تالیف و ترتیب : بوسکندر رشید احمد گبارو
لغت میں سیاست کے معنی ٰ: حکومت چلانا اور لوگوں کی امر و نہی کے ذریعہ اصلاح کرنا ہے۔
اصطلاح میں: فن حکومت اور لوگوں کو اصلاح سے قریب اور فساد سے دور رکھنے کو سیاست کہتے ہیں
۔ قرآن میں سیاست کے معنی ٰ: حاکم کا لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنا، معاشرے کو ظلم و ستم سے نجات دینا، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا سود ی کاروبار اور رشوت وغیرہ کو ممنوع قرار دینا ہے’ دین اسلام کو اپنی اصل روح میں بھر پور طریقے سے نافذ کرنا۔
کتب احادیث میں سیاست کے معنی: عدل و انصاف و فلاحی معاشرے کا قیام اور تعلیم و تربیت کے ہیں۔
فلسفہ کی نظر میں: فلسفہ کے نزدیک فن حکومت، اجتماعی زندگی کا سلیقہ، صحیح اخلاق کی ترویج وغیرہ سیاست ہے۔ چونکہ انسان خود بخود مندرجہ بالا امور سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا،لہٰذا کسی ایسے قانون کی ضرورت ہے جو انسانوں کو بہترین زندگی کا سلیقہ سکھائے، جس کو دین کہتے ہیں۔
اسلام میں سیاست اس فعل اور عمل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح کے قریب اور فساد سے دو ہوجائیں۔ اہل مغرب فنِ حکومت کو سیاست کہتے ہیں۔ امور مملکت کا نظم ونسق برقرار رکھنے والوں کو سیاستدان کہا جاتا ہے۔ اسلام دراصل ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور دین کا مفہوم تقریباً ہی سیاست کے بنتے ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں لفظ سیاست تو نہیں البتہ ایسی بہت سی آیتیں موجود ہیں جو سیاست کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں، بلکہ قرآن کا بیشتر حصّہ سیاست پر مشتمل ہے، مثلاً عدل و انصاف، امر بالمعروف و نہی عن المنکر،مظلوموں سے اظہارِ ہمدردی وحمایت،ظالم اور ظلم سے نفرت اور اس کے علاوہ انبیا ٴ آلمعصومین ‘ چوٹی کے آ صحاب الرسول’ اہل بیت العظام اور اولیأ کرام کا اندازِ سیاست بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔ [ “اور پیغمبر نے ان سے (یہ بھی) کہا کہ اللہ نے تم پر طالوت کو بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔ وہ بولے کہ اسے ہم پر بادشاہی کا حق کیونکر ہوسکتا ہے بادشاہی کے مستحق تو ہم ہیں اور اس کے پاس تو بہت ساری دولت بھی نہیں۔ پیغمبر نے کہا کہ اللہ تعالی نے اُس کو تم پر فضیلت دی ہے اور (بادشاہی کے لئے) منتخب فرمایا ہے اس نے اسے علم بھی بہت سا بخشا ہے اور جسم (تن و توش)بھی (بڑا عطا کیا ہے) اور اللہ تعالی (کو اختیار ہے) جسے چاہے بادشاہی بخشے۔ وہ بڑا کشائش والا اور دانا ہے• (القرآن۔ سورہ البقرہ آیت: 247)”] [” وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت (کی کتاب) اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور حق ظاہر کرنے کے لئے اللہ ہی کافی ہے• (القرآن۔ الفتح:28)] ان آیات سے ان لوگوں کے سیاسی فلسفہ کی نفی ہوتی ہے جو سیاست کے لئے مال کی فراوانی وغیرہ کو معیار قرار دیتے ہیں،سیاستدان کے لئے ذاتی طور پر ”دولت مند“ ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اسے عالم باعمل اور شجاع (دلیر) ہونا چاہئے۔ جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی (حکیم الاُمّت’ مُصَّوِرِ پاکستان شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال رحمۃ اللہ ) مرادِ رسول الله ﷺ ‘خلیفۂ الراشد الثانی امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہٗ کا دورِ خلافت کرۂ ارض پر عالمِ انسانیت کے لئے ایک بہترین فلاحی اور اصلاحی حکومت کا نمونہ تھا جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سیاست کو اگر دینِ حق سے جُدا کر دیا جائے تو سیاست کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل دُنیائے سیاست کا ہے۔۔۔۔! ایک دفعہ خلیفۂ الرسول ‘ امیرالمؤمنین سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالٰی عنہٗ مسجد نبوی ﷺ میں منبرِ رسول اللہﷺ پر کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا! کہ ” اے عمر! ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہیں بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ دُگنا ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا تمہارے حصّے میں ملا تھا وہ اس سے آدھا تھا”۔ تو سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہٗ نے کہا کہ “کیا اس مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ ابنِ عمر موجود ہے؟ “۔ چنانچہ سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہٗ کھڑے ہوتے ہیں۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہٗ نے پوچھا کہ بیٹا بتاؤ! کہ ” تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے؟ ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میں قیامت تک اس مبارک منبر پر نہیں چڑھوں گا۔” سیدنا عبداللہ ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا! کہ “بابا کے حِصّے میں جو کپڑا ملا تھا وہ ناکافی تھا کہ حِصّہ بقدرِ جُثّہ آپ کا پورا جسم ڈھانپ سکے جبکہ آپ کے پاس پہلے سے پہنا ہوا جو لباس تھا وہ بھی بہت حد درجہ کا خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنے حِصّے کا کپڑا اپنے والد گرامی کو دے دیا تاکہ آپ پورا لباس زیب تن کر سکیں” ابن سعد اپنے طبقات میں یہ واقعہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ” لوگ ایک دن امیرالمؤمنین سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کے دروازے پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک کنیز(باندی) کا گزر ہوا۔ اُن لوگوں میں سے بعض کہنے لگے یہ باندی امیرالمؤمنین کی ہے۔ آپ (حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہٗ) نے سنتے ہی یہ فرمایا کہ “امیرالمؤمنین کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ اللہ جل جلالہٗ کے مال میں سے باندی رکھے۔ میرے لئے صرف دو جوڑے کپڑے ایک گرمی کا اور دوسرا جھاڑے کا اور اوسط درجے کا کھانا بیت المال سے لینا جائز ہے۔ باقی میری وہی حیثیت ہے جو ایک عام مسلمان کی ہے”۔ اپنے دور خلافت میں جب آپ رضی اللہ تعالٰی عنہٗ کسی شخص کو بطورِ گورنر یا عاملِ حکومت تقرری کرکے کسی خطے میں بھیجتے تو یہ شرائط بتا دیتے کہ “1-ترکی گھوڑے پر کبھی سوار نہیں ہونا؛ 2۔ عمدہ کھانا کبھی نہ کھانا؛ 3۔ باریک یا ریشمی کپڑا کبھی نہ پہننا اور؛ 4۔ حاجت مندوں کی داد رسی کرتے رہنا۔ ” اگر کسی گورنر یا عمالِ حکومت کو ان شرائط کی پاسداری کرتے نہ پاتے تو احتساب کرتے اور سزائیں دیتے۔