جو شخص یا عورت کافر ہو یا مسلمان سیّد الاولین وآلاخرین، شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس پر طنز و مذاق کرتا ہے، یا ان کی سیرت و زندگی کے کسی گوشے کے بارے میں استہزائیہ انداز اختیا ر کرتاہے، یا ان کی توہین و تنقیص کرتاہے یا ان کی شان میں گستاخی کرتاہے،یا ان کو گالی دیتا ہے، یا ان کی طرف بُری باتوں کو منسوب کرتا ہے یا آپ کی ازواج مطہرات اور امّہات المومنین رضی اللہ عنہن کو کسی اور عورت کے ساتھ تشبیہ دیتاہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرتاہے اور قرآن مجید کو ایک دیوانہ اور مجنون آدمی کا خواب بتاتا ہے، یا ایک ناول اور کہانی سے تعبیر کرتاہے تو وہ آدمی سراسر کافر، مرتد، زندیق اور ملحد ہے۔ اگر ایسا آدمی کسی مسلمان ملک میں حرکت کرتاہے تو اس کو قتل کرنا مسلمانوں کی حکومت پر واجب ہے اور مشہور قول کے مطابق اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ اور جو اس کے کفر میں شک کرتاہے وہ بھی کافر ہے۔ اور یہ ائمہ اربعہ کا مسلک ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔
جیسا کہ شیخ الاسلام امام تقی الدین ابو العباس احمد بن عبد العلیم بن عبد السلام الحرانی الدمشقی المعروف بہ ابن تیمیہ نے اپنی مشہور و معروف” کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسول” میں نقل فرمایاہے: «ان من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم من مسلم او کافر فانہ’ یجب قتلہ، هذآ مذهب علیہ عامة اهل العلم۔ قال ابن المنذر: أجمع عوام أهل العلم علی أن حد من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم : القتل ، وممن قاله مالک واللیث واحمد واسحق وهو مذهب الشافعی ، وقد حکی ابوبکر الفارسی من اصحاب الشافعی اجماع المسلمین علی ان حد من سب النبی صلی اللہ علیہ وسلم القتل».1
ترجمہ : عام اہلِ علم کا مذہب ہے کہ جو آدمی خواہ مسلمان ہو یا کافر، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ ابن منذر نے فرمایا کہ عام اہل علم کا اجماع ہے کہ جو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے، اس کی حد قتل کرنا ہے اور اسی بات کو امام مالک، امام لیث، امام احمد، امام اسحاق نے بھی اختیار فرمایا ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے.اور ابوبکر فارسی نے اصحابِ امام شافعی سے مسلمانوں کا اجماع نقل کیا ہے کہ شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حد قتل ہے۔
«وقال محمد بن سحنون: اجمع العلماء علی ان شاتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم والمُتَنَقِّص له کافر، والوعید جاء علیه بعذاب اللہ له وحکمه عند الامة القتل، ومن شک فی کفره وعذابه کفر۔» 2
محمد بن سحنون نے فرمایا: علماء کا اجماع ہے کہ شاتم رسول اور آپ کی توہین وتنقیصِ شان کرنے والا کافر ہے اور حدیث میں اس کے لیے سخت سزا کی وعید آئی ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک اس کا شرعی حکم ،قتل ہے۔ اور جو آدمی اس شخص کے کفر اور عذاب کے بارے میں شک و شبہ کرے گا وہ بھی کافر ہو گا۔
مندرجہ بالا عبارات سے یہ بات آفتابِ روز روشن کی مانند واضح ہوگئی کہ باجماعِ امت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گالی دینے والا یا ان کی توہین و تنقیص کرنے والا کھلا کافر ہے اور اس کو قتل کرنا واجب ہے۔ اور آخرت میں اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور جو آدمی اس کے کافر ہونے اورمستحقِ عذاب ہونے میں شک کرے گا وہ بھی کافر ہوجائے گا؛ کیوں کہ اس نے ایک کافر کے کفر میں شبہ کیا ہے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نےابن سحنون سے مزید نقل کیا ہے :« ان الساب ان کان مسلما فانه یکفر ویقتل بغیر خلاف وهو مذهب الائمة الأربعة وغیرهم۔
اگر گالی دینے والا مسلمان ہے تو وہ کافر ہوجائے گا اور بلا اختلاف اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اور یہ ائمہ اربعہ وغیرہ کا مذہب ہے۔
اور امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے کہ:«قال احمد بن حنبل: سمعت ابا عبد اللہ یقول :کل من شتم النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم او تنقصه مسلما کان أوکافرا فعلیه القتل، وأری أن یقتل و لایستتاب.»4
جوآدمی بھی خواہ مسلمان ہو یا کافر اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے یا ان کی توہین و تنقیص کرتاہے اس کو قتل کرنا واجب ہے ۔اور میری رائے یہ ہے کہ اس کو توبہ کرنے کے لیے مہلت نہیں دی جائے گی بلکہ فوراً ہی قتل کردیا جائے گا۔
“الدرالمختار “میں ہے: وفی الاشباه ولا تصح ردة السکران الا الردة بسب النبی صلی الله علیه وسلم فانه یقتل ولا یعفی عنه۔» 5
“اشباہ ” میں ہے کہ نشہ میں مست آدمی کی ردّت کا اعتبار نہیں ہے ،البتہ اگر کوئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے کی وجہ سے مرتد ہوجاتاہے تو اس کو قتل کردیا جائے گا اور اس گناہ کو معاف نہیں کیا جائے گا۔
امام احمد رحمہ اللہ اور “اشباہ “کی عبارات سے یہ بات معلوم ہوئی کہ شاتمِ رسول کے جرم کو معاف نہیں کیا جائے گا ، بلکہ اس کو قتل کردیا جائے گا۔
پھر یہ شخص جب مسلسل اس جرم کے ارتکاب پر قائم اور اس پر مصرہے تواس کے واجب القتل ہونے اور اس کی توبہ قبول نہ کرنے کے بارے میں کوئی شک ہی نہیں۔چناں چہ کتب فقہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی ارتداد کی حالت پر بدستور برقرار رہتاہے یا بار بارمرتد ہوتا رہتاہے اس کو فوراً قتل کردیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔ جیسا کہ “فتاوی شامی” میں ہے:
«وعن ابن عمر وعلی: لا تقبل توبة من تکر رت ردته کالزندیق، وهو قول مالک واحمد واللیث، وعن ابی یوسف لو فعل ذلک مراراً یقتل غیلة۔»
حضرت عبد اللہ بن عمراورحضرت علی رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ متعددبارمرتدہونے والے کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، جیساکہ زندیق کی توبہ قبول نہیں کی جاتی اور یہ امام مالک، احمد اوراللیث کا مذہب ہے، امام ابویوسف سے مروی ہے کہ اگر کوئی آدمی مرتد ہونے کا جرم بار بار کرے تواسے حیلہ سے بے خبری میں قتل کردیا جائے۔
اسی طرح “در مختار ” میں ہے: «وکل مسلم إرتد فتوبته مقبولة إلا جماعة من تکررت ردته علی ما مر۔ والکافر بسب نبی من الانبیاء فانه یقتل حدا ً ولا تقبل توبته مطلقاً۔»
ہر وہ مسلم جو نعوذ بااللہ مرتد ہوجاتاہے اس کی توبہ قبول ہوتی ہے ، مگر وہ جماعت جس کا ارتداد مکرر اور بار بار ہوتا ہو، ان کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اور جو آدمی انبیاء میں سے کسی نبی کو گالی دینے کی وجہ سے کافر ہوجائے اس کو قتل کر دیاجائے گا اور اس کی توبہ کسی حال میں بھی قبول نہیں کی جائے گی۔
ان عبارات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سبِّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس کی توہین اتنا بڑا جرم ہے کہ بالفرض اگر کوئی نشہ میں مست آدمی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دے گا یا آپ کی توہین و تحقیر کرے گا تو اس کو قتل کردیا جائے گا۔
اسی طرح امہات المومنین رضوان اللہ علیہن کی شان میں گستاخی کرنے سے آں حضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تکلیف پہونچتی ہے اور گستاخی کرنے والے پر دنیا وآخرت میں اللہ تعالیٰ کی لعنت ہوتی ہے اسی لیے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ امہات المومنین کی شان میں گستاخی کرنے والے کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور وہ مباح الدم ہے۔ چناں چہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کو گناہ کی تہمت لگانے والوں کے جرم کا ثبوت اور سیدہ عائشہ صدیقہ کی پاک دامنی کا ثبوت تو قرآن میں مذکور ہے، فقہاء کرام نے بھی اس کی رُو سے ایسے شخص کو مباح الدم کہا ہے جو حضرت عائشہ پر تہمتِ گناہ لگاتاہے۔ جیسا کہ” فتاویٰ شامی” میں ہے:
«نعم لا شک فی تکفیر من قذف السیدة عائشة رضی الله عنها۔» 8
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو تہمت لگانے والا شخص بلا شبہ کافر ہے۔
اور ملعون “سلمان رشدی” اپنی کتاب میں امہات المومنین کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوا ہے، بالخصوص سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ، جیسا کہ ہفت روزہ “حریت” جلد۷ -۱۱تا۱۷نومبر ۱۹۸۸ء شمارہ ۴۵میں تفصیلی طورپرنقل کیا گیا ہے۔ اور یہ بات اہلِ دنیا کے سامنے ظاہر ہے کہ ملعون سلمان رشدی نے حالیہ ناول شیطانی آیات Satanic Versesکے علاوہ “مڈنائٹ چلڈرن” اور “شیم ” میں بھی شان رسالت مآب میں دریدہ د ہنی اور ذہنی خباثت کی بدترین مثال پیش کی ہے۔ تفصیل انڈیا ٹوڈے ستمبر ۱۹۸۸ء کی اشاعت میں موجودہے۔اور مزید اس کتاب کو متعدد ممالک سے شائع کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے تاکہ دنیا میں فساد پھیلایا جائے اور دین اسلام کو بدنام کیا جائے، تاریخ کو مسخ کیا جائے، نا پختہ اذہان کو اسلام سے برگشتہ کیا جائے اور مسلمانوں کے دل و جگر پر تیشے چلائے جائیں اور تلاشِ حق میں دامنِ اسلام کی طرف بڑھنے والے سادہ دل انسانوں کو اسلام اور مسلمانوں سے بد ظن کیا جائے۔ لہٰذا یہ شخص اگر پہلے سے مسلمان تھا تو اب مرتد ہوگیا ہے اور ارتداد پر اصرار کرنے کی وجہ سے ملحد اور زندیق ہے جس کی توبہ کا کچھ اعتبار نہیں اور اس کی سزا قتل ہی ہے۔وللہ اعلم