عظیم تابعی حضرت حسن بصری رح سے منقول ہے : . کہ تمہارے حکمران تمہارے اعمال کا عکس ہیں ۔ اگر تمہارے اعمال درست ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی درست ہوں گے ، اگر تمہارے اعمال خراب ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی خراب ہوں گے ۔۔ منصور ابن الاسود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام اعمش رحمہ سے سنا ،کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے اس بارے میں سنا کہ : جب لوگ خراب ہوجائیں گے تو ان پر بدترین حکمران مسلط ہوجائیں گے”۔۔ امام بیہقی نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ : اللہ تعالیٰ ہر زمانہ کا بادشاہ اس زمانہ والوں کے دلوں کے حالات کے مطابق بھیجتے ہیں۔خلاصہ یہ ہے کہ رعایا کے ساتھ حکم رانوں کے رویہ کا تعلق باطنی طور پر لوگوں کے اعمال وکردار سے ہوتا ہے کہ اگر رعایا کے لوگ اللہ کی اطاعت و فرمان برداری کرتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات بالعموم راست بازی ونیک کرداری کے پابند ہوتے ہیں تو ان کا ظالم حکمران بھی ان کے حق میں عادل نرم خو اور شفیق بن جاتا ہے اور اگر رعایا کے لوگ اللہ کی سرکشی وطغیانی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ان کے اعمال ومعاملات عام طور پر بد کر داری کے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں تو پھر ان کا عادل ونرم خو حکم ران بھی ان کے حق میں غضب ناک اور سخت گیر ہو جاتا ہے؛ لہٰذا حکمران کے ظلم وستم اور اس کی سخت گیری وبے انصافی پر اس کو برا بھلا کہنے اور اس کے لیے بدعا کرنے کی بجائے اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے ، ایسے حالات میں اپنی بداعمالیوں پر ندامت کے ساتھ توبہ استغفار کیا جائے ، اللہ تعالیٰ کے دربار میں عاجزی و انکساری کے ساتھ التجا و فریاد کی جائے اور اپنے اعمال و اپنے معاملات کو مکمل طور پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے تابع کر دیا جائے تاکہ رحمتِ الٰہی متوجہ ہو اور ظالم حکمران کے دل کو عدل وانصاف اور نرمی وشفقت کی طرف پھیر دے ۔’مادر وطن میں بڑے لوگ یعنی صلحا، سخی، دانشور اور معالج آج کے اس مختصر زمانے میں یکے بعد دیگرے اس دنیائے فانی سے بڑی جلدی میں رخصت ہو رہے ہیں۔۔۔دراصل .موت العالِم موت العالم (عالِم کی موت عالم کی موت ہے) کی صحیح تفسیر اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کہیں کسی افق میں کوئی آفتابِ علم غروب ہوتا ہے، موت ایک تلخ سچائی ہے اور ہر ذی نفس کو اس سچائی کا زائقہ چکھنا ہے، جو لوگ رخصت ہوئے ہیں انہیں جلد یا بدیر رخصت ہونا ہی تھا، مگر معاشرے کے بڑے قیمتی لوگوں کے جانے سے جہاں یہ غم ہے کہ یہ لوگ علم و عمل کی محفلوں سے دفعۃً اٹھ کر چلے گئے وہاں یہ غم بھی ہے کہ ان کے جانے سے جو جگہیں خالی ہورہی ہیں ان کو پُر کرنے والا کوئی نہیں ہے، بعض مرتبہ یہ خیال آتا ہے کہ کہیں یہ وہ دور تو نہیں آگیا جس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: (بخاری رقم الحدیث: ۶۰۷۰۔۔۔۔نیک لوگ زار و قطار اٹھائے جائیں گے اور جو یا کھجور کے سڑے بھوسے کی طرح ناکارہ لوگ باقی رہ جائیں گے جن کی اللہ کو ذرا پرواہ نہ ہوگی۔وللہ اعلم