ترجمہ اردو : حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔(سورہ آل عمران آیت 164 )
اللہ تعالیٰ کے احسانات قرآن مجید کے رو سے
اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور احسان ان گنت ہیں۔ (سورہ ابراہیم آیت34)
ایمان نصیب ہونا اللہ کے احسان کا نتیجہ ہے۔ (سورہ الحجرات آیت16)
رسالت مآب ﷺ کی بعثت اللہ تعالیٰ کا احسان عظیم ہے۔ (سورہ آل عمران آیت164)
کمزوروں کو خلافت دینا اللہ کا احسان ہے۔ (سورہ القصص آیت5)
اللہ جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے۔ (سورہ ابراہیم :آیت11)
تفسیر و مفہوم آیت 164 سورہ آل عمران
علامہ فخر الدین رازی رحمہ اللہ تعالٰی نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو عربوں میں پیدا کیا، یہ عربوں کے لیے بڑے فخر و شرف کی بات تھی، اس لئے کہ ابو الانبیاء سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ السلام پر فخر کرنا تو یہود، نصاری اور سارے عرب میں مشترک تھا، اور یہود و نصاری، سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلوۃ السلام، سیدنا عیسیٰ ابن مریم روح اللہ علیہ الصلوۃ السلام اور تورات و انجیل پر فخر کیا کرتے تھے۔ عربوں کے پاس ان کے مقابلہ میں فخر کی کوئی بات موجود نہ تھی، جب اللہ نے نبی کریم ﷺ کو مبعوث کیا، اور ان پر قرآن نازل فرمایا، تو یہ عربوں کے لیے بڑے شرف کی بات تھی، جس میں دوسری قومیں شریک نہ تھیں۔
محسن انسانیت ﷺ
اس آیت میں اللہ تعالٰی نے اس احسان عظیم کی طرف مومنین کو متوجہ کیا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے دونوں جہاں کی لذتوں کو حاصل کیا ، حضور رسالت مآبﷺ کی بعثت سے پہلے مطلع عالم پر جہالت وجمود کے تاریک بادل چھا رہے تھے ، دنیا اخلاقی برائیوں کی انتہا کو پہنچ چکی تھی ، قتل وغارت گری، بے حیائی، زناکاری اور سرکشی کا بازار انفرادی اور معاشرتی طور پر گرم تھا ، ایران سے لے کر روم تک انسانیت کا کہیں نام ونشان نہ تھا ، ہندوستان سے لیکر مغرب تک طاقتور اپنے زیر دست رعایا کا خون چوس رہے تھے اور مظلوم نہایت عاجزی کے ساتھ زندگی کے دن گزار رہے تھے ،علم کا یہ حال تھا کہ سارے عرب میں چند ہی لوگ تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ، جزیرہ العرب تقریبا ہی جہالت کے گہرے تالابوں میں غرق تھا ، ان حالات میں دنیا کا ہر ذرہ ایک آفتاب ہدایت کا منتظر تھا ، چنانچہ وہ نبی آخر الزمانﷺ فاران کی چوٹیوں سے طلوع ہوا اور اندھیری ظلمات، درخشندہ تابندگی میں بدل گئی ، اخلاق و اصلاح کا ارتقائی عمل شروع ہوا، اور ایک دفعہ پھر انسانیت کو معراج کمال پر پہنچا دیا گیا ، ساری دنیا حکمت ومعرفت کے نور سے روشن ہوگئی اور قلم کا پرچم نہایت شان سے لہرانے لگا ، یہ کیوں ہوا ؟ اس لئے جو رسول آیا ‘ اس نے اللہ کی آیات کے تفصیل و توضیح کی ‘ تزکیہ وتطہیر کا عمل شروع ہوا ، جہاں پراگندہ دماغوں کو الہامی تعلیمات سے آراستہ کیا وہاں دلوں کی دنیا کو بھی جلوؤں سے منور کردیا ۔ سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حبشہ کے عیسائی بادشاہ نجاشی سے کہا : اے بادشاہ ! ہم لوگ جاہل تھے ‘ بتوں کی عبادت کرتے تھے ‘ مردار کھاتے تھے ‘ بےحیائی کے کام کرتے تھے ‘ رشتے توڑتے تھے ‘ ہمسایوں سے بدسلوکی کرتے تھے ‘ ہم میں سے قوی شخص ضعیف کا حق کھا جاتا تھا ‘ حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری طرف ایک عظیم رسول بھیجا جن کے نسب کو ‘ ان کے صدق کو ‘ ان کی امانت داری کو اور ان کی پاک دامنی کو ہم اچھی طرح جانتے تھے ‘ انہوں نے ہم کو دعوت دی کہ ہم اللہ وحد ہ لاشریک کی عبادت کریں ‘ ہم اور ہمارے آباء و اجداد جن پتھروں اور بتوں کی عبادت کرتے تھے اس کو ترک کردیں انہوں نے ہم کو تعلیم دی کہ ہم سچ بولیں ‘ امانت ادا کریں ‘ رشتے جوڑیں ‘ ہمسایوں سے اچھا سلوک کریں ‘ حرام کاموں اور خوں ریزی کو چھوڑ دیں ‘ انہوں نے ہمیں بےحیائی کے کاموں ‘ جھوٹ بولنے ‘ یتیم کا مال کھانے اور پاک دامن عورت پر تہمت لگانے سے منع کیا۔ انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں ‘ نماز پڑھیں ‘ زکوۃ ادا کریں اور روزے رکھیں۔ الحدیث (تخریج از مسند احمد بن حنبل ج ١ ص ٢٠٢)
تفسیر عثمانی۔آیت164 ۔سورہ آل عمران یعنی انہی کی جنس اور قوم کا ایک آدمی رسول بنا کر بھیجا جس کے پاس بیٹھنا بات چیت کرنا، زبان سمجھنا اور ہر قسم کے انوار و برکات کا استفادہ کرنا آسان ہے، اس کے احوال، اخلاق سوانح زندگی، امانت و دیانت خدا ترسی اور پاکبازی سے وہ خوب طرح واقف ہیں۔ اپنی ہی قوم اور کنبے کے آدمی سےجب معجزات ظاہر ہوتے دیکھتےہیں تو یقین لانے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے۔ فرض کرو کوئی جن یا فرشتہ رسول بنا کر بھیجا جاتا تو معجزات دیکھ کر یہ خیال کر لینا ممکن تھا کہ چونکہ جنس بشر سے جداگانہ مخلوق ہے شاید یہ خوارق اس کی خاص صورت نوعیہ اور طبیعت ملکیہ و جنیہ کا نتیجہ ہوں، ہمارا اس سے عاجز رہ جانا دلیل نبوت نہیں بن سکتا بہرحال مومنین کو خدا کا احسان ماننا چاہئے کہ اس نے ایسا رسول بھیجا جس سے بےتکلف فیض حاصل کر سکتے ہیں اور وہ باوجود معزز ترین اور بلند ترین منصب پر فائز ہونے کے ان ہی کے مجمع میں نہایت نرم خوئی اور ملاطفت کے ساتھ گھلا ملا رہتا ہے ﷺ۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کی چار شانیں بیان کی گئیں
تلاوت آیات
اللہ کی آیات پڑھ کر سنانا جن کے ظاہری معنی وہ لوگ اہل زبان ہونے کی وجہ سے سمجھ لیتےتھے اور اس پر عمل کرتے تھے
تزکیہ نفوس
نفسانی آلائشوں اور تمام مراتب شرک و معصیت سے ان کو پاک کرنا اور دلوں کو نچوڑ کر صاف ستھرا اور چمکدار بنانا اور یہ چیز آیات اللہ کے عام مضامین پر عمل کرنے، حضور کی صحبت اور قلبی توجہ و تصرف سے باذن اللہ حاصل ہوتی تھی
تعلیم کتاب
کتاب اللہ کی مراد و مقصد بتلانا اس کی ضرورت خاص خاص مواقع میں پیش آتی تھی ۔ مثلًا ایک لفظ کے کچھ معنی عام محاورہ کے لحاظ سے سمجھ کر صحابہ کو کوئی اشکال پیش آیا، اس وقت آپ کتاب اللہ کی اصلی مراد جو قرائن مقام سے متعین ہوتی تھی بیان فرما کر شبہات کا ازالہ فرما دیتے تھے، جیسے {جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان میں شرک نہیں ملایا انہیں کے لئے امن ہے اور وہی راہ راست پر ہیں۔} (الانعام۔۸۲) الخ اور دوسرے مقامات میں ہوا۔
تعلیم حکمت
حکمت کی گہری باتیں سکھلانا اور قرآن کریم کے اسرار و رموز اور شریعت کی دقیق و عمیق علل پر مطلع کرنا خواہ تصریح یا اشارہ ہو ۔آپ ﷺ نے اللہ تعالٰی کی توفیق و اعانت سے علم و عمل کے ان اعلیٰ مراتب پر اس درماندہ قوم کو فائز کیا جو صدیوں سے انتہائی جہل و حیرت اور صریح گمراہی میں غرق تھی۔ آپ کی چند روزہ تعلیم و صحبت سے وہ ساری دنیا کے لئے عظیم ہادی و معلم بن گئے ۔ لہٰذا انہیں چاہئے کہ اس نعمت عظیم کی قدر پہچانیں۔ اور کبھی بھولے سے ایسی حرکت نہ کریں جس سے آپ کا دل افسردہ اور رنجیدہ ہو۔
اسلام میں برائیوں کی بتدریج خاتمے کی حکمت
ہزاروں انسان ایسے ہیں جن کے رگ و ریشے میں بری عادت و اخلاق سرایت کرکے ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھیں تو آپ کو قرآنِ کریم کے23 سال کے عرصے میں بتدریج نزول کی ضرورت کااحساس ہوگا۔قرآن کریم نے پہلے ان کی روحوں کو بری عادات واخلاق کی نجاست سے پاک کیا اور پھر ان کے دلوں کو اعلی اخلاق سے مزین کیا اور مختصر سے عرصے میں کامیابی سے ہزاروں انسان کی اصلاح کی۔ہمارے خیال میں تئیس سال میں قرآن کریم کے نزول کو تیز رفتار نزول سمجھا جانا چاہئے ۔ہرشخص جانتاہے کہ شراب نوشی کے سبب ہرسال سینکڑوں گھر اجڑتے ہیں۔تئیس سال انتہائی مختصرمدت ہے،لہٰذا۔ قرآن کریم نے جو کارنامہ سرانجام دیا ہے، وہ دراصل ہمارے پیارے نبی آخر الزماں ﷺکا معجزہ ہے۔رسول اللہﷺنے تئیس سال کی مدت میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں وہ انسانیت ہزاروں سال میں حاصل کرسکی اورنہ ہی کبھی حاصل کرسکے گی۔قرآن کریم نے جہاں لوگوں کی سینکڑوں بری عادات واخلاق کا ازالہ کیا، وہیں انہیں کوئی تکلیف یا ایذاء پہنچائے بغیر اعلیٰ اوصاف و اخلاق سے مزین بھی کیا۔قرآن نے مختلف مراحل میں بہت سے مسائل کاعملی حل پیش کیا،جن میں سے بعض مراحل کے لئے آج تئیس سال سے کئی گنا زیادہ عرصہ درکارہے۔اس دورکے انسان کے لئے اوامر و نواہی کی ایک بڑی تعداد کو قابل قبول بنانے نیز برائیوں کے بتدریج خاتمے اورشخصیت کی بتدریج تعمیر کے لئے تئیس سال کی یہ مدت ناگزیرتھی،مثلاًاس مدت کے دوران شراب کو تین چار مراحل میں حرام قرار دیا گیا۔بچیوں کو زندہ درگورکرنے کی ممانعت دو مراحل میں ہوئی۔اس دورکے انسان میں اجتماعی شعور کوبیدار کر کے قبائلی زندگی کی تنظیم نو اور وحدت کا بندوبست کیا گیا، دوسرے لفظوں میں ان میں معاشرہ تشکیل دینے کی صلاحیت پیدا کی گئی۔یہ اہداف بری عادات و اخلاق رزیلہ کا خاتمہ کر کے اور انتہائی مشکل اقدامات اٹھاکر ان کی جگہ اعلیٰ اخلاق پیدا کرکے حاصل کئے گئے۔ درحقیقت ان کاموں کے لئے اس سے کہیں زیادہ مدت درکار تھی جو بلندی تک اٹھانے کے مترادف ہوتا۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ قرآن کریم کاتئیس سال کے دوران بتدریج نازل ہوناانسانی طبیعت اورفطرت کے عین مطابق ہے۔چونکہ انسان کوکائنات سے جدا کیاجاسکتا ہے اورنہ ہی کائنات میں ہونے والے ارتقا کو نظراندازکرکے انسان سے برتاؤ کیاجاسکتاہے، اس لیے ہمیں اس کے ساتھ قوانین فطرت کے مطابق برتاؤ کرنا چاہیے۔جس طرح کائنات میں بتدریج افزائش ہوتاہے اور قوانین فطرت بھی بتدریج کام کرتے ہیں،اسی طرح انسانی افزائش ،ارتقا اورتکمیل پذیری بھی بتدریج ہوتی ہے۔ترقی کی بنیاد اور اعلیٰ اصولوں کے مجموعے کی حیثیت رکھنے والے قرآن کے تئیس سال کے عرصے میں بتدریج نازل ہونے کے پیچھے بھی یہی حکمت کار فرما تھی۔نزول وحی کے دورانیے کاتئیس سال پرمحیط ہونابھی حکمت پر مبنی تھا۔
دین پر مکمل عمل کرنے کے لئے اسلامی نظام حکومت ضروری ہے
حضور سرکار دوعالم ﷺ نہ صرف دین سکھانے بلکہ دین کو دنیا میں قائم اور تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں۔ارشاد الہی سورہ فتح اور التوبہ (لیظھرہ عَلی الدِّینِ کُلِّہ) سے اس کی دلیل ہے۔یہ کہنا صحیح ہےکہ بغیر حکومت کے دین پر مکمل طور پر عمل کرنا ممکن نہیں۔ بلکہ بیشتر متبحر علما کے مطابق ایک نہایت ہی اہم بات یہ ہے کہ شرعی حکومت کے بغیر شریعت پر پورا عمل نہیں ہو سکتا۔کیونکہ اسلام ایک جامع طریقہ حیات ہے اس کے بہت سے شعبہ جات ہیں ان میں سے ایک شعبہ سیاست اور اسلامی نظام حکومت کے قیام بھی ہے ، اور اس سے اسلام کے بہت سے احکام وابستہ ہیں جن پر اس کے بغیر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔لہٰذا اگر اسلامی حکومت کا قیام ہوجائے اور اس کیلئے تن، من اور دھن سے جدو جہد کی جائے تو یہ قابل ستائش ہے۔جہاں تک آیت کریمہ ”لیظہرہ علی الدین کلہ“ کا تعلق ہے تو اس میں دلیل و حجت کے اعتبار سے اسلام کا غلبہ مراد ہے اور یہ ہر زمانے میں رہا ہے ؛ کیونکہ اسلام حد درجہ فطرت سے ہم آہنگ اور مصلحتوں اور حکمتوں کے موافق ہے ۔ سورہ الفتح آیت 28 میں ارشاد الٰہی ہے{ ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ } [وہی ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق دے کر] اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری رسول محمد عربی ﷺ کو قرآن حکیم دے کر بھیجا ہے جو نوع انسانی کے لیے ہدایت کاملہ ہے { لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } [تاکہ وہ غالب کر دے اسے کل کے کل نظام زندگی پر]۔ گویا قبل ازیں اس سورت کی آیت 2 اور آیت 20 میں جس سیدھے راستے صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا کا ذکر ہے وہ راستہ ”اظہارِ دین حق“ کی منزل کی طرف جاتا ہے اور اسی ہدف کو حاصل کرنے کا حکم سورہ الشوریٰ کی آیت 13 میں [اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ] کے الفاظ میں ہوا کہ تم دین کو قائم کرو ! پھر سورہ الشوریٰ کی آیت 21 میں جھوٹے معبودوں کے باطل ہونے کی جو دلیل دی گئی ہے اور ان کے مقابلے میں معبود حقیقی کی جو شان بیان ہوئی ہے وہ بھی ”الدِّیْن“ نظامِ زندگی کے حوالے سے ہے۔ ملاحظہ ہوں متعلقہ آیت کا مفہوم کہ [ کیا ان کے لئے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین میں کچھ ایسا طے کردیا ہو جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا ؟]یعنی اللہ کی شان تو یہ ہے کہ اس نے انسانوں کو دین حق دیا ہے۔ ایک مکمل ضابطہ حیات اور عادلانہ نظام زندگی دیا ہے ، تو کیا اس کا کوئی شریک بھی ایسا ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس نے بھی اپنے ماننے والوں کو کوئی نظام زندگی دیا ہے ؟ بہر حال اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی ”اظہارِدین حق“ بتایا گیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے الہدیٰ اور دین حق دے کر اپنے رسول ﷺ کو بھیجا ہی اس لئے ہے کہ وہ اس ”الدِّین“ کو پورے نظام زندگی پر غالب کر دے۔ { وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا } [اور کافی ہے اللہ مددگار کے طور پر۔] عام طور پر لفظ شَھِید کا ترجمہ ”گواہ“ کیا جاتا ہے ‘ لیکن یہاں پر خصوصی طور پر شھید کا ترجمہ ”مددگار“ ہوگا۔ سورة البقرۃ کی آیت 23 میں بھی یہ لفظ اسی مفہوم میں آیا ہے ، جہاں قرآن جیسی ایک سورت بنانے کا چیلنج دینے کے بعد فرمایا گیا { وَادْعُوْا شُہَدَآ کُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ } کہ[ بلا لو اس کام کے لئے اپنے تمام مدد گاروں کو اللہ کے سوا]
سورہ الصف آیت 9 { ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ } [وہی ہے اللہ جس نے بھیجا اپنے رسول کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظام زندگی پر۔]حضور پرنور ﷺ کے مقصد بعثت کے حوالے سے یہ آیت خصوصی اہمیت کی حامل ہے اور اسی اہمیت کے باعث قرآن مجید میں اسے تین بار اس مقام کے علاوہ سورہ التوبہ ‘ آیت 33 اور سورہ الفتح ‘ آیت 28 کے طور پر دہرایا گیا ہے۔ تمام انبیاء و رسل کے لئے قرآن مجید میں بشیر ‘ نذیر ‘ مذکر ‘ شاہد ‘ معلم وغیرہ الفاظ مشترک استعمال ہوئے ہیں ‘ لیکن اس آیت کا مضمون اور اسلوب صرف محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے خاص ہے۔ الہدیٰ سے مراد یہاں وہ ہدایت نامہ قرآن ہے جو آپ ﷺ پر کامل ہوگیا ‘ جبکہ آپ سے پہلے تمام انبیاء کو اپنے اپنے دور میں جو میزان شریعت عطا ہوتی رہی تھی حضور ﷺ کی بعثت میں وہ کامل ہو کر دین الحق یعنی سچے اور عادلانہ نظام زندگی کی شکل اختیار کرگئی۔ چنانچہ آپ ﷺ کو الہدیٰ اور دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا گیا تاکہ اللہ تعالیٰ کے نظام عدل و انصاف کو دنیا کے تمام نظاموں پر غالب کردیا جائے۔ یہ تھا حضور ﷺ کی بعثت کا مشن جس کےتکمیل کے لئے ہمارے سپرد فرما گئے تھے۔ لیکن ہم نے تو اس مشن کو کبھی اپنایا ہی نہیں۔ ہمارا مشن تو یہ ہے کہ حلال و حرام طریقے سے جیسے بھی ہو ‘ دولت اکٹھی کرو ‘ پھر اسی دولت سے صدقہ و قربانی دو ‘ حج کرو اور رمضان میں ہر سال عمرے کے لئے چلے جایا کرو۔ ہمارا سارا زور رسم و رواج پر ہے اور دین اگر دنیا میں پامال ہے تو ہوتا رہے ‘ ہماری بلا سے ! تصور کریں ‘ اگر آج صرف ایک سال میں حج پر اکٹھے ہونے والے افراد ہی سروں پر کفن باندھ کر غلبہ دین کی جدوجہد کے لیے میدان میں کود پڑیں تو دنیا کو بدل سکتے ہیں۔ { وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ۔ } [اور خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو !] ظاہر ہے مشرکین کب چاہیں گے کہ دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو ‘ نظام توحید کا نفاذ ہو اور اللہ کی حاکمیت قائم ہوجائے۔ یہاں پر مُشْرِکُوْنَ کا لفظ خاص طور پر لائق توجہ ہے۔ اس سے مراد صرف وہ مشرکین ہی نہیں ہیں جو بتوں اور دیوی دیوتائوں کو پوجتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے حضور ان کی سفارش کردیں گے ، بلکہ سب سے بڑے مشرک تو وہ ہیں جو دنیا میں خدائی کے دعوے دار بنے بیٹھے ہیں ، جو نمرود اور فرعون کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور جن کا دعویٰ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ کے مالک ہم ہیں۔ فرعون بھی تو یہی کہتا تھا : سورہ الزخرف ،آیت 51 [ کہ دیکھو ! کیا یہ مصر کی حکومت میری نہیں ہے ؟ اور کیا یہ پورا نہری نظام میرے تابع نہیں ہے ؟ ] تو فرعون کے اس دعوے اور عوام کی حاکمیت کے نعرے میں کیا فرق رہ گیا ؟ صرف یہی کہ وہاں اقتدار کا دعویٰ کرنے والا ایک فرد تھا اور یہاں پوری قوم حاکمیت کی دعوے دار ہے۔ اب ظاہر ہے اگر اس ماحول میں آپ اللہ کی حاکمیت کا نعرہ لگائیں گے اور اللہ کے نظام عدل کے قیام کے مشن کو لے کر آگے بڑھنا چاہیں گے تو اپنی حاکمیت کے یہ دعوے دار خم ٹھونک کر آپ کے مقابلے میں آ کھڑے ہوں گے۔ اس کے بعد بھی اگر آپ اپنے موقف پر قائم رہیں گے تو ان سے آپ کا تصادم ناگزیر ہوجائے گا اور آپ کو مال و جان کی قربانی کی صورت میں اپنے اس موقف کی قیمت چکانا پڑے گی۔ شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالٰی تفسیر عثمانی میں لکھتے ہیں کہ [اسلام کا غلبہ باقی ادیان پر معقولیت اور حجت و دلیل کے اعتبار سے ہے ، یہ تو ہر زمانہ میں بحمداللہ نمایاں طور پر حاصل رہا ہے۔ باقی حکومت و سلطنت کے اعتبار سے وہ اس وقت حاصل ہوا ہے اور ہو گا جبکہ مسلمان اصول اسلام کے پوری طرح پابند اور ایمان و تقویٰ کی راہوں میں مضبوط اور جہاد فی سبیل اللہ میں ثابت قدم تھے یا آئندہ ہوں گے اور دین حق کا ایسا غلبہ کہ باطل ادیان کو مغلوب کر کے بالکل صفحہ ہستی سے محو کر دے۔یہ نزول مسیحؑ کے بعد قریب قیامت کے ہونے والا ہے۔] وللہ اعلم طالب دعا،بو سکندر