ بڑا فضل وکرم والا ہے۔
تقویٰ کے فوائدتفسیر بالقرآن:متقین کے لئے کامیابی ہے۔ (الانبیاء : 31تا33) متقین کے لئے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنت ہے۔ (القلم :24)متقی کا ہر کام آسان اور اس کی سب خطائیں معاف اور ان کے لئے بڑا اجر ہوگا۔ (الطلاق : 4تا5)متقین اولیاء اللہ ہیں جو بے خوف ہوں گے۔ ( یونس : 61تا64)اگر مؤمن اس بات سے ڈرتا رہے جو اللہ تعالٰی کے احکام کے خلاف ہو ، تو اللہ تعالٰی متقین کے اندر ایسا نور بصیرت یا قوت تمیز پیدا کردے گا جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کی راہنمائی کرے گا۔ جس سے حق و باطل میں تمیز ہو جائے گی۔ دنیا و آخرت کی سعادت مندی حاصل ہوگی۔برائیوں کو مٹا دیا جائے گا اور اکثر و بیشتر گنا ہ معاف کر دئیے جائیں گے۔تقویٰ (یعنی پرہیزگاری اللہ کی نافرمانی سے بچنا)کی یہ خاصیت ہے کہ وہ ایمان والے شخص کو ایسی سمجھ عطا کر دیتا ہے جو حق اور ناحق میں تمیز کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اور گناہ کی ایک خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کی عقل خراب کر دیتا ہے جس سے وہ اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھنے لگتا ہے۔یہاں فرقان کے معنی حق وباطل کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت ہے۔ آدمی اگر اللہ سے ڈرے، وہ وہی کرے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اس سے بچے جس سے اللہ نے منع کیا ہے تو اس کو اس بات کی توفیق ملتی ہے کہ وہ حق اور باطل کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھ سکے۔انسانی صلاحیتوں کو بیدار کرنے والی سب سے بڑی چیز ڈر ہے۔ جس معاملہ میں انسان کے اندر ڈر کی نفسیات پیدا ہوجائے اس معاملہ میں وہ حد درجہ حقیقت پسند بن جاتاہے۔ ڈر کی نفسیات اس کے ذہن کے تمام پردوں كو اس طرح ھٹا ديتی ہےکہ اس بارے ميں وه ہر قسم كي غفلت يا غلط فہمی سے بلند ہو كر صحیح ترین رائے قائم کرسکے۔ یہی معاملہ اس بندۂ خدا کے ساتھ پیش آتا ہے جس کو رب العالمین کے ساتھ تقویٰ (ڈر) کاتعلق پیداہوگیا ہو۔یہ فرقان تقریباً وہی چیز ہے جس کو معرفت یا بصیرت کہا جاتا ہے۔ بصیرت کسی آدمی میں وہ اندرونی روشنی پیدا کرتی ہے کہ وہ ظاہری پہلوؤں سے دھوکا کھائے بغیر ہر بات کو اس کے اصل روپ میں دیکھ سکے۔ جب بھی کوئی آدمی کسی معاملہ میں اپنے کو اتنا زیادہ شامل کرتا ہے کہ وہ اس کی پرواہ کرنے لگے۔ وہ اس کے بارے میں تشویش ناک حد تک اندیشہ میں رہتا ہو تو اس کے بعد اس کے اندر ایک خاص طرح کی حساسيت پیدا ہوتی ہے جو اس کو اس معاملہ کے موافق اور مخالف کی پہچان کرا دیتی ہے۔ یہ فرقانی معاملہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہے خواہ وہ ایک مذہبی آدمی ہو یا ایک تاجر خواہ وہ ڈاکٹر ہو یا انجینئر۔ کوئی بھی آدمی جب اپنے کام سے تقویٰ (کھٹک) کی حد تک اپنے کو وابستہ کرتا ہے تو اس کو اس معاملہ کی ایسی معرفت ہوجاتی ہے کہ ادھر اُدھر کے مغالطوں میں اُلجھے بغیر وہ اس کی حقیقت تک پہنچ جائے۔کسی آدمی کے اندر یہ خدائی بصیرت (فرقان) پیدا ہونا اس بات کی سب سے بڑی ضمانت ہے کہ وہ برائیوں سے بچے، وہ اللہ تعالی کے ساتھ اپنے تعلق کو درست کرے اور بالآخر اللہ کے فضل کا مستحق بن جائے۔ یہ فرقان (حق وباطل کی نفسیاتی تمیز) پیدا ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی اپنے آپ کو حق کے ساتھ اتنا زیادہ وابستہ کرچکا ہے کہ اس میں اور حق میں کوئی فرق نہیں رہا۔ وہ اور حق دونوں ایک دوسرے کا مُثنی (counterpart) بن چکے ہیں۔ اس کے بعد اس کا بچایا جانا اتنا ہی ضروری ہو جاتا ہے جتنا حق کو بچایا جانا۔ ایسے لوگ براہِ راست اللہ تعالی کی پناہ میں آجاتے ہیں۔ اب ان کے خلاف تدبیریں کرنا خود حق کے خلاف تدبیریں کرنا بن جاتا ہے۔ اور اللہ تعالی کے خلاف تدبیر کرنے والا ہمیشہ ناکام رہتا ہے خواہ اس نے کتنی ہی بڑی تدبیر کر رکھی ہو۔وللہ اعلم بالصواب۔