فالمسلمون سنيهم وبدعيهم متفقون على وجوب الإيمان بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر، ومتفقون على وجوب الصلاة والزكاة والصيام والحج، ومتفقون على أن من أطاع الله ورسوله فإنه يدخل الجنة، ولا يعذب، وعلى أن من لم يؤمن بأن محمدًا رسول الله ﷺ إليه فهو كافر، وأمثال هذه الأمور التي هي أصول الدين وقواعد الإيمان التي اتفق عليها المنتسبون إلى الإسلام والإيمان، فتنازعهم بعد هذا في بعض أحكام الوعيد أو بعض معاني بعض الأسماء أمر خفيف بالنسبة إلى ما اتفقوا عليه.
مجموع الفتاوى ابن تيمية ٧/٣٥٧.
تمام سنی اور بدعتی مسلمان متفق ہیں کہ اللہ تعالٰی پر ایمان واجب ہے،رسولوں،فرشتوں،کتابوں اور آخرت پر بھی ایمان فرض ہے.. دین کی ان بنیادوں پر اتفاق کے بعد امت میں بقیہ تمام اختلافات کی نوعیت قدرے خفیف سی رہ جاتی ہے.(شیخ الاسلام ابن تیمیہ،مجموع الفتاوی،٧/٣٥٧).
عَامَّةَ أَهْلِ الصَّلَاةِ مُؤْمِنُونَ بِاَللَّهِ وَرَسُولِهِ؛ وَإِنْ اخْتَلَفَتْ اعْتِقَادَاتُهُمْ فِي مَعْبُودِهِمْ وَصِفَاتِهِ؛ إلَّا مَنْ كَانَ مُنَافِقًا يُظْهِرُ الْإِيمَانَ بِلِسَانِهِ وَيُبْطِنُ الْكُفْرَ بِالرَّسُولِ؛ فَهَذَا لَيْسَ بِمُؤْمِنِ. وَكُلُّ مَنْ أَظْهَرَ الْإِسْلَامَ وَلَمْ يَكُنْ مُنَافِقًا فَهُوَ مُؤْمِنٌ. لَهُ مِنْ الْإِيمَانِ بِحَسَبِ مَا أُوتِيَهُ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ مِمَّنْ يَخْرُجُ مِنْ النَّارِ وَلَوْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ الْإِيمَانِ وَيَدْخُلُ فِي هَذَا جَمِيعُ الْمُتَنَازِعِينَ فِي الصِّفَاتِ وَالْقَدَرِ عَلَى اخْتِلَافِ عَقَائِدِهِمْ؛ وَلَوْ كَانَ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إلَّا مَنْ يَعْرِفُ اللَّهَ كَمَا يَعْرِفُهُ نَبِيُّهُ ﷺ لَمْ تَدْخُلْ أُمَّتُهُ الْجَنَّةَ؛ فَإِنَّهُمْ أَوْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَسْتَطِيعُونَ هَذِهِ الْمَعْرِفَةَ؛ بَلْ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَتَكُونُ مَنَازِلُهُمْ مُتَفَاضِلَةً بِحَسَبِ إيمَانِهِمْ وَمَعْرِفَتِهِمْ.
مجموع الفتاوى ابن تيمية ٥/١٣٥.
وہ تمام لوگ اور فرقے مومن مسلمان ہیں جنہوں نے اسلام کا اقرار کیا ہے اور بالآخر جنّتی بھی ہیں.. اگرچہ اللہ تعالٰی اور اسکے اسماء و صفات تک میں اختلافات واقع ہو جائیں.اور اگر جنت میں جانے کے لئے معرفتِ الٰہی کی ایسی کڑی شرط لگائیں جیسی معرفت رسول اللہ ﷺ کو حاصل تھی تو امت میں کوئی بھی جنت میں نا جا سکے.. کیونکہ رسول اللہ ﷺ جیسا ایمان کسی کا بھی نہیں ہے.پس اسماء و صفات اور قضاء و قدر تک میں اختلاف کرنے والے بھی مومن ہیں اور جنت میں جائیں گے اگرچہ درجات سب کے الگ الگ ہیں اور ہوں گے.(شیخ الاسلام ابن تیمیہ،مجموع الفتاوى،٥/١٣٤)
رأيت للأشعري كلمة أعجبتني وهي ثابتة رواها البيهقي سمعت أبا حازم العبدوي سمعت زاهر بن أحمد السرخسي يقول : لما قرب حضور أجل أبي الحسن الأشعري في داري ببغداد دعاني فأتيته فقال : اشهد علي أني لا أكفر أحدا من أهل القبلة لأن الكل يشيرون إلى معبود واحد وإنما هذا كله اختلاف العبارات . قلت : وبنحو هذا أدين وكذا كان شيخنا ابن تيمية في أواخر أيامه يقول : أنا لا أكفر أحدا من الأمة ويقول قال النبي صلى الله عليه وسلم : ” لا يحافظ عى الوضوء إلا مؤمن ” فمن لازم الصلوات بوضوء فهو مسلم (سیر اعلام النبلاء 15/88)
میں نے امام اشعری رحمہ اللہ تعالٰی عنہ کی ایک ایسی بات دیکھی ہے جو مجھے بہت پسند آئی ہے اور وہ ان سے ثابت ہے۔امام بیہقی رحمہ اللہ تعالٰی عنہ ،نے امام ابو حازم عبدوی رحمہ اللہ تعالٰی عنہ سے نقل کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام زاہر بن احمد سرخسی رحمہ اللہ تعالٰی عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ جب بغداد میں میرے گھر میں الشیخ امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ تعالٰی عنہ کی وفات ک وقت ا قریب آیا تو انھوں نے مجھے بلایا۔ میں ان کے پاس گیا تو انھوں نے کہا کہ تم مجھ پر گواہ بن جاؤ کہ میں اہل قبلہ (یعنی مسلمانوں کے تمام فرقوں) میں سے کسی کو کافر نہیں کہتا، کیونکہ سب ایک ہی معبود کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ان کے درمیان یہ سارا اختلاف، عبارات والفاظ کا اختلاف ہے۔
امام ذہبی رحمہ اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ میرا مذہب بھی یہی ہے اور اسی طرح شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالٰی عنہ اپنے آخری ایام میں یہ کہا کرتے تھے کہ میں امت میں سے کسی کی بھی تکفیر نہیں کرتا۔ وہ کہتے تھے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ وضو کی پابندی صرف مومن ہی کرتا ہے۔ اس لئے جو شخص بھی وضو کر کے پابندی سے نمازیں ادا کرتا ہے، وہ مسلمان ہے (چاہے اس کا کسی بھی فرقے سے تعلق ہو)۔